جادو کا بہتانِ عظیم
جادو کا بہتانِ عظیم
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
drziaullahzia@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرتﷺ پر جادو کی تہمت میں روایات و خرافات کے پیروکار صغیرے کبیرے سب حصہ بقدرِ جثہ کے تحت یعنی حسبِ توفیق برابر کے شریک ہیں۔ اس ضمن میں سب outdated مواد کا سہارا اس لئے لے رہے ہیں کہ کہیں ان کے دین کی خود ساختہ روایاتی اساس کو دھچکا نہ لگے۔اس ضمن میں کسی مزید تفصیل میں جانے کی بجائے میں چند نکات پر ہی اکتفاء کروں گا۔
١۔ روایات دین نہیں۔ دین کی بنیادی اساس صرف اور صرف قرآنِ مجید ہے اور صرف اسی کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ہے۔ نہ بخاری کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور نہ مسلم کی۔ لہذا روایات دینی معلومات کے ضمن میں ایک غیر محفوظ ذریعہ استنباط ہیں۔ صدرِ اول کی صرف اور صرف ایک ہی شے اگر محفوظ اور مصدقہ ہے تو وہ صرف اور صرف قرآنِ مجید ہے۔ اس دور کے بارے میں بھی جاننا ہوں تو صرف اور صرف یہی کتاب اس کا ذریعہ ہے کیونکہ جب سندھ سے سپین تک تمام علاقہ مسلمانوں کے زیرِ نگیں آ چکا تھا تو یہ نبئ محترم ﷺ کے تقریبا 100 برس بعد کی بات ہے اور تا دیر مسلمانوں کے پاس سوائے قرآنِ مجید کے کوئی بھی کتاب موجود نہ تھی۔ امام ابو حنیفہ ؒ تب دس سالہ بچے تھے اور امام مالک ابھی پیدا ہوئے تھے۔ بخاری و مسلم کا زمانہ تو تقریبا ان سے بھی سو برس بعد کا ہے۔
٢۔ ہم مسلمانانِ پاکستان کے امامِ اعظم حضرت قائدِاعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ارشاد ہے کہ فی زمانہ اسلام کو اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بہتر کسی اور نے نہیں سمجھا اور اقبال نے اپنی نظم میں جہاں تمدن و تصوف اور شریعت و کلام کو بتانِ عجم کا پجاری ٹھہراتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ان روایات وخرافات میں اُمت ایسے کھو چکی ہے کہ حقیقت سے ناآشنا ہو گئی ہے وہیں اقبال نے اپنے نثری خطبات میں بھی یہ باور کروایا ہے کہ دو مستشرقین نے ہمارے ذخیرہ روایات کا سائینسی انداز سے مطالعہ کیا تو ایک نے اپنی تحقیقات میں ان تمام کو یکسر باطل قرار دیا مگر دوسرے نے بہت سی روایات کو باطل اور کچھ کو درست قرار دیا۔
٣۔ ترکستان کےامام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے تقریبا سو برس پہلے جب مدینہ کے باسی امام مالک نے مدینہ میں رہ کر مٶطا لکھی جس کو امام شافعی زیرِ آسماں قرآنِ مجید کے بعد سب سے زیادہ درست کتاب قرار دیتے ہیں تو انہیں مدینہ میں رہ کر بھی جادو کے بہتان پر مبنی کوئی ایک روایت بھی کیوں نہ مل سکی ؟
٤۔ جب امام مالک کو معلوم ہوا کہ ان کے ایک استاد ہشام بن عروہ بن زبیر بن العوام بڑی بلند نسبتوں اور بڑی ثقاہت کے حامل ہونے کے باوجود عراق جا کر وہیں کے ہو رہے ہیں اور نہ صرف ضعفِ پیری کے سبب یادداشت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بلکل دیوانہ ہو چکے ہیں تو ان نے خود بھی ان سے روایت کرنا ترک کر دیا بلکہ لوگوں کو بھی اس امر سے سختی سے منع کر دیا اور یوں ہشام کی روایات متروک قرار پائیں مگر بھلا ہو امام مالک کے تقریبا سو سال بعد مدینہ سے بہت دور ترکستان کے امام بخاری کا کہ جن نے ہشام جیسے پاگل شخص کے گڑے مردے برآمد کرنے شروع کر دئیے۔ جن میں سے مشہور سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا کی کمسنی میں شادی اور نبی محترم ﷺ پر جادو کا بہتانِ عظیم بھی ہیں۔
٥۔ ایک ضعفِ پیری، پھر گردشِ دوراں ، اس پر جنون کا عارضہ اور عراق کی سرزمین کا طلسماتی روایتوں اور عجمی سازشوں کی آمجگاہ ہونا۔۔۔۔۔۔اندھیری رات، طوفانی ہوا، ٹوٹی ہوئی کشتی
یہی اسباب کیا کم تھے کہ اس پہ ناخدا تم ہو
