امیروں کی جنت
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت صرف اچھے کاموں پر نہیں بلکہ سختیوں، تکالیف اور جھٹکوں سے گزر کر ملے گی
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا (2:214)
تم کیا سمجھ بیٹھے ہو کہ محض یونہی جنت میں جا داخل ہو گے جبکہ ابھی تو تم پر وہ آفتیں نہیں آئیں جیسا کہ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر ٹوٹیں۔ انہیں سختیوں، تکلیفوں نے گھیرا اور وہ جھٹکوں سے ہلا ئے گئے۔
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
جبکہ جہنم میں جانے کے لئے آرام و آسائش ہی کافی ہے کسی برائی کا سرزد ہونا تو بہت دور کی بات ہے
اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَبۡلَ ذٰ لِكَ مُتۡرَفِيۡنَۚ وَكَانُوۡا يُصِرُّوۡنَ عَلَى الۡحِنۡثِ الۡعَظِيۡمِۚ (46-56:45)
دوزخ کی آگ میں آنے سے پہلے یہ بڑے آرام و آسائش والے خوشحال لوگ تھے اور اسی حنثِ عظیم (بڑے قصور یعنی آرام طلبی) میں مبتلا تھے۔ یہی آرام طلبی ، آسودہ حالی اور خوشحالی انسان کو گناہ پر اکساتی ہے:
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَيَطۡغٰٓىۙ اَنۡ رَّاٰهُ اسۡتَغۡنٰىؕ (7-96:6)
یقینا انسان سرکشی (نافرمانی) پر اتر آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو صاحبِ مال و خوشحال پاتا ہے۔
قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ جنت چاہیے تو تکالیف، سختیوں اور زلزلوں سے گزرنا ضروری ہے مگر دوزخ چاہیئے تو آرام و آسائش کی زندگی ہی کافی ہے کیونکہ اس میں گناہوں کی کثرت کے بڑے مواقع ہیں جو تکالیف و مصائب میں میسر ہی نہیں آ سکتے۔ خوشحالی میں تو استدراج (درجہ بدرجہ غیر محسوس طور پر نیچے گرنے) کا پتہ بھی نہیں چلتا:
سَنَسۡتَدۡرِجُهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ لَا يَعۡلَمُوۡنَ
(7:182);(68:44)
تکذیب کرنے والوں کا ہم یوں استدراج کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے گا۔
یہ تکذیب کرنےوالے کون ہیں ؟
وہی خوشحال و آسودہ حال لوگ ۔۔۔۔۔ نعمتوں والے
ذَرۡنِىۡ وَالۡمُكَذِّبِيۡنَ اُولِى النَّعۡمَةِ وَمَهِّلۡهُمۡ قَلِيۡلًا (73:11)
مجھے چھوڑ اور ان تکذیب کرنے والوں کو کہ جو نعمتوں والے (خوشحال) ہیں اور ان کو ذرا تھوڑی سی اور ڈھیل دے۔ کیونکہ یہ خوشحال لوگ نمازی بھی ہوں گے تو ویل (دوزخ کے گڑھے) ہی میں پڑھیں گے کیونکہ ان کو خبر ہی نہیں کہ روشِ بندہ پروری کیا ہے، نہ یہ بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں اور نہ بے کسوں کی دستگیری ان کا شیوہ ہےـ یہی تو ہیں دین کی تکذیب کرنے والے۔
لَّا تُكۡرِمُوۡنَ الۡيَتِيۡمَۙ وَلَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰى طَعَامِ الۡمِسۡكِيۡنِۙ
وَتَاۡكُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَكۡلًا لَّـمًّا ۙوَّتُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ؕ ( 20 -89:17)
نہ تم بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہو نہ غریب پروری تمہارا شعار ہے بلکہ جو کچھ تم (جائز طور پر) ورثے میں پاتے ہو اسے پورے کا پورا نگل جاتے ہو اور مال و دولت کو ٹوٹ کے چاہتے ہو۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاۤءُوْنَ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (107)
ذرا دیکھ تو سہی کہ تکذیبِ دین کا مرتکب کون ہے ؟ وہی ہے کہ جو معاشرے کے بے سہارا لوگوں کو دھتکارتا ہے یعنی خود سے دور ہٹاتا ہے اور غریب پروری کا اہتمام نہیں کرتا پس اگر ایسا شخص نمازی بھی ہو تب بھی ایسے ہی نمازیوں کے لۓ ویل ( بربادی) ہے کہ وہ اپنی اس اصل بندگی کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ ان کے دکھاوے کی عبادتوں سے کیا حاصل کہ عام سامانِ ضرورت کو بھی یہ خود تک محدود کر کے داد و دہش کو روک دیتے ہیں۔
دولت کی فراوانی، آسودہ حالی اور خوشحالی ان کو ذہنی طور پر اس حد تک کمینہ بنا دیتی ہے کہ یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ
اَنۡ لَّا يَدۡخُلَنَّهَا الۡيَوۡمَ عَلَيۡكُمۡ مِّسۡكِيۡنٌۙ (68:24)
