احتجاج, بائیکاٹ و فسادات تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء گوجرہ
احتجاج, بائیکاٹ و فسادات
تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء گوجرہ
معاملہ صرف بائیکاٹ تک ہی محدود ہوتا تو اور بات تھی۔یہاں معاملہ صرف اشیاء وغیرہ کی خرید و فروخت کا نہیں بلکہ ان کمپنیوں کا ہے جن کے باعث مسلمانوں کے بے شمار گھر برسرِ روزگار ہیں اور فاقوں سے بچے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی کتنی ہی بیٹیاں ان اداروں میں کام کرکے اپنی شادی اور جہیز کا سامان کر رہی ہیں ، کتنے ہی بیٹے اپنی تعلیم کا سلسلہ اور گھر والوں کے دال دلیئے کا سلسلہ ان اداروں سے جوڑے ہوئے ہیں۔۔۔ یہ کام حکومتی سطح پہ کرنے کے ہیں کہ وہ ان اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لے۔۔۔ دوسری طرف کاروباری معاملات بین الاقوامی معاہدات کے تحت ہوتے ہیں اور معاہدات کی اہمیت تو کتاب و سنت کی رو سے آپ کو معلوم ہے کہ معاملہ دشمن کا بھی ہو تو معاہدات کی پاسداری از بس ضروری ہے۔۔۔۔ ہم بین الاقوامی معاہدات جب تک منسوخ نہیں کرتے اور اقوامِ متحدہ کے اصول و ضوابط کے پابند ہیں تادیر ہم کسی دشمن کی املاک کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتے خواہ وہ قادیانی ہوں، ہنود ہوں یا یہود۔۔۔
لَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ ۔۔۔ (5:2), (5:8)
مت ابھارے تمہیں دشمنی کسی قوم کی
1️⃣اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۘ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ (5:2)
اس بات پر کہ تم کوئی بھی زیادتی کرو اور تعاون کرو (دشمنوں سے بھی) نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں اور مت تعاون کرو (کسی دشمن یا دوست سے) گناہ اور ظلم پر
2️⃣عَلٰٓى اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى (5:8) اس بات پر کہ تم عدل (درست روش) کو چھوڑ دو ہر صورت میں (دشمنوں سے بھی) عدل ہی اختیار کرو کہ یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔
مرمر اک بناون شیشہ ، مار وٹا اک بھن دے
دنیا اتے تھوڑے رہندے قدرشناس سخن دے
(میاں محمد بخش)
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پرواہِ نشیمن تم ہو
(اقبال)
کیا اس طرح کسی کے کاروبار پر پتھراؤ کرنا تعلیمِ کتاب و سنت یے ؟؟؟ جاہل مسلمانو ؟؟؟ کیا اس طرح دکانوں پر لوٹ مار درست ہے۔ان کے جاہل ماں باپ کی یہی تربیت لگتی ہے۔۔۔ اگر وہ خود چور نہیں تھے تو یہ چورڈاکو کس کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھے جن نے دین کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔۔۔ یہ غیرتِ ایمانی ہے یا کارِ شیطانی۔۔۔
تم مسلماں ہو ؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے
(اقبال)
پہلے حماس نے حکمتِ عملی کے بغیر جنگ کی حماقت کی اور اچھے بھلے غزہ کی خوبصورتی کو بدحالی کے عذاب میں بدل کر ہزاروں بچے یتیم کروائے اور اب اس پر مزید آپ کی حماقتیں یہ ہیں کہ کاروبار پر پتھراؤ کر رہے ہو۔۔۔ اتنا تو ہوتا نہیں کہ اپنی حکومتوں سے اعلانِ قتال کرواؤ۔۔۔ آسان کام پتھراؤ ہی بچتا ہے۔۔۔ کیا ان کاروباری مراکز میں کام کرنے والے یہودیوں کے بچے ہیں ؟؟ جو اپنے غریب ماں باپ کا واحد سہارا ہیں۔
کچھ تو شرم و حیاء کرو۔۔۔ کبھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ کرتے ہو اور کبھی کاروباری مراکز۔۔۔ خود تو تم سے کچھ ہوتا نہیں گھسیارو۔
