سُراغِ نوح علیہ السلام۔۔ تحریر و تحقیق ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

 سراغِ نوح علیہ السلام
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء۔ گوجرہ 
کتابِ مقدس (بائیبل) یہ ذکر تو کرتی ہے کہ جب نوح علیہ السلام کی عمر 500 سال تھی تو ان کے تین بیٹے تھے یا طوفانِ نوح کے وقت نوح علیہ السلام کی عمر کے 600 برس تھی مگر نوح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش یا زمانے کا کوئی تذکرہ نہیں کرتی۔ نہ ماہ و سال کی کوئی تخصیص نہ یومِ پیدائش کی۔
طوفانِ نوح کا روایتی زمانہ کتابِ مقدس کے مطابق تو تقریبا 2348 سال قبلِ مسیح کا بنتا ہے۔ جبکہ ارضیاتی و سائینسی طور پر سیلاب کی باقیات کے تجزیہ کی تاریخ سے  وسطی میسوپوٹیمیا کے  سیلاب کا زمانہ 3000 سال قبلِ مسیح بنتا ہے ۔ اس تاریخی داستان کا اہم ترین ہیرو گیلگامیش 2700 قبل مسیح میں ارک کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔
جو سیلاب کے بعد ایک کشتی میں بچ رہا۔
گیلگامیش کے حوادث کو اگر سمیری بادشاہوں کی تاریخ کی مطابقت میں دیکھا جائے تو یہ زمانہ 3 ہزار سال قبلِ مسیح کا بنتا ہے۔ اگر تمام آثار و قرائن کا بیک وقت مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب 5 ہزار سال قبلِ مسیح میں آیا۔ مگر ہمارے پاس جتنا بھی تحریری تاریخی مواد دستیاب ہے  اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ 3000 سال قبلِ مسیح ہے۔
 یہی وہ زمانہ ہے جب شہروں کی ابتداء ہوئی اور نسلِ انسانی خاندانوں کی شکل میں نمودار ہوئی۔ ارضیاتی طور پر 10 ہزار سال پہلے کے بھی کسی سیلاب کے آثار ملتے ہیں مگر کسی بھی تاریخی مواد 
 میں اس کا کوئی بھی ذکر کہیں نہیں ملتا ۔ زیادہ سے زیادہ یا تو 3 ہزار سال قبل میسوپوٹیمیا کی وادی کے ایک مقامی دریا کے سیلاب کا ذکر ملتا ہے یا زیادہ سے زیادہ کہیں  اب سے 7500 سال پہلے (تقریبا 5 ہزار سال قبل مسیح میں) بحیرۂ اسود کے ایک بڑے سیلاب کا ذکر ملتا ہے۔
یہ ساتویں صدی قبلِ مسیح 11 ویں کیونیفارم تختی بھی داستانِ گیلگامیش کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو نینوا سے ملی اور اب برطانوی عجائب گھر کی زینت ہے۔
داستانِ گیلکامیش عکادی زبان میں ہے
کُل تختیاں 12 ہیں۔ جو اساوری بادشاہ  جس کا زمانہ تقریبا 650 قبلِ مسیح تھا اس کےمحل کے کھنڈرات سے نینوا میں ملی تھیں۔ ان میں جو گم شدہ کڑیاں تھیں وہ میسوپوٹیمیا اور اناطولیہ 
 کے کھنڈرات کے مخطوطات میں مل گئیں۔ ان میں 5 وہ منظومات بھی ہیں جو سماری زبان کی ہیں اوردوسرے ہزار سال قبلِ مسیح کے وسط میں تحریر ہوئیں۔
جن زبانوں میں یہ مخطوطات ہیں وہ بھی اب ناپید ہیں بس سراغ ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ 
خود زبانوں کا آغاز بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ انسانوں میں زبان و بیان کی صلاحیت کی ابتداء تقریبا ایک لاکھ 35 ہزار سال قبل ہوئی مگر اس کا سماجی روابط میں استعمال صرف ایک لاکھ سال قبل شروع ہوا۔ لیکن اصلا آج سے صرف 60 ہزار برس پہلے جدید انسانوں کے افریقہ سے نکل کر میسوپوٹیمیا میں آنے کے سفر کے دوران زبانیں صحیح طور پر نکھرنے لگیں۔
 سب کچھ رفتہ رفتہ ہوا۔ خلق الانسان اس نے انسان کی تخلیق کی پھر علمہ البیان اس کو بیان یعنی ما فی الضمیر کے اظہار کی قدرت اور وضاحت و فصاحت و بلاغت کا ملکہ عطا کیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ علم بالقلم اس کو تحریری علم سے نوازا گیا۔۔۔ آدم علیہ السلام تک آتے آتے قافلۂ ارتقائے انسانی نے کئی پڑاؤ بدلے کئی منازل طے کیں یہاں تک کہ وہ مقام آگیا کہ جہاں آدم علیہ السلام کو خلافتِ ارضی ، کلماتِ ربانی، علم الاسمآء سے نوازا گیا۔
جسے ہم علم التحریر کہتے ہیں یہ کوئی زیادہ دور کی بات  نہیں۔ سب سے قدیم تحریریں ہمیں مصری مخطوطات میں 2 ہزار سات سو سال قبل مسیح میں یعنی آج سے تقریبا 6 ہزار سال پہلے ملتی ہیں۔
 ریاضی کے ابتدائی موہوم نقوش بھی ہمیں تحریری طور پر اسی زمانے میں ملتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ اس دور میں ماہ و سال کا زبان و بیان میں کیا رنگ و آہنگ ہو گا۔ تاہم 3 ہزار سال قبلِ مسیح میں ہمیں سماری، بابلی اور مصری تہذیبوں میں قدیم تقویم یعنی پرانے کیلنڈروں کے استعمال کا سراغ ملتا ہے۔ مثلا مصری تقویم کا انحصار دریائے نیل کے سیلابوں پر تھا۔یہ تقویمات زراعت، مذہبی تقریبات وغیرہ کے لئے استعمال میں آتی تھیں۔ ان میں شمسی و قمری دونوں طرح کے طریقہ ہائے حساب پائے جاتے تھے۔ رومی کیلینڈر کا آغاز ساتویں صدی قبل مسیح سے ہوتا ہے۔ جس کی ابتداء  قمری ادوار یا منازل تھیں۔ 46 قبل مسیح میں جولیس سیزر نے اس کی تجدیدِ نو کی۔ جس میں اس نے شمسی تقویم کا لحاظ رکھا اور  لیپ کا سال متعارف کروایا۔ یہ جولیئن کیلنڈر کا آغاز تھا۔۔۔ جبکہ گریگوری کیلنڈر   1582 عیسوی سے شروع ہوا۔ جس نے جولیئن کیلنڈر کو مزید  بہتر کیا اور یہی وہ کیلنڈر ہے جو اس وقت پوری دنیا میں رائج ہے۔
قرانِ مجید 1400 سال پہلے سنۃ کا بھی ذکر کرتا ہے اور عام کا بھی۔۔۔ عام تو عربی میں سال ہی کو کہتے ہیں البتہ سنۃ کے مفہوم میں زبان دانوں اور عربی دانوں کا اختلاف ہے ۔ ایسے میں عمرِ نوح علیہ السلام کا شمار کون کرے اور کیسے کرے۔ 

 



Comments

Popular posts from this blog

احتجاج, بائیکاٹ و فسادات تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء گوجرہ

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