ارے دیکھیو کہ کہیں کوئی غریب ضرورت مند تمہارے ہاں نہ آ دھمکے (مبادا اس کو بھی عطائے ربانی میں شریک کرنا پڑے اور اکیلے کھانے کی بجائے مل بیٹھ کر کھانا پڑے یعنی کہیں share نہ کرنا پڑ جائے)ـ
اسی خیال کے تحت امیر لوگ آج کل غریبوں کی ہمسائیگی چھوڑ کر اپنی کالونیاں الگ بساتے ہیں مبادا ہمسایہ غریب ہو تو اس کا حقِ ہمسائیگی گلے نہ پڑ جائے۔
ایسے ہی لوگ جب جہنم میں سدھاریں گے تو ان سے پوچھا جائے گاکہ
مَا سَلَـكَكُمۡ فِىۡ سَقَرَ (کیونکر تم واردِ جہنم ہوئے)
وہ کہیں گے کہ
لَمۡ نَكُ مِنَ الۡمُصَلِّيۡنَۙ (ہم ایسے نمازی تو تھے نہیں)
کہ
وَلَمۡ نَكُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡكِيۡنَۙ (ہم غریبوں کی خوراک کا اہتمام تو کرتے نہیں تھے)
یعنی خود تو طرح طرح کی تقریبات میں اپنے لئے بسیار خوری اور شکم پروری کا خوب اہتمام کرتے تھے مگر خود ہماری قوم ہی کے عام لوگ
malnourised اور undernourished
تھے مگر ہم بایں ہمہ
كُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَـآئِضِيۡنَۙ (بکواس کرنے والوں کے ساتھ خود بھی خواہ مخواہ کی بیکار باتیں کیا کرتے تھے مگر عملی طور پرکچھ نہ کرتے تھے)
وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوۡمِ الدِّيۡنِۙ (اور یوں ہم تکذیبِ یوم الدین کے مرتکب ہوتے تھے) ( 45-74:42)
یہی آسودہ حالی و خوشحالی اور دولت کی فراوانی ان کے لئے سامانِ تن آسانی فراہم کرتی ہے اور یہ معاصی کا ارتکاب کر کے اس بازارِ جہنم کو سدھار جاتے ہیں جہاں اس جنسِ کاسد کا کوئی مول نہیں پڑتا۔
مَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوۡدَهٗ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَالِدًا فِيۡهَا ۖ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ(4:14)
جو بھی اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس کو ایسی آگ میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ ہمیشہ پڑا رہے گا اور اسے توہین آمیز سزا دی جائے گی
ثُمَّ صُبُّوۡا فَوۡقَ رَاۡسِهٖ مِنۡ عَذَابِ الۡحَمِيۡمِؕ ذُقۡ ۖۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡكَرِيۡمُ (پھر اس کے سر پر گرم پانی بطور سزا انڈیلو کہ چکھ مزہ بے شک تو تو (دنیا میں) بڑا معزز اور صاحبِ تکریم شخص تھا۔
حدیث میں ہے کہ پھل کھا کر چھلکے باہر نہ پھینکو کہ ہمسایوں کے بچوں کا دل برا نہ ہو۔ ہمارا سرمایہ دار کہتا ہے کہ دیکھ لو چھلکے تو باہر نہیں پھینکے بس بڑی سی لینڈ کروزر گاڑی پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرا تو ہمسایوں کے بچے حسرت و حیرت سے تک رہے تھے۔ اب تو سرمایہ داروں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ اپنی کالونیاں اپنے سکول اور اپنے ہسپتال ان غریبوں سے الگ کر لئے ہیں۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی تمہیں اللہ نے دیا ہے اسے افرادِ معاشرہ کے لئے کھلا رکھو تو یہ پیسے والے یعنی کافر کہتے ہیں
أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ
کہ ہم کیا اپنے مال سے ان کے پیٹ بھریں کہ جن کے پیٹ اللہ ہی نے نہیں بھرے
یہ قارونی ذہنیت ہے جب اس امیر شخص یعنی قارون کو کہا گیا أَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖجس طرح تجھے خدا نے نوازا ہے تو بھی بالکل اسی طرح باقی افرادِ معاشرہ کو نواز یعنی مل بیٹھ کر اور بانٹ کر کھا
وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور ملک میں یہ سرمایہ دارنہ نظام کا فساد نہ پیدا کر کہ اللہ کو یہ فسادِ مال وزر ناپسند ہے تو اس ظالم کا بھی وہی سرمایہ دارانہ جواب تھا کہ
إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي
کہ مجھے جو کچھ بھی اللہ تعالی نے عطا کیا ہے وہ میری علمی استعداد اور پیشہ وارانہ مہارتوں کا نتیجہ ہے۔
اس گندی ذہنیت کے حامل افراد کو یہی باور کروانا کافی ہے کہ آنحضرت ﷺ معاشرے میں امتیاز discrimination کو پسند نہیں فرماتے تھے حتی کہ ایک صحابی نے اپنے مکان پر ایک خوبصورت قبہ تعمیر کیا تو آنحضور ﷺ سخت ناراض ہوئے کہ ہر عمارت اپنے بنانے والے کے لۓ وبال ہے الا یہ کہ بہت ضروری ہو جس پر اس نے وہ قبہ گرا دیا۔
