مشتری ہشیار باش

مشتری ہشیار باش
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
جو احباب بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اپنی بلوغت کے اچھے خاصے ہوش و حواس میں تھے ان نے پیپلزپارٹی کے مخالفین کا ایک ترانہ سڑکوں پر بجتا ضرور سُنا ہو گا: پی پی جی کھیڑا جان دیو (یعنی پیپلزپارٹی اب ہماری جان چھوڑو)۔ ہمیں اس دور میں اپنے انقلابی رجحانات کے پیشِ نظر جنونِ عشق کی حد تک پیپلزپارٹی سے لگاؤ تھا مگر اس ترانے کے الفاظ کے انتخاب کے باعث  اور میزانِ ادبیات میں پورا اترنے کے سبب ہم بھی اس سے لطف اندوز ہو لیتے تھے، حالانکہ اس کا یہ بند ہمیں بطورِ خاص بہت چُبھتا تھا:
جیہڑا غنڈا ایہہ مشٹنڈا ایہہ
جیہڑا دینوں عملوں ٹھنڈا ایہہ
اودھے ہتھ ترنگا چھنڈا ایہہ
جس کا مفہوم یہ تھا کہ جو بدمعاش و بدقماش ہے، جو دین پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے یعنی نماز روزہ کا پابند نہیں، بس وہی تو پیپلزپارٹی کا ترنگا جھنڈا لہرائے پھرتا ہے۔
یہ الفاظ سن کر ہم اپنے گریبان میں جھانکتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ یہ الفاظ درست نہیں کیونکہ ہم نماز بھی پڑھتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے۔۔۔
بعد ازاں ہمیں  اس پارٹی کے جلسے جلوسوں میں وہ مخلوق کثرت سے دیکھنے کو مل گئی جس میں اس ترانے میں مذکور خصوصیات بدرجۂ اتم پائی جاتی تھیں۔ ان میں ایسی خواتین بھی تھیں جو جلوسوں میں اجنبی مردوں کے پیچھے راہ چلتے موٹر سائیکل یا ویسپا اسکوٹر پر سوار ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر نعرے لگاتیں: مانگے نہ ملے گی آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی۔۔۔ اس دور میں یہ مخلوق واقعی کسی اور سیارے سے اتری ہوئی واہیاتی معلوم دیتی تھی مگر پھر یہ واہیاتی چالیس برس بعد جلسوں جلوسوں میں کیا شادی بیاہوں میں بھی ایسے عام ہوئی کہ اس نے اس دور کے کنجروں اور کنجریوں کو ہی پیچھے چھوڑ دیا۔ اب اس واہیاتی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
اب ایک بیچاری پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ خیر سے مسلمانوں کے صغیروں کبیروں کی کوئی انفرادی یا اجتماعی سطح ایسی نہیں رہی جہاں یہ واہیات مخلوق کہیں نہ کہیں نہ گھس بیٹھی ہو ۔
ان لوگوں کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ ان کم بختوں کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں اور منہ دکھانے کو یہ مسلمان بھی کہلاتے ہیں مگر ان میں مسلمانی کی کوئی ادنیٰ سی رمق بھی باقی نہیں۔ ان کے اندر کا مسلمان مر چکا ہے اب ان کا جسم محض اپنی مسلمانی کا جنازہ اٹھائے زندہ لاش کی صورت پھر رہا ہے:
تیرے محیط میں کوئی گوہرِ زندگی نہیں
دیکھ چکا میں موج موج، ڈھونڈ چکا صدف صدف
یعنی ان کے صرف نام ہی مسلمانوں سے رہ گئے ہیں اور صوفی و مُلا اس ڈر سے انہیں مسلمان کہ دیتے ہیں مبادا دائرۂ اسلام ان کے اخراج سے قطر میں چھوٹا  ہو جائے، حالانکہ صحابہ رض کا اجماعی فیصلہ ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا مسلمان ہی نہیں۔۔ کتاب و سنت میں اس کے واضح و منصوص دلائل ہیں کہ بے نمازی مسلمان نہیں ہے۔۔ کلمے کے اقرار اور قلبی تصدیق کے بعد نماز ہی تو پہلا لازمہ ہے کہ جس کے بغیر نہ اسلام کا کچھ اعتبار ہے اور نہ ایمان کا۔