یہ سب کچھ میری نظر میں کلی طور پر نہیں جزوی طور پر غلط ہو رہا ھے اور کوئی ایک غلطی مزید اغلاط کا جواز نہیں بن سکتی۔ غلط بہرطور اور بہرصورت غلط ہی ہے۔ دو منفی مل کر بھی جمع نہیں بن سکتے بلکہ ان کی جمع ریاضیات کے اعتبار سے بھی منفی ہی رہے گی اور کتاب و سنت کے اعتبار سے بھی۔ فلسطین میں مستضعفین (کمزوروں، نہتوں اور مجبوروں)پر جو مظالم ہو رہے ہیں وہ حماس کی حماقتوں ہی کا شاخسانہ ہیں۔ خدا کا قانون بڑا سخت ہے:
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
دنیا کے کمی کمین یا گیدڑ ہم خود بنے ہوں اور پنگے لینے کا شوق ہو ہمیں دنیا کے چودھریوں یا خونخوار درندوں سے تو ہمیں عقلمند کون کہے گا۔ ہم خود کسی درندے کے پیٹ میں لات ماریں تو کیا وہ ہمارا لحاظ کرے گا۔ پہلے اس قابل تو ہو لیں۔ مانگے تانگے کے اسلحے سے جہاد کرنے نکلے ہیں۔ واصف علی واصف کے سوال کا جواب کوئی ملا آج تک نہ دے سکا کہ کیا یہود سے اسلحہ لے کر ہنود کے خلاف جہاد جائز ہے۔ کیا یہودیوں کے جہازوں پر حج کے لئے جایا جا سکتا ہے ؟؟ کہیں ہمارا حج ہمارے دشمنوں کو فائدہ تو نہیں پہنچا رہا۔۔۔
ہوائیں اُن کی، فضائیں اُن کی، سمندر اُن کے، جہاز اُن کے (اقبال)
لعنتیں تو ہم خود پر برسا رہیں ہیں۔۔ دینی و مذہبی جماعتوں کے بڑوں کی اکثریت یا ان کی اولاد تو اب امریکی و کینیڈی شہریت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ غزہ والوں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ غزہ والوں اور غزہ والیوں کی بیہودہ لباسی اور ان کا اندازِ خورد و نوش و بود و باش سب کچھ مغرب زدہ اور یہودنواز تھا اور آج بھی ہے:
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک
نوجوان اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
دنیا کے حکمران جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اسی جمہوری نظام کا شاخسانہ ہیں جس کے تلوے ہماری مذہبی و دینی جماعتیں چاٹ رہی ہیں یا پھر اس آمریت کا پرتو ہیں
جس کی کوکھ سے طالبانی ملائیت، ایرانی پاپائیت اور سعودی ملوکیت جیسے جراثیم جنم لیتے ہیں اور ہماری دینی و مذہبی جماعتیں انہی الوکےپٹھوں کی حمایت کے لئے صف آراء ہوتی ہیں یہ دیکھے بغیر کہ وہاں نظام کون سا رائج ہے، انہی کے چندوں پہ پل کر پھر ان کے خلاف بولنے کی تکلیف تک گوارا نہیں کر سکتے:
"کاش یہ بے حس و بے وقعت و بے دل انساں
روم کے ظلم کی زندہ تصویر
اپنا ماحول بدل دینے کے قابل ہوتے
ڈیڑھ سو سال کے پابند سلاسل کتے
اپنے آقاوں سے لے سکتے خراجِ قوت
کاش یہ اپنے لیے آپ صف آراء ہوتے
اپنی تکلیف کا خود آپ مداوا ہوتے"
(ساحر لدھیانوی)
خود ہی جمہوریت و آمریت کے تلوے چاٹنے اور خود ہی حکمرانوں کو بٹھا کر امت مسلمہ کے 57 ممالک کو برا بھلا کہنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ پہلے آئین کو تسلیم کرنا اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر اس آئین کی منظوری بھی دینا اور گروپ فوٹو بھی بنانا اور پھر اس آئین کے تحت منتخب حکومتوں کو تسلیم بھی نہ کرنا اور ان کے اقدامات کو نہ ماننا یہ کفر ہے، فساد ہے یا کوئی دینی جواز ہے یا کوئی اصول ہے، آخر یہ ہے کیا ؟؟؟
جہاں تک ایٹمی قوت کا تعلق ہے تو یہ صرف امن کے لئے ہونی چاہیئے جنگ و جدل اور لِيُفۡسِدَ فِيۡهَا وَيُهۡلِكَ الۡحَـرۡثَ وَالنَّسۡلَؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الۡفَسَادَ (2:205) فساد برپا کرنے، کھیتیوں اور نسلوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے نہیں ہونی چاہیئے کہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا خواہ اپنے کریں یا بیگانے:
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
(ساحر لدھیانوی)
جہاں تک کرسی کے پجاریوں کا تعلق ہے تو سب سیاسی مداری اور سب طالع آزما ایک ہی سے ہیں ہیں۔۔۔ کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ سید مودودی رح کا ہی ارشاد ہے کہ انتخابی سیاست شکاری کتوں کی دوڑ ہے لہذا