قرآن نے بطورِ خاص قارونیت اور قارونی ذہنیت کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے یعنی قارونیت یہ ہے کہ نظامِ (مشیت و تقدیرِ) الہی کے خلاف اپنے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مال جمع کرنا اور پھر اس پر اترانا اور اس مال میں سے دنیا کا طلبگار ہونا مگر اپنی آخرت سنوارنے کے لئے اپنے لوگوں کو اس طرح بہترین طور پر اتنا نہ دینا جتنا خود اسے عطا ہوا ہے اور اس عطائے ربانی کو اللہ تعالی کی طرف سے اپنے علم و قوت اور اپنی محنت و کاوش کا ثمر گردان کر اس مال و زر کو اپنے تک محدود کر لینا اور زائد از ضرورت اس مال کو نہ صرف اپنی زیب و زینت پر خرچ کرنا بلکہ گردوپیش کے اپنے غریب لوگوں کے سامنے اس امیرانہ طرزِ زیست کا اظہار و نمائش بھی اس طرح کرنا کہ لوگوں میں بھی دنیا پرستی اور ہوسِ زروسیم پیدا ہو اور لوگ اس کو بہت بڑی خوش نصیبی اور کامیابی سمجھنے لگیں۔ یہ سب کچھ اپنے لوگوں کے مقابلے میں بغاوت (سرکشی) ، فساد اور کفر ہے اور ایمان ، اعمالِ صالحہ اور صبر کے منافی ہے (80ـ28:76)
لہذا قارون کا واقعہ اور اس کی دولت کا ذکر کرنے کے بعد فیصلہ کن طور پر فرما دیا گیا کہ
تِلۡكَ الدَّارُ الۡاٰخِرَةُ نَجۡعَلُهَا لِلَّذِيۡنَ لَا يُرِيۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فَسَادًا ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ (28:83)
آخرت کا گھر تو ہم نے ان لوگوں کے لئے بنا رکھا ہے جو زمین میں (دوسروں کے مقابلے میں ) بڑائی اور برتری نہیں چاہتے اور نہ (دولت جمع کرنے کا) بگاڑ چاہتے ہیں ۔ یہی تو وہ تقوی شعار لوگ ہیں جن کے لئے عاقبت ہے۔
حدیث شریف ہےکہ
إياكَ والتنعُّمَ فإن عِبَادَ اللهِ ليسُوا بالمتنعِّمينَ" ( البيهَقِيُّ )
نعمتوں (آسائش و تعیشات) سے بچو کیونکہ بلاشبہ بندگانِ خدا لذتوں اور آسائشوں کے مزے نہیں لیتے۔
شاید اسی لئے سیدنا مسیح علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اونٹ کا سوئی کے ناکےمیں سے گزرنا ممکن ہے مگر امیر آدمی کا جنت میں داخلہ قطعا ناممکن ہے۔
میں آج ہی اپنے بیٹے کو سمجھا رہا تھا کہ بیٹا جائز طریقے سے دولت کمانے پر کوئی پابندی نہیں مگر پابندی ہے تو دولت جمع کرنے پر یا دولت سے حظ اٹھانے یعنی مزے لینے ، عیش کرنے یعنی enjoy کرنے پر پابندی ہے۔ جائز ضرورت سے زائد اپنے پاس رکھنے پر پابندی ہے۔ دولت کا مقصد دوسروں کی پرورش کر کے جنت کا حصول ہے۔ اس پر بیٹے نے کہا کہ بابا اگر کوئی ایسا نہ کرے تو میں نے جواب دیا کہ اسے جنت نہیں ملے گی کیونکہ جتنا مال دو گے اتنی جنت لےلو گے:
اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ ؕ
(9:111)
یقینا اللہ تعالی نے اہلِ ایمان سے ان کی اپنی ذات اور ان کے تمام مال و دولت کو جنت کے عوض خرید لیا ہے۔
اس روئے زمین پر جب ارتقائی مراحل تخلیقِ آدم پر منتج ہوئے یعنی پیکرِ انسانی نفخِ روح کے بعد شعوری بلوغت سے ہمکنار ہوا تو آدم کو اس جنتِ ارضی پر گزر بسر کے ابتدائی اصول و احکامات بمع تنبیہات بارگاہِ الہی سے یوں ودیعت ہوئے :
يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوۡجِكَ فَلَا يُخۡرِجَنَّكُمَا مِنَ الۡجَـنَّةِ فَتَشۡقٰى
اے آدم یقینی طور پر یہ (ابلیس) تیرا بھی دشمن ہے اور تیری رفیقِ حیات کا بھی لہذا متنبہ رہنا کہ کہیں یہ تم دونوں کو اس باغِ بہشتِ (ارضی) سے نکال باہر نہ کرے پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ تو مشقت میں جا پڑے گا (یعنی مشکلاتِ معاشیاتِ حیات سے دوچار ہو جائے گا)ـ
اِنَّ لَـكَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِيۡهَا وَلَا تَعۡرٰىۙ وَاَنَّكَ لَا تَظۡمَؤُا فِيۡهَا وَلَا تَضۡحٰی
بلاشبہ اس جنتِ ارضی (کےبنیادی اصول و ضوابط اور احکامات یوں ہیں کہ اس) میں نہ تُو بھوکا رہے اور نہ ننگا رہے (یعنی خوراک اور لباس تمہیں یکساں ملے) اور نہ پیاسا رہے (یعنی پیاس بجھانے کو پانی ہر ایک کو وافر ملے) اور تجھے دھوپ نہ ستائے (یعنی دھوپ سے بچاؤ کے لئےہر ایک کوچھت مہیا ہو۔ یعنی روٹی، کپڑا اور مکان ہر ایک کو میسر ہو، ہر ایک کی بنیادی ضروریات کما حقہا پوری ہوں )ـ
