قربانی کی قبولیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی کی قبولیت
تحریرِ : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
drziaullahzia@gmail.com.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          اس سے قبل کہ اصل عنوان کو زیرِ بحث لایا جائے تمہیداً منطق یعنی logic کے ایک بنیادی اصول کو ایک سادہ مثال سے سمجھ لیجئیےـ منطق میں دو مقدمات کے باہمی تقابل سے ایک نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مثلاً مقدمہ  اول ہے کہ جمشید ایک انسان ہے اور مقدمہ دوئم ہے کہ ہر انسان کی 2 آنکھیں ہیں۔ ان مقدمات سے لامحالہ یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جمشید اگر انسان کا بچہ ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کی بھی دو عدد آنکھیں ہی ہوں۔
بعینہ قرآنی آیات کے منطقی استدلال سے بھی تفسیری نتاج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مقدمہ اول ہے کہ اعدت للمتقین کہ جنت متقین کے لئے تیار کی گئی ہے اور مقدمہ ثانی ہے کہ من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی فان الجنة ھی الماوی کہ جس نے اپنے رب کے حضور پیشی کے خوف سے اپنے تئیں خواہشاتِ نفسانی سے بچا لیا جنت اسی کو سزاوار ہے۔ ان مقدمات سے یہ نتیجہ بجا طور پر اخذ ہوتا ہے کہ متقی وہ شخص ہے کہ جو خدااندیشی کے تحت خواہشات نفسانی سے اپنے آپ کو بچا لے۔ اس نتیجےکو سامنے رکھتے ہوئے ایک اور منطقی استدلال پر غور فرمائیے کہ مقدمہ اول ہے کہ یتقبل من المتقین کہ اللہ تعالی متقین ہی کی قربانی قبول فرماتا ہے اور مقدمہ دوم یوں ہے کہ ان الذین اتقوا کہ بے شک جو لوگ متقین ہیں اذا مسھم طائف من الشیطان جب انہیں کوئی آوارہ شیطانی خیال بھی چھو جائے فتذکروا وہ اللہ کے تذکرہ سے صاحبانِ بصیرت ہو جاتے ہیں۔ فحاشی ان کے روزمرہ کا مشغلہ نہیں ہوتا البتہ اذا فعلوا فاحشہ اگر کبھی شاز و نادر ان سے کسی فحش امر کا ارتکاب ہو جائے تو وہ اس پر کاربند نہیں رہتے اور تلافئ مافات کرتے ہیں۔ ان تمام مقدمات کا مجموعی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ قربانی کی قبولیت کے لئے تقوی شعاری لازم و ملزوم ہے اور تقوی شعاری عبارت ہے خواہشات نفسانی سے خود کو بچانے سے، خیالات تک کی سطح پر بھی پاکدامنی و پارسائی سے اور فحش امور سے کنارہ کشی سے۔ اگر اب بھی کوئی اس امر کا مدعی ہو کہ خواہشات نفسانی میں الواث، بدفکری و بدنظری اور فحش امور کا ارتکاب اس کی قربانی کی قبولیت میں مانع نہ ہو گا تو وہ آیات الہی کی تکذیب کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کے ہاں فواحش و منکرات کا دوردورہ ہے مگر طرہ یہ کہ بایں ہمہ وہ قربانی کی قبولیت کی امید بھی رکھتا ہے۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں تقوی شعار بنا دے کیونکہ یتقبل من المتقین کہ وہ تو صرف تقوی شعاروں ہی کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔ آمین

      جب آدم کے دو بیٹوں نےقَرَّبَا قُرْبَانًا ( قربانی کی)  فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا ( ان میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی ) وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ (جبکہ دوسرے کی قربانی رد کر دی گئی) تو جس کی قربانی کو شرف قبولیت عطا ہوا تھا اس نے اس قبولیت کا باعث تقوی ہی کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (بے شک اللہ تعالی صرف متقین ہی کی قربانی قبول فرماتا ہے) ( المائدہ27)۔    
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ۔۔۔ اللہ کو  قربانی کی     مادی حیثیت یعنی گوشت پوست یا خون سے کچھ بھی تو غرض نہیں اس تک اگر رسائی ہے تو تمہاری اپنی تقوی شعاری ہی کی ہے ۔ قربانی کا جانور جو تمہاری دسترس میں دے دیا گیا ہے وہ تو محض اسی تقوی شعاری کا ایک علامتی اظہار ہے  تاکہ تم اس ھدایت یابی پر اپنی قلبی کیفیات کو اللہ کی کبریائی  سے بیان کرو کہ بشارت تو بہترین حسنِ کردار پر ہی ہے۔
ان معروضات سے اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ ہم سب ظواہر اور مادیات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ قربانی کے جانور کے وزن اور دانتوں تک کے تخمین و ظن پر تمام توجہ صرف کر دیتے ہیں مگر تقوی ہمارے حیطہ ادراک میں نہیں ہے۔ کہ جس کے بغیر قربانی ہی قبول نہیں ہوتی۔ گزشتہ سطور میں بتا دیا گیا تھا کہ از روئے قرآن تقوی اللہ تعالی کے خوف سے خواہشاتِ نفسانی پر قابو پانے کا نام ہے  یعنی اتنی حساس طبعی  کہ کوئی آوارہ شیطانی خیال بھی چھو جائے تو  اس کو رو بہ عمل لانا تو درکنار ، انسان فورا چوکنا ہو کر سنبھل جائے اور اگر کبھی کوئی فحش حرکت سرزد ہو جائے تو فورا اسے ترک کر کے تلافئ مافات میں ہمہ تن لگ جائے یعنی فحاشی متقی شخص کے روزمرہ کا معمول نہیں ہوتا۔ نہ تو وہ  بیہودہ مشاغل کو اختیار کرتا ہے اور نہ یاوہ گوئی کرتا ہے۔ 

فحاشی و بدکرداری میں الواث، نماز سے پہلو تہی، روزہ سے کنارہ کشی اور یہ توقع کہ قربانی بایں ہمہ بارگاہِ الہی میں کوئی بار پائے گی۔جبکہ  بارگاہِ الہی میں قربانی کی قبولیت کی شرط تقوی شعاری ہے۔ اگر یہ نہیں تو قربانی بھی نہیں اس کی قبولیت تو بہت دور کی کوڑی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