۔۔۔ پھر ہشام روایتیں نہ گھڑتے تو اور کیا کرتے۔ امام بخاری نے برسوں بعد آکر جب ثقہ راویوں میں انہیں پایا تو ان کے پاگل پن سے صرفِ نظر کر کے ان کی جادو کے بہتان والی بے سروپا روایات کو سینے سے لگا لیا۔ متقدمین نے تو جو کیا سو کیا مودودی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے متاخرین نے بھی تحقیق سے اعراض برتتے ہوئے اس دروغ کی روشنی میں کتاب اللہ کی تفسیر کی جسارت کی۔ وہ تو بھلا ہو امام امین احسن اصلاحی کا جن نے اپنی تفسیر تدبرِ قرآن کی آخری جلد میں مودودی صاحب کی اس جادوئی تفسیر کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے۔
٦۔ امین احسن اصلاحی صاحب کے نزدیک سید مودودی کاش یہی تحقیق فرما لیتے کہ جس شخص سے یہ جادو کی روایت لے رہے ہیں 71 ھ میں بالتحقیق اس کا دماغ خراب ہو چکا تھا نیز یہ کہ یہ طلسماتی داستان مدینہ کے دورِ آخر کی بتائی جاتی ہے جبکہ معوذتین کی ہر دو سورتوں پر آج بھی مکیہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے یعنی یہ مکی سورتیں ہیں اور مدینہ کے دورِ آخر کے کسی واقعہ سے انہیں شانِ نزول کی کوئی ادنیٰ نسبت بھی نہیں۔
٧۔ محقق سیرت نگار شبلی نعمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نزدیک تمام تفسیری روایات کی کچھ اصل نہیں۔ اس قول کی روشنی میں ہم قرآنِ مجید کی تشریح کے ضمن میں احادیث کا سہارا لینے کے مجاز ہی نہیں ہیں۔
٨۔ چونکہ صحیح بخاری جمہور علماء کے نزدیک بزعمِ خویش "اصح الکتابِ بعد کتاب اللہ" ہے یعنی قرآنِ مجید کے بعد صحیح ترین کتاب ہے لہذا بخاری کی معدودے چند روایات کے باطل ہو جانے سے اس کھوکھلے دعوے کی قلعی کھلتی ہے مگر علماء کو صحیح بخاری کی حرمت ناموسِ رسالت ﷺ سے زیادہ عزیز ہے خواہ بخاری کی اس غلط روایت سے جادو برآمد ہو یا ایک اور غلط روایت سے سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا کی کم سنی میں شادی ۔ جبکہ تحقیق یہ ہے کہ سیدہؓ کی عمر ، نکاح کے وقت 7 سال نہیں بلکہ 17 برس تھی بعینہ رخصتی بھی 9 سال کی بجائے 19 سال کی عمر میں ہوئی۔ مگر بخاری کی روایت کے مطابق یہ کمسنی ہی کی شادی تھی۔
9۔ جب امام مالک فوت ہوئے تو ابھی ان کی کتاب مٶطا زیرِ تدوین تھی ۔ انہیں مدینہ میں رہ کر ہزار سے زائد احادیث نہیں ملیں جبکہ یہ نبی محترم ﷺ کے قریب ہی کا زمانہ تھا۔ ان میں سے بھی کاٹ چھانٹ کر آپ کو 700 کے قریب احادیث ہی ایسی ملیں جن نے مٶطامیں بار پایا۔ اگر امام مزید زندہ رہتے تو شاید 100 سے زائد روایات آپ کی مٶطا میں نہ ہوتیں۔ بعینہ صحیح بخاری بھی زیرِ تدوین تھی کہ امام بخاری ؒراہئ ملکِ عدم ہوئے۔ معلوم نہیں کہ بخارا کے اس باشندے نے 14 لاکھ روایات کے جمع کردہ انبار میں سے چند ہزار احادیث کس معیار پر منتخب کیں۔ اگر آپ کی عمر بھی وفا کرتی تو آپ کی بخاری بہت مختصر ہو کر صرف چند سو احادیث تک محدود رہ جاتی۔ پھر نہ تو اس میں جادو کے بہتانِ عظیم پر مبنی روایات ملتیں اور نہ کمسنی میں شادی والی جو دونوں ہشام جیسے معتبر راوی نے پاگل ہو جانے کے بعد گھڑی تھیں۔
١٠۔ جس امت نے خواجہ خضر، اویس قرنی اور شہربانو جیسی فرضی شخصیات گھڑ لی ہوں ان سے فرضی واقعات کی اختراع بعید از قیاس نہیں۔ جو اُمت اپنے نبئ محترم ﷺ کے نواسے اور آپ ﷺ کے صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے نواسے کو محفوظ نہیں رکھ سکی اور ہر دو کو بالترتیب 61 ھ اور 71ھ میں ذبح کر دیا ، اسی امت نے ان حادثات کے سو برس بعد اپنی روایات کو کیسے محفوظ کر لیا۔
اصل قصہ کچھ یوں ہے کہ ہشام بن عروہ بن زبیر بن العوام نے سن 71 ہجری کےقریب جب اپنی صاحبزادی کی شادی کی تو قرضہ لے کر اس پر لاکھوں اس امید پر اڑا دیا کہ ان پر مہربان خلیفہ وقت انہیں وظائف سے مالا مال کرے گاتووہ قرض خواہوں کو ادائیگی کر دیں گے۔ مگر خلیفہ وقت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وقت ہی بدل چکا تھا۔ ولید جیسا شخص خلیفہ بن چکا تھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انتہائی کنجوس انسان تھا۔ اس نے ہشام کوچند روپے دے کع ٹرخا دیا۔ اس کے بعد ہشام مدینہ آئے تو قرض خواہوں کے تقاضوں نے انہیں ایسا پریشان کیا کہ وہ از خود رفتہ ہو گئے اور جب ان کی بہکی بہکی باتیں امام مالک نے سنیں تو ان سے راویت کرنا منع فرما دیا۔ یہ جادو والی روایت بھی اسی دورِ جنوں کی یادگار ہے۔
Comments
Post a Comment