[فَاَزَلَّهُمَا الشَّيۡطٰنُ عَنۡهَا : شیطان نے اس جنتِ ارضی اور اس کے اصول و احکام سے دونوں کو برگشتہ کر دیا یعنی فَاَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيۡهِ ان کو اس حالت سے ( یعنی بنیادی ضروریات سے متعلق اصول و احکام سے) نکال دیا جس میں وہ دونوں آباد تھے۔ 02:36]
فَوَسۡوَسَ اِلَيۡهِ الشَّيۡطٰنُ
لہذا (ان اصول و احکامات سے برگشتہ کرنے کے لئے، ان احکامات سے روگردانی اختیار کروانے اور معاشی مشکلات کی پیچیدگی یعنی حیاتِ بامشقت میں ڈالنے کے لئے) شیطان نے سینہء آدم میں کچھ یوں وسوسہ اندازی کی کہ
يٰۤاٰدَمُ هَلۡ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الۡخُلۡدِ وَمُلۡكٍ لَّا يَبۡلٰى
اے آدم (مل بانٹ کر بنیادی ضروریات پوری کرتے رہنے کی بجائے ) کیا میں تجھے اس شجر کی نہ سجھاؤں جو ہمیشگی کا شجر بھی ہے اور اس ملکیت کا بھی جو ابتلاء (آزمائش و اندیشہء زوال و وبال) سے بے نیاز ہو گی (کسی اور کو کچھ ملے یا نہ ملے مگرسب کچھ تیرے ہی قبضے میں ہمیشہ یونہی رہے گا)ـ
فَاَكَلَا مِنۡهَا (فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ 07:22)
پس جونہی دونوں نے اس شجر میں سےکچھ کھایا (پس جونہی وہ دونوں مرد و زن اس شجر کے مزے سے روشناس اور اس کے ذوق آشناء ہوئے یعنی اس کا
taste develop
کر لیا)
فَبَدَتۡ لَهُمَا سَوۡاٰ تُہُمَا وَطَفِقَا يَخۡصِفٰنِ عَلَيۡهِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَـنَّةِ
(تو ان پر خود اپنے ہی عیوب و نقائص ظاہر ہو گئے یعنی وہ اپنی ہی نگاہوں میں گر گئے اور اس عالمِ اضطراب و شرمندگی میں اسی فردوسِ گم گشتہ کے اوراق مں سے کجھ خود پر چسپاں کرنے لگے)
وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰىۖ
اور آدم اپنے رب (کے عطا فرمودہ اصول و احکام) کی نافرمانی کی چنانچہ بھٹک کر رہ گیا (کہ اب کرے تو کیا کرے، جائے تو کہاں جائے)
ثُمَّ اجۡتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيۡهِ وَهَدٰى ۔
(پھر اس کے پروردگار نے اسے جواب دیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا اور اسے ہدایت سے نوازا)
قَالَ اهۡبِطَا مِنۡهَا جَمِيۡعًاۢ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ
(یوں کہ) ان سے کہا کہ تم دونوں اب اپنی پوری جمیعتِ انسانی کے ساتھ اس (فردوسِ گم گشتہ سے) نکل کر ( حیاتِ انسانی کے اس اگلے ارتقائی مرحلے کے میدانِ عمل میں) جا اترو جہاں (باہمی مسابقت کے سبب) تم میں سے بعض کو بعض سے عداوت رہے گی۔
[قُلۡنَا اهۡبِطُوۡا مِنۡهَا جَمِيۡعًا ۚ (39-2:38) ہم نے کہا کہ تم سب اس حالت سے (اب ایک نئے میدانِ مسابقت میں ، ارتقائی سلسلہ کی نئی کڑی میں) اترو ]
فَاِمَّا يَاۡتِيَنَّكُمۡ مِّنِّىۡ هُدًى
پس (اسی کے پیشِ نظر) جب بھی تم لوگوں کی طرف میری طرف سے راہنمائی آئے
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَاىَ
تو پھر جو کوئی بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا
فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشۡقٰى
وہ نہ بھٹکے گا (کہ اپنے ابنائے جنس سے عداوت پر اتر آئے) اور نہ حیاتِ بامشقت گزارے گا
[ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ (2:38-39) پس ان کو خوف سے بھی فراغت ہو گی اور حزن سے بھی ]
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا (127-20:117)
اور (اس کے برعکس) میرے اس ذکر (نصائح و تنبیہات و ھدایات و اصول و احکام) سے جو بھی پہلو تہی کرےگا اسے نظامِ معیشت کی سختیاں درپیش ہوں گی۔
[وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِـاٰيٰتِنَآ اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ (2:38-39) جن لوگوں نے ان اصول و احکام سے کفر کیا اور یوں ہماری آیات کی تکذیب کے مرتکب ہوئے وہی آگ والے ہیں جس میں ان کا رہنا ابدی ہے]
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاۡتِيَنَّكُمۡ رُسُلٌ مِّنۡكُمۡ يَقُصُّوۡنَ عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتِىۡۙ
اے بنی آدم جب بھی تمہارے پاس میرے رسول آئیں اور تم پر میری آیات بیان کریں
فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ۔
تو پھر جو کوئی تقوی شعار ہوا اور اس نے اپنی اصلاح کر لی تو اسے خوف و حزن سے رہائی نصیب ہو گی
وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَاۤ اُولٰۤئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۔
ان کے برعکس جن نے بھی ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان کے مقابلے پر استکبار کیا وہی آگ والے ہیں جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔
قَالَتۡ اُخۡرٰٮهُمۡ لِاُوۡلٰٮهُمۡ رَبَّنَا هٰٓؤُلَۤاءِ اَضَلُّوۡنَا .....
جب یہ جہنم میں سدھاریں گے تو پیچھے والے آگے والوں کے بارے میں پروردگار سے فریاد کریں گے کہ یہی تو ہیں وہ لوگ جن نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکایا تھا۔۔۔۔۔۔
۔اِنَّ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَا
یقینا وہی لوگ کہ جن نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے استکبار کیا
لَا تُفَتَّحُ لَهُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَلَا يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ
نہ ان پر آسمان کے در وا ہوں گے اور نہ یہ جنت میں داخل ہو پائیں گے
حَتّٰى يَلِجَ الۡجَمَلُ فِىۡ سَمِّ الۡخِيَاطِ ؕ
یہاں تک کہ اونٹ درزی کی سوئی کے ناکے سے گزر جائے
(40-7:35)
دوسرے مقام پر انہی راہِ راست سے بھٹکانے والوں کے بارے میں جہنمی لوگ گویا ہوئے کہ
اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِيۡلَا (33:67)
بے شک ہم ہی نے اطاعت کی اپنے سرداروں اور بڑوں کی سو ان نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکا دیا۔
اس جملہ بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ تکذیبِ دین ہو یا تکذیبِ آیات یا استکبار ان کے مرتکبین امراء و رؤسا ہوا کرتے ہیں اور امراء کے بارے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ کی ترجمانی قرآن سے بھی ہوتی ہے
حَتّٰى يَلِجَ الۡجَمَلُ فِىۡ سَمِّ الۡخِيَاطِ ؕ
یہاں تک کہ اونٹ درزی کی سوئی کے ناکے سے گزر جائے
(7:35-40)
انجیلِ مقدس کے مطابق ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا۔ وہ بہت مالدار تھا اور اپنی جائیداد کو قائم رکھنا چاہتا تھا ۔
اور مسیح کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک کر کہنے لگا ” ابدی زندگی پانے کے لئے مجھے کیا کر نا چاہئے؟”
مسیح علیہ السلام نے جواب دیا کہ اگر تو ابدی زندگی چاہتا ہے تو قتل نہ کر ، زنا نہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹ بولنے سے بچ ،اور کسی آدمی کو دھوکہ نہ دے اور تو اپنے والدین کی تعظیم کر” ۔
اس نے جواب دیا، “ اے استاد ! میں تو بچپن ہی سے ان احکامات کی پابندی کر رہا ہوں” ۔
مسیح نے اس آدمی سے کہا ، “تجھے ایک کام اور بھی کرنا ہے ۔ جا اور اپنی ساری جائیداد کو بیچ دے اور اس سے ملنے والی پوری رقم کو غریبوں میں بانٹ دے ۔آسمان میں اسکا اچھا بدلہ ملے گا پھر اس کے بعد آکر میری پیروی کرنا” ۔
مسیح کی یہ باتیں سن کر اس کے چہرے پر مایو سی چھا گئی اور وہ چلا گیا ۔
تب مسیح نے اپنے شاگردوں کی طرف دیکھ کر کہا ، “ مالدار آدمی کا خدا کی سلطنت میں داخل ہو نا بہت مشکل ہے ۔ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے پار ہونا آسان ہے بہ نسبت امیر آدمی کے کہ جو خدا کی سلطنت میں داخل ہو” ۔
یہی بات ایک اور انداز سے بھی سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمائی:
" اپنے واسطے زمِین پر مال جمع نہ کرو جہاں کِیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیںـ بلکہ اپنے لِئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کِیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔ کِیُونکہ جہاں تیرا مال ہے وَہیں تیرا دِل بھی لگا رہے "ـ
اسی سے مماثل کچھ احادیث بھی یوں ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تتخذوا الضيعة فترغبوا في الدنيا".