1️⃣ یعنی ان کم بختوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے محض نام مسلمانوں جیسے ہیں مگر کام نہیں۔
2️⃣ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ نماز نہیں ادا کرتے۔ 
3️⃣ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ مساجد سے مفرور اور گریزاں ہوتے ہیں۔ آپ ان کو شاذ و نادر ہی کسی مسجد میں پائیں گے۔
4️⃣ ان کی چوتھی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اول تو یہ قرآنِ مجید پڑھتے ہی نہیں اور اگر پڑھیں بھی تو دل لگا کر اس میں غور و فکر کرکے نہیں پڑھتے بلکہ اگر کبھی قرانِ مجید پر توجہ دے بیٹھیں تو اپنی اصلاحِ قلب اور تزکیۂ نفس کے لئے نہیں پڑھتے بلکہ اپنے مخصوص نکتۂ نظر کے ثابت کرنے یا اپنے اٹکل پچو دوڑانے یا اپنا الو سیدھا کرنے یعنی اپنی مطلب برآری کے لئے تاویلات کرنے کو قران کھولتے ہیں اور پھر ایسی دُور از کار تاویلات کرتے ہیں جن کا نہ سر ہوتا ہے نہ پیر:
الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ (وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں ٹیڑھ یا کج پن ہے پس وہ پیچھے پڑتے ہیں متشابہھات کے تاکہ اس کے ذریعے سے فتنہ گری اختیار کریں اور اس کی تاویلات کریں حالانکہ ان کی  اصل تاویل بجز خدا کے اور کوئی جانتا ہی نہیں) (3:7)
5️⃣ پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ ان کو عربی زبان نہیں آتی کہ کتاب و سنت سے اس کی اصل زبان میں براہِ راست استفادہ کر سکیں۔ محض ترجمے پڑھ کر اپنے تیر تُکے چلاتے ہیں تاکہ مخالفین کو زیر کر سکیں۔
6️⃣ زحمتِ روزہ گوارا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ لوگ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو تُھو پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ دعوتِ افطار بھی سجاتے ملتے ہیں، عید ملن تقریبات کا بھی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ سیرسپاٹے کرکے نام نہاد عید بھی منا لیتے ہیں مگر مجال ہے جو کبھی روزے کے قریب بھی پھٹک جائیں۔
7️⃣ خود تو شعائرِ اسلام سے پہلو تہی کئیے ہوتے ہیں مگر معاشرے میں نماز روزے پر عمل پیرا لوگ ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی نماز روزہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کو یہ سب کچھ ناگوار ہے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ارکانِ اسلام پر عمل کرکے ان کو احساسِ ندامت و خفت میں مبتلا نہ کیا جائے بلکہ انہی جیسا ہو جایا  جائے تاکہ ان کو احسسِ شرمندگی نہ ہو کہ ہم مسلمان ہو کر بھی نماز و روزہ و قربانی و حج سے گریزاں ہیں اور یہ سب اس پر عمل پیرا ہیں۔ ظاہر ہے تواتر و تعامل و توارث و اجماع پر یہ قینچی چلانے اور دستبرد کرنے سے تو رہے۔ ایسے میں ان کا طریقۂ واردات یوں ہوتا ہے کہ اجی چھوڑیئے میاں نماز اصل میں دل کی نماز ہے، روزہ اصل میں احساسِ ہمدردی کا نام ہے، حج انسانوں کے باہمی میل جول سے عبارت ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کچھ اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور یہود کی طرح تحریفِ معنوی کے مرتکب ہوتے ہیں مثلا جہاں جنگل کا شیر مراد لینا ہو اس کو بہادر آدمی بتاتے پھرتے ہیں اور جہاں بہادر آدمی کا ذکر کرنا ہو اسے اصلی بھیڑیا اور درندہ بتا دیتے ہیں۔ یہ تو صرف مثال دی ہے کہ وہ اسلامی اصطلاحات کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ مثلا بلا شبہ صلوٰۃ کئی مفاہیم و معانی میں مستعمل ہے مگر یہ اس کی آڑ میں صلوٰۃِ مؤقتہ (نماز) اور اس کے مساجد میں اجتماعات پر حتی کہ رکوع و سجود پر بھی حرف زنی کرتے ہیں کہ جی رکوع تو دراصل فروتنی کا نام ہے اور سجدہ سرِ تسلیم خم کرنے کا۔۔۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کی طبعِ آزاد مراسمِ عبودیت کا بارِ گراں اپنی خواہشاتِ نفسانی کے دوشِ ناتواں پر اٹھانے سے چونکہ قاصر ہوتی ہے لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی نماز روزہ سے چھڑا دیں تاکہ سب برابر ہو جائیں۔
8️⃣ ان کی ایک اہم پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے چہرے پر اول تو داڑھی ہوتی نہیں اور اگر ہو بھی تو کافرانہ انداز اور وضع قطع کی ہوتی ہے شرعی اصول و ضوابط کے مطابق نہیں ہوتی محض فیشن آلود ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس کو بھی آپ بغیر داڑھی کے دیکھیں اسی قبیل کا سمجھ لیں ہر گز نہیں۔۔۔ مثلا ہمارے قائداعظم محمد علی جناح، ہمارے علامہ اقبال، ہمارے علامہ پرویز صاحب و پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب وغیرہم بغیر داڑھی ہی کے ہیں مگر اپنے گوناگوں نظریات سے قطع نظر سچے اور پکے مسلمان ہیں۔ جبکہ بہت سے دہریئے ایسے ہیں جن نے اپنے چہرے پر کفار کی طرز کی داڑھیاں بڑھا رکھی ہیں مثلا مارکسی و ڈاروینی طرز کی مگر داڑھیوں کے باوجود پکے کافر ہیں۔
9️⃣ان میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ یہ مغربی جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔
مسلم قومیت و تشخص و دو قومی نظریہ و نظریۂ پاکستان کو ہدفِ طعن و تشنیع و تنقید بناتے ہیں، آزادئ نسواں و عریانیت۔ کے کسی نہ کسی درجہ میں قائل ہوتے ہیں۔
سائینس  یا تاریخ نہ بھی پڑھے ہوں تو بھی اپنے زاویۂ نگاہ سے سائینس اور تاریخ سے ایسی تاویلات برامد کرتے ہیں جس سے قوم و ملت و دین و مذہب پر زد پڑے اور ان کا الو سیدھا ہو اور مسلم معاشرت سے شرم و حیاء کے جنازے اٹھیں اور اقدارِ ملت پامال ہو جائیں۔
🔟 یہ لوگ دین و مذہب کی اصلاح کے نام پر گروپ بناتے ہیں یا کسی گروپ میں خود جا گھستے ہیں یا اکیلے ہی اپنی دانش و بینش بگھارنے اور اٹکل پچو دوڑانے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
1️⃣1️⃣ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ ہیں کون جو مسلمانوں جیسے نام رکھ کر مسلمانوں کی جڑیں کھوکھلی کرتے پھرتے ہیں تو ان کے ناموں سے نہیں بلکہ ان کے کاموں اور کالی کرتوتوں سے انہیں پہچان جائیے اور ان پر کڑی نظر رکھیئے۔

Comments

Popular posts from this blog

احتجاج, بائیکاٹ و فسادات تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء گوجرہ

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