Posts

مشتری ہشیار باش

Image
مشتری ہشیار باش تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء جو احباب بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اپنی بلوغت کے اچھے خاصے ہوش و حواس میں تھے ان نے پیپلزپارٹی کے مخالفین کا ایک ترانہ سڑکوں پر بجتا ضرور سُنا ہو گا: پی پی جی کھیڑا جان دیو (یعنی پیپلزپارٹی اب ہماری جان چھوڑو)۔ ہمیں اس دور میں اپنے انقلابی رجحانات کے پیشِ نظر جنونِ عشق کی حد تک پیپلزپارٹی سے لگاؤ تھا مگر اس ترانے کے الفاظ کے انتخاب کے باعث  اور میزانِ ادبیات میں پورا اترنے کے سبب ہم بھی اس سے لطف اندوز ہو لیتے تھے، حالانکہ اس کا یہ بند ہمیں بطورِ خاص بہت چُبھتا تھا: جیہڑا غنڈا ایہہ مشٹنڈا ایہہ جیہڑا دینوں عملوں ٹھنڈا ایہہ اودھے ہتھ ترنگا چھنڈا ایہہ جس کا مفہوم یہ تھا کہ جو بدمعاش و بدقماش ہے، جو دین پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے یعنی نماز روزہ کا پابند نہیں، بس وہی تو پیپلزپارٹی کا ترنگا جھنڈا لہرائے پھرتا ہے۔ یہ الفاظ سن کر ہم اپنے گریبان میں جھانکتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ الفاظ درست نہیں کیونکہ ہم نماز بھی پڑھتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے۔۔۔ بعد ازاں ہمیں  اس پارٹی کے جلسے جلوسوں میں وہ مخلوق...

سُراغِ نوح علیہ السلام۔۔ تحریر و تحقیق ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

Image
 سراغِ نوح علیہ السلام تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء۔ گوجرہ  کتابِ مقدس (بائیبل) یہ ذکر تو کرتی ہے کہ جب نوح علیہ السلام کی عمر 500 سال تھی تو ان کے تین بیٹے تھے یا طوفانِ نوح کے وقت نوح علیہ السلام کی عمر کے 600 برس تھی مگر نوح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش یا زمانے کا کوئی تذکرہ نہیں کرتی۔ نہ ماہ و سال کی کوئی تخصیص نہ یومِ پیدائش کی۔ طوفانِ نوح کا روایتی زمانہ کتابِ مقدس کے مطابق تو تقریبا 2348 سال قبلِ مسیح کا بنتا ہے۔ جبکہ ارضیاتی و سائینسی طور پر سیلاب کی باقیات کے تجزیہ کی تاریخ سے  وسطی میسوپوٹیمیا کے  سیلاب کا زمانہ 3000 سال قبلِ مسیح بنتا ہے ۔ اس تاریخی داستان کا اہم ترین ہیرو گیلگامیش 2700 قبل مسیح میں ارک کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ جو سیلاب کے بعد ایک کشتی میں بچ رہا۔ گیلگامیش کے حوادث کو اگر سمیری بادشاہوں کی تاریخ کی مطابقت میں دیکھا جائے تو یہ زمانہ 3 ہزار سال قبلِ مسیح کا بنتا ہے۔ اگر تمام آثار و قرائن کا بیک وقت مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب 5 ہزار سال قبلِ مسیح میں آیا۔ مگر ہمارے پاس جتنا بھی تحریری تاریخی مواد دستیاب ہے  اس کا ...

احتجاج, بائیکاٹ و فسادات تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء گوجرہ

احتجاج, بائیکاٹ و فسادات  تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء گوجرہ     معاملہ صرف بائیکاٹ تک ہی محدود ہوتا تو اور بات تھی۔ یہاں معاملہ صرف اشیاء وغیرہ کی خرید و فروخت کا نہیں بلکہ ان کمپنیوں کا ہے جن کے باعث مسلمانوں کے بے شمار گھر برسرِ روزگار ہیں اور فاقوں سے بچے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی کتنی ہی بیٹیاں ان اداروں میں کام کرکے اپنی شادی اور جہیز کا سامان کر رہی ہیں ، کتنے ہی بیٹے اپنی تعلیم کا سلسلہ اور گھر والوں کے دال دلیئے کا سلسلہ ان اداروں سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ۔۔ یہ کام حکومتی سطح پہ کرنے کے ہیں کہ وہ ان اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لے۔۔۔ دوسری طرف کاروباری معاملات بین الاقوامی معاہدات کے تحت ہوتے ہیں اور معاہدات کی اہمیت تو کتاب و سنت کی رو سے آپ کو معلوم ہے کہ معاملہ دشمن کا بھی ہو تو معاہدات کی پاسداری از بس ضروری ہے۔۔۔۔ ہم بین الاقوامی معاہدات جب تک منسوخ نہیں کرتے اور اقوامِ متحدہ کے اصول و ضوابط کے پابند ہیں تادیر ہم کسی دشمن کی املاک کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتے خواہ وہ قادیانی ہوں، ہنود ہوں یا یہود۔۔۔  لَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ ۔۔۔ (5:2), (5:8) مت ابھارے تمہیں ...