”جاگیریں نہ بناؤ وگرنہ دنیا میں پڑ جاؤ گے۔“
(سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی بر روایت عبداللہ ابن مسعودؓ)
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ جائیدادیں اور جاگیریں نہ بناؤ اور غیر ضروری سامان اکٹھا نہ کرو کہ پھر تم دنیا ہی کے ہو کر رہ جاؤ گے۔ (راوی عمر بن عوف بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الرفاق)
انعم اللہ سے حظ اٹھانا خواہ مباح ہی ہو مگر عمومی شیوہء بندگانِ الہی نہیں ہے۔ نعمتوں سے حظ اٹھانے کے امراء و رؤسا کے جواز ہائے باطلہ اور دعاوئ مہملہ کے برعکس فلاحِ دارین پانے والوں کی جو خصوصیات قرآن میں بیان ہوئی ہیں ،ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تمام باطل جواز اور
مہمل دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں مثلا
يُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ ؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَۚ (59:9)
خود تنگدست و ضرورت مند ہونے کے باوجود بھی وہ دوسروں کو خود اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، دوسروں کی ضروریات کو خود اپنی ضروریات پر مقدم رکھتے ہیں اور جو خود غرضی سے بچا لیا گیا پس یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں۔طیبات (عمدہ چیزوں) کے بارے میں بتا دیا گیا کہ بلاشبہ ان سے حظ اٹھانا ممنوع نہیں تاہم ان میں حد سے بڑھا ہوا الواث و استغراق مذموم ہے:
كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ وَلَا تَطۡغَوۡا فِيۡهِ فَيَحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبِىۡۚ (20:81)
جو کچھ طیبات تمہیں بخشی گئی ہیں ان سے استفادہ ضرور کرو مگر اس استفادے میں حد سے تجاوز نہ کرو بصورتِ دیگر تم پر میرا غضب اترے گا۔
كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا حَقَّهٗ يَوۡمَ حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ(6:141)
ثمر باری ہو تو ان ثمرات میں سے خود بھی کھاؤ اور اس کا حق بھی ادا کرو اور اسراف (ضرورت کی شے پر ضرورت سے زائد بیجا سرف) نہ کرو کیونکہ یقینا اللہ تعالی بیجا اڑانے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ (7:31)
کھانے پینے کی ممانعت نہیں مگر ممانعت یہ ہے کہ جائز دائرہ ء ضرورت سے باہر بیجا نہ اڑاؤ کیونکہ ایسا کرنے والے اللہ کو پسند ہی نہیں ہیں۔
اسی طرح جب دوسروں کو دینے کی باری ہو تو ویسی ہی عمدہ چیزیں دو جو خود تم اپنےلئے چاہتے ہو۔ اپنے لئے صرف 2.5 % نہیں بلکہ 100 % چاہتے ہو تو یہی عمدگی دوسروں
سے بانٹ کھانے میں کیا مضائقہ ہے ؟
اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ
جو عمدہ اور بہترین اشیاء تم نے کما رکھی ہیں انہی میں سے ویسی ہی عمدہ اور بہترین اشیاء دوسروں کو دو
وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ
اور جس کو تم خود گھٹیا جانتے ہو ، اللہ کی راہ میں وہ دوسروں کو نہ دو
وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِؕ
کیونکہ اگر تمہیں کوئی وہی کچھ دے تو تمہارے لئے ناقابلِ بول ہو الا یہ کہ تم آنکھیں ہی بند کر لو۔
(2:267)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ سب کچھ طیبات (عمدہ اور بہترین مال) کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ اسے پیشِ نظر رکھ کراب اس آیت پر توجہ مبذول کیجیئے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يَوۡمَ يُعۡرَضُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَلَى النَّارِ ؕ اَذۡهَبۡتُمۡ طَيِّبٰـتِكُمۡ فِىۡ حَيَاتِكُمُ الدُّنۡيَا وَاسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِهَا ۚ فَالۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡهُوۡنِ بِمَا كُنۡـتُمۡ تَسۡتَكۡبِرُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّ وَبِمَا كُنۡتُمۡ تَفۡسُقُوۡنَ (46:20)
