سماجی ذرائع ابلاغ: ایک عمومی رجحان کا جائزہ

سماجی ذرائع ابلاغ
ایک عمومی رجحان کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
drziaullahzia@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر شائع ہونے والا مواد  مختلف افراد کی داخلی کیفیات اور سماجی مصروفیات کا عکاس ہوتا ہے۔ مثلا
ایسا معلوم دیتا ہے کہ جو بھی شخص دین و مذہب سے جس قدر بیگانہ اور جس قدر رندِ خرابات ہے وہ اسی قدر مذہبی نوعیت کے امور میں سرگرمِ عمل نظر آتا ہے کبھی جمعہ مبارک تو کبھی رمضان مبارک کبھی مغفرت کی دعائیں تو کبھی کتاب و سنت سے اقتباسات۔فیس بک ہو یا وٹزہیپ شب و روز  بس یہی سلسلے زور و شور سے جاری رہتے ہیں۔ روزہ ہے تو شاز شاز نماز ہے تو نظرانداز مسجد ہے تو اس سے بھی اعراض قرآن کا مطالعہ ہے تو اس سے بھی اغماض مگر مذہبی پیغامات ہیں کہ شب و روز کا اوڑھنا بچھونا بنے ہیں۔ ان بیچاروں کا قصور نہیں ان کے ماں باپ اور معاشرے نے انہیں یہی کچھ سکھایا ہے کہ تم نماز پڑھو یا نہ پڑھو، جو فضول اور گندا کام کرنا ہے کرو مگر تم پھر بھی مسلمان ہو۔ مگرضمیر آخر کو کچوکے لگاتا ہے اور احساسِ گناہ لاشعور پر طاری ہوتا ہے تو یہ نچلے نہیں بیٹھتے پھر دے میسج پرمیسج مغفرت کی رات ہے مغفرت کروا لو عید کا دن ہے توبہ کر لو جمعہ مبارک ہو وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب کچھ ان کا اپنا ہی غم غلط کرنے کی تدبیر ہوتی ہے کہ
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
ہمیں تسلیم ہے کہ کچھ افراد واقعی دلسوزی اور تپاکِ جاں سے ایسے میسج کرتے ہوں گے  ان کا عمل بھی ان کے قول کا پاسدار ہو گا لیکن ہم عمومی رجحان کی بات کر رہے ہیں کہ ذاتی کردار تو اوباشوں کا سا ہے مگر فکر کھائے جا رہی ہے دین و مذہب کی۔
بعینہ کچھ لوگ جو اس دیس کو لُوٹ کھسُوٹ کر ہضم کر رہے ہیں۔ رشوت اور سفارش ان کے لئے کچھ عار نہیں۔ قائدِاعظم  سے انہیں کچھ غرض نہ اقبال سے کچھ شغف مگر پاکستان کے معاملے میں سب سے آگے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں میں پیش پیش۔ یہ بھی اپنی بداعمالیوں اور احساسِ جرم کو رفع کرنے کی لاشعوری کوشش ہے  یعنی اس سے ذہنی و جذباتی تنقیہ یا catharsis مقصود ہوتا ہے۔ یہاں بھی ہمیں تسلیم ہے کہ کچھ لوگ قوم و وطن کے بارے میں واقعی حساس ہوں گے مگر ان لوگوں کے پاس فضولیات کے لئے وقت ہی کہاں ہوتا ہے ہاں ان میں سے کچھ لوگوں پر اصلاحِ احوال کا سودا بھوت کی طرح سوار ہو جاتا ہے اور وہ خیریتِ تن راحتِ جاں اور صحتِ داماں جیسی اہلِ ہوس کی سب مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اصلاح کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ یہ عاشقانِ پاک طینت یقیناً ہماری تنقید کا نشانہ نہیں۔ ہمارا ہدفِ نقد ونظر تو وہ لوگ ہیں جو بھارتی گانوں، فلموں اور ساز و سامان کے بغیر ایک پل نہیں کاٹ سکتے مگر اپنی guilt feeling کو چھپانے اور دبانے کے لئے ایسے میسج کرتے ہیں مثلا کلبھوشن یادیو کی پھانسی میں تاخیر کیوں ؟ اسی طرح رشوت اور سفارش سے اپنے کام نکلوانے والے لوگ اپنی لاشعوری  خفت کو مٹانے کے لئے خودی کو بلند کرنے کے میسج کرتے ہیں۔
آپ سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کون کتنا فارغ اور بیکار ہے اور کون کتنا کارآمد۔ جو لوگ واقعی دین سے عملاً دلچسپی رکھتے ہیں انہیں اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ میری طرح سوشل میڈیا سے حظ اُٹھائیں اور قرآن کے مطالعہ کی بجائے سوشل میڈیا پر آیات شئیر کرتے پھریں۔ بعینہ جو لوگ واقعی تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ اس وقت بھی مصروفِ عمل ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں کہ سوشل میڈیا پر مجھ جیسے فارغ بیکار اور بے عمل لوگ بیٹھے کیسے کیسے اپنے غم غلط کرتے پھر رہے ہیں۔
برسوں پہلے  غالباًحبیب جالب نے  کیاخوب کہا تھا کہ
بہار کی بات کرتے ہیں وہ جو خود خزاٶں کے نامہ بر ہیں
یا ایک اور شاعر نے کہا تھا
قوم پر جب زوال آتا ہے
راہنما بے ضمیر ہوتے ہیں
جو خوشامد کے فن میں ہوں کامل
وہ امیر و وزیر ہوتے ہیں
جن کی فردِ عمل ہو اپنی سیاہ
وہی منکر نکیر ہوتے ہیں

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