اب جماعت بھی اس دوڑ میں شریک ہے تو پھر بھگتے اپنے کئے دھرے کا مزہ۔
اسرائیل جو کر رھا ھے نہ میری نظر میں وہ ٹھیک ھے اور نہ وہ ٹھیک ہے جو حماس یا کوئی اور کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی اپنے حصے کاجو کام کر رہی ھے اسے کتاب و سنت کی مطابقت و متابعت میں ہونا چاہیئے کہ اس کا دعویٰ ہی اسلامی جماعت ہونے کا ہے ورنہ میں نے لاہور میں 1985-1986 میں دیواروں پر کسی زمانے میں یہی لکھا پایا تھا : " نام اسلامی، کام حرامی۔۔۔ جماعتِ اسلامی، جماعتِ اسلامی (مسلم لیگ نظریاتی۔۔ میاں مومن جی گروپ)"۔
سید مودودی کے سابقہ ساتھیوں مثلا وحیدالدین خان نے ایک ضخیم کتاب "تعبیر کی غلطی" لکھ کر سمجھایا بھی مگر جماعت سیاسی تعبیرات سے باز نہ آئی بلکہ سیاست میں ورود سے اس کے اندر جو تناقض (منافقانہ طرزِ عمل) در آیا (بقول پروفیسر محمد عثمان مرحوم فی الکتاب "پاکستان کی سیاسی جماعتیں") وہ دُور نہ ہو پایا مگر میرا یہ معاملہ نہیں بلکہ یہ معاملہ ہے کہ ہمیں قدم بہ قدم وہی طریقہ اختیار کرنا ہے جس کی تعلیم کتاب و سنت میں ہے۔ لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا کر ان کا وقت ضائع کرنا اور کاروبار یا آمدورفت میں خلل ڈالنا یا توڑ پھوڑ کرنا کتاب و سنت کی تعلیمات سے صریح انحراف اور اسوۂ حسنۃ کے منافی ہے۔
اللہ تعالیٰ غزہ میں الخدمت فاؤنڈیشن کو اس کے امدادی کاموں پر جزائے خیر دے کہ جو بچے حماس کی غلطیوں نے یتیم کئے اور جو گھرانے حماس کی حماقتوں نے اجاڑے وہ ان کی دادرسی کر رہی ہے۔۔۔ یہ بہترین کارِ خیر ہے۔۔۔ بے شک
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
( احمد فراز)
مگر الخدمت والوں سے کہیں کہ اپنے اشتہارات میں خواتین کی نمائش جیسے کافرانہ کام نہ کیا کریں۔
الخدمت اکیلی تو مسلمان نہیں بلکہ بہت سے لوگ ایسا ہی نیک کام کر رہے ہیں مگر وہ ڈھنڈورے پیٹے بغیر اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو بھی قبول فرمائے۔۔۔ آمین
اصل بات یہ ہے کہ
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
ہر مقام کا ایک معیار ہوتا ہے۔ علامہ مشرقی فرماتے ہیں کہ کفر و اسلام کی جنگ میں خدا یہ نہیں دیکھتا کہ مسلمان کون ہے اور کافر کون۔۔۔ وہ تو جس کا پلہ بھاری دیکھتا ہے، اسے فتح دے دیتا ہے۔علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ کافر جنگ فکر و تدبر سے یعنی حکمتِ عملی سے کرتا ہے جبکہ ملا جہاد کے نام پر فساد کرتا ہے۔
دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد
قتال غم و غصہ و اشتعال کا نام نہیں کہ کبھی جلسے جلوس برپا کئے جائیں، کبھی ہڑتالیں کی جائیں تو کبھی دھرنے ڈالے جائیں۔۔ یہ کوکلا چھپاکی قسم کے کھیل تماشے ہمارا اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، ہمارا اپنا ہی وقت رائیگاں جاتا ہے۔ ہمارا اپنا ہی معاشی نقصان ہوتا ہے۔ بچوں کو تو ہم میڈیا کے سائے میں یا ارتطغرل جیسی ڈرامہ بازیوں کی چھاؤں میں یا سڑکوں پر جلسے جلوسوں میں لگائے رکھتے ہیں اور پھر روتے پھرتے ہیں کہ وہ کسی معیار پر پورے نہیں اترتے۔نہ انہیں حکومت کی سرکاری طبی و تکنیکی جامعات میں داخلہ ملتا ہے اور نہ ان ردی کے ٹکڑوں کو فوج بھرتی کرتی ہے۔ پھر غم و غصہ فوج پر نکلتا ہے یا حکومت پر۔۔۔۔۔ دینی، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے امیروں کبیروں کے بچے ان کے دشمن امریکہ وغیرہ کی جامعات میں پڑھتے ہیں اور خود ان کے پیروکار غصے کے مارے یہاں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔
یہ تعلیمِ کتاب و سنت نہیں۔۔۔ کہ فساد کہیں بھی ہو۔۔۔ کتاب و سنت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہی نہیں حرام ہے۔
جیسے وضو کی شرائط ہیں بعینہ جہاد و قتال و احتجاج کی شرعی حدود و قیود ہیں کہ جن کی خلاف ورزی کسی بھی نیک کام کو بھی حرام کاری میں بدل سکتی ہے۔۔۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ لَا تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِهَا (7:56) زمین میں اصلاح (قواعد و ضوابط و آئین و قوانین کی تنفیذ) کے بعد فساد ( بگاڑ) نہ کیا کرو۔۔۔ ہمارے جذبات و احساسات کو شریعت کے تابع ہونا چاہیئے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّامِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى وَاتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (5:8) اے ایمان والو ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ (کے قوانین) کے شاھد (گواہ) بن کر اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں نہ ابھارے کہ تم عدل (درست آئینی و قانونی روش) کو چھوڑ دو۔ بہرصورت عدل کرو کہ یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور ڈرو خدا سے کہ تم جو کام کرتے ہو خدا کو اس کی سب خبر ہے۔
مسلم ممالک میں موجود یہودی سرمایہ کاری مسلم حکمرانوں کی اجازت سے آئینی و قانونی طور پر ہے اور لاکھوں غریبوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ کئی مسلمان گھرانوں کے چولہوں میں اسی سرمایہ کاری کا تیل جلتا ہے۔ مذہبی ، دینی و سیاسی جماعتوں کے بڑوں کو کیا تکلیف ہے کہ ان کے پیٹ ہر طرح کی خباثتوں سے بھرے ہیں۔۔ وہ چند دن امریکہ و برطانیہ و سعودیہ وغیرہ سیرسپاٹے بھی کر آئیں تو ان اہلِ دولت و سرمایہ کے گھروں کے نہ چراغ گل ہوتے ہیں نہ چولہے سرد ہوتے ہیں۔۔۔۔ قیامتیں تو غریبانِ ملت پر ٹوٹتی ہیں۔۔۔۔ انہی غریبوں کو ان کے مالکان پتھراؤ پر لگا دیتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ کتنے مسلمانوں کا روزگار اس فساد سے متاثر ہو گا۔ ان امرآء و رؤسا کو یہی کہنا زیبا ہے کہ
تو نے دیکھی ہے فقط گرمئ رخسارِ حیات
میں نے اس آگ میں جلتے ہوئے دل دیکھے ہیں
اسی جذباتیت نے ہمیشہ ہماری قوم کا ستیاناس کیا۔۔۔ کبھی مشرک ہنود کے ساتھ مل کر 1857 میں اہلِ کتاب انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تو کبھی افغانستان میں امریکہ نوازی میں روسیوں کے خلاف اور کبھی امریکیوں کے خلاف جہاد کیا۔۔۔ میں اسرائیل اور ہنود و یہود کا سخت مخالف ہوں مگر حکمتِ عملی کا قائل ہوں فساد (توڑ پھوڑ) کا نہیں۔۔۔ اور ہمیشہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، محسنِ ملت سرسید احمد خان اور بابائے قوم محمد علی جناح جیسی حکمتِ عملی ہی کام آتی ہے۔
مزے کی بات ہے کہ ان بددعاؤں سے بھی یہود و ہنود کا کچھ نہیں بگڑ رہا بلکہ وہ شبانہ روز دن دگنی رات چوگنی ترقی کرکے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں سچ ہے کہ خدا کبھی ان لوگوں کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہ بدلیں اور دنیا و آخرت کی حسنات کی دعا کے آگے قران میں مذکور ہے کہ ان کو ملے گا وہی کہ جو ان کے اپنے کسب ہیں۔ بعض ایسے بے غیرت مسلمان بھی ہیں کہ بے پردہ عورتوں کی تصاویر اور ویڈیوز لگا کر احتجاج کر رہے ہیں۔۔۔ ان سے صرف یہی کہنا ہے کہ الو کے پٹھو بے پردہ ،بے شرم اور بے حیاء عورتوں کی یہ جو نمائشی ویڈیو لگا رکھی ہے کیا یہ اسلام ہے ؟؟؟ پہلے مسلمان تو ہو جاؤ بے غیرت دیوثو
مسلمان تو ہو جاؤ بے غیرت دیوثو
خدا کے لئے دین کے نام پر بے پردہ کنجریوں کی تصاویر یا ویڈیوز شیئر نہ کیا کرو۔
Comments
Post a Comment