جس روز (طیبات کے ضمن میں احکامِ الہی سے روگرداں و) نافرمان لوگ آگ پر پیش کئے جائیں گے تو ان سے کہا جاۓ گا کہ تم اپنی ساری طیبات (آسائشیں اور مزے) اپنی دنیاوی زندگی میں لے اڑے (تم نے خوب مزے لوٹے) اور ان سے بھرہور استفادہ کیا پس آج ان کے عوض توہین آمیز عذاب بدلے میں پاؤ گے ۔ اس وجہ سے کہ تم زمین میں ناحق استکبار کیا کرتے تھے اور فسق کے مرتکب ہوتے تھے۔آجکل سیاق و وسباق سے قطع قطع نظر ایک آیت گردش میں ہے کہ جب سیدنا موسی علیہ السلام نے سوال کیا تو فرشتے نے کہا کہ یہ وہ دیوارِ یتیم ہے کہ جس کے تلے ایک دفینہ یا خزانہ ہے جو دو یتیم بچوں کا ہے کہ جن کا باپ صالح تھا۔ قصہ مختصر کہ اس کنز (دفینے) سے سےاکتنازِ مال و زر زرکا جواز تراشا جاتا ہے جبکہ الحمد سے والناس تک تمام معاشی تعلیمات کو اس آیت کے ضمن میں پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور صالح کا قرآنی مطلب برآمد کرنے کی بجائے روایتی مطلب اخذ کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو جان لیجیئے کہ کنز کا یہ معاملہ یتیموں کا ہے۔ ان کا نہیں کہ جن کے ماں باپ سروں پر بیٹھے بیٹھےان کے لئے جائیدادیں اور جاگیریں بھی بناتے جا رہے ہیں ہیں اور بینکوں کی تجوریوں کا دوزخ بھی بھر رہے ہیں۔ یہاں بات صرف یتیموں کی ہو ہورہی ہے جس کے کےبارےمیں پورے قرآن کے تناظر تناظرمیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا جاسکتا ہے کہ اکتناز کی اجازت صرف صرف اور صرف یتامی ہی کے مفاد میں خصوصی طور پر ہے ہر سیاق و سباق پر اس کا اطلاق عمومی طور پر نہیں کیا جا سکتا کہ اس کو امیروں کے لئے زائد از ضرورت مال جمع کرتے رہنے کا جواز ٹھہرا دیا جائے۔ اب آئیے اس بات کی طرف کہ آیا شعوری طور پر ان کے صالح باپ نے صالحین کی عمومی روش اور روایت سے قطع نظر کرکے زائد از ضرورت مال جمع کیا تھا یا دورانِ سفر شہر کی طرف جاتے ہوئے اس کی کسی اچانک موت واقع ہو گئ اور اس کے کےسامانِ تجارت کو اس کے کےعزیزوں نے اس کے بچوں کی بلوغت تک ایک عمارت بنا کر محفوظ کر چھوڑا تھا۔بات کہاں کی تھی اور کہاں لے جائی گئی۔ قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی کہ یہ دفینہ کیا تھا۔ کیونکہ سونے چاندی کے کنز کو تو خود قرآن نے موجبِ جہنم ٹھہرایا ہے۔غالب امکان یہ ہے کہ شاید یہ بنیادی ضروریات مثلا کپڑے وغیرہ کا دفینہ ہو۔ اگر سونے یا چاندی کا بھی یہ نصاب تھا تو پھر بھی یتیموں کے لۓ ہی ہی تھا ہمارے ہمارےاور آپ کے بچوں کے لئے اس سے جائیدادیں یا جاگیریں بنانے کا جواز کہاں سے نکلتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینویں نہ لا بیٹھیں یار پہلے کر لے سوچ وچار
ایتھے دولت دا نئیں کَم ایتھے اگلے منگدے چَم
ایتھے کوئی نہ کہندا ہم ایتھے تُم دی اے سرکار
گَل وِچ کَفنی، کَن وِچ والے ایتھے پَیراں ہیٹھ دوشالے
ایتھے کَھٹیاں کوئی نہ گھالے پتّاں لِہندیاں بھرّے بزار
ایتھے کَھل لُہاندے سارے سُولی ٹنگے جان وچارے
ایتھے وَگدے خُون دے دھارے پہلاں اپنے آپ نُوں مار
اینویں نہ لا بیٹھیں یار پہلے کر لے سوچ وچار
ذیل میں امام العصر وحید الدین خان صاحبِ تذکیر کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیے
نیز اس مضمون کا اقتباس بھی
معاشرتی بدامنی کے معاشی اسباب: تعلیمات نبوی کی روشنی میں Economic Causes of Social Insecurity: In the Life of Prophetic Teachings
از پروفیسر محمد عبد العلی اچکزئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب آیات سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ مال ودولت کو سمیٹ سمیٹ کر خزانہ بنالینا مقصد نہیں، بلکہ دولت کامقصد اجتماعی خوشحالی اورکفالت عامہ ہے
حضرت مولانا سیوہاروی ان آیات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ان سب آیات کی روح یہ ہے کہ دولت وثروت جمع وذخیرہ کے لیے نہیں ہے اوراس کامصرف ذاتی وانفرادی تعیش (مثلا سالگرہ و مہندی وغیرہ) کی بجائے انفرادی واجتماعی ضروریات کی کفالت ہے، جس مال سے زکوٰۃ اوردوسرے مالی فرائض ادانہ کئے گئے ہوں توہ مال احتکار واکتناز کی فہرست میں شامل اورکنز سے متعلق وعید کا مصداق ہے اوراسی قسم کی دولت وثروت کانام سرمایہ داری ہے اوریہ حرام اورباطل ہے اورتباہ کردینے کے قابل۔ اپنی ضروریات اوراہل وعیال کی حاجات اصلیہ اورمالی فرائض وواجبات کی ادا کے بعد بھی دولت باقی بچے، تو اب اس مال پر اجتماعی حقوق عائد ہوچکے ہیں اور اب اس کواجتماعی حاجات میں صرف ہوناچاہیے او ابوذرغفاریؓ اوربعض علماء اسلام اس کو بھی جمع کرکے رکھنا حرام بتاتے ہیں"
شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ لکھتے ہیں:
’’جملہ اشیاء خَلَقَ لَکُمْ مَافِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً (البقرۃ 29: 2) تمام بنی آدم کی مملوک ہیں یعنی غرض خداوندی تمام اشیاء کی پیدائش سے رفع حوائج جملہ انسان ہے اورکوئی شے کسی کی ملکیت خاص نہیں ۔ مالک وقابض کو چاہیے کہ اپنی حاجت سے زائد پرقبضہ نہ رکھے، بلکہ اس کو اوروں کے حوالے کردے۔ یہی وجہ ہے کہ مال کثیر حاجت سے بالکل زائد جمع رکھنا بہتر نہ ہوا، خواہ زکوٰۃ بھی اداکردی جائے اورانبیاء وصلحاء اس سے بغایت مجتنب رہے، چنانچہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے، بلکہ بعض صحابہ وتابعین وغیرہ نے حاجت سے زائد رکھنے کو حرام ہی فرمایا ۔ زائد علی الحاجۃ (زائد از ضرورت) توگویا شخص مذکور مالِ غیرپرقابض ومتصرف ہےـحضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کامذہب یہ تھاکہ اہل وعیال کے نفقہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنا قطعاً حرام ہے، وہ اسی کافتویٰ دیتے، اسی کی تبلیغ کرتے اوراسی کاسب کو حکم دیتے تھے ‘‘۔
اس کی بنیاد وہ نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات پررکھتے ہیں جن میں جوڑ جوڑ کررکھنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اوراللہ کریم کی رضاجوئی کے لیے محتاجوں پرخرچ کردینے کی تاکید اورستائش کی گئی ہے
حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں:
’’میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا، آپ ؐ نے فرمایا: ابوذرؓ! میں نے عرض کیا: حاضر ہوں، اے اللہ کریم کے رسول ﷺ ! آپؐ نے فرمایا: مجھے اس بات سے خوشی نہ ہوگی کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر اس پرتین روز گزرجائیں اورمیرے پاس اس میں سے ایک دینار بچ جائے، البتہ ادائیگی قرض کے لیے کچھ بچالوں تو اوربات ہے، ہاں میں اسے اللہ کریم کے بندوں میں ایسے اورایسے اورایسے بانٹوں اورآپؐ نے اپنے دائیں، بائیں اورپیچھے اشارہ کرکے دکھایا۔پھرآپؐ چل پڑے اورفرماتے جاتے تھے: یقیناً آج جو کثرت (مال) والے ہیں وہ قیامت کے دن قلیل (ثواب) والے ہوں گے ہاں البتہ جس نے ایسا کیا اورایسے کیا اورایسے کیا اورآپؐ نے اپنے دائیں، بائیں اورپیچھے ہاتھوں کو (گھماکر) دکھایا، مگرایسے (خوش نصیب) بہت کم ہوں گے ‘‘
بہرحال اسلام کے اگرسارے نظام کاجائزہ لیاجائے تواس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اس کی تمام تعلیمات کاخلاصہ اکتناز (دولت جمع رکھنے) ہی کی ممانعت ہے، اسلام فرد اورجماعت کی خوشحالی چاہتاہے، محنت کو اولین حیثیت دیتاہے اورکسی بھی صورت میں افراد کوجماعت کے استحصال کی اجازت نہیں دیتا، جبکہ سرمایہ داری کی ساری تعلیمات کابنیادی نقطہ ہی مال ودولت کی ذخیرہ اندوزی ہے اوراسی بنیادپر اسلام اورسرمایہ داری کی راہیں الگ الگ ہوجاتی ہیں ۔
JAZAK ALLAH ♥️🌹 KHAIR
ReplyDelete