قربانی کی شرعی حیثیت و اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی کی شرعی حیثیت اور اہمیت
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
drziaullahzia@gmail.com
.................................................................
         تمام محقق علماء (مثلا مولانا عمر احمد عثمانی ، پروفیسر رفیع اللہ شہاب اور جاوید احمد غامدی وغیرھم) کے نزدیک عیدالاضحیٰ پر یہ جو گلی گلی محلے محلے اور شہر شہر قربانی کی جاتی ہے اس کی کوئی بھی شرعی حیثیت ہی نہیں ہے چہ جائیکہ اس کے مسائل پر تبصرہ کیا جاوے۔ ان عُلماء کے نزدیک قربانی کا اصل محل یعنی مقام از روئے قرآن صرف بیت عتیق یعنی حرم ہے اور یہ صرف اُن حاجیوں پر فرض ہے کہ جو حج کی متروک قسم حج تمتع ادا کریں یعنی عمرہ اور حج ایک ہی احرام سے ایک ہی مرتبہ ادا کریں۔ یہ نہ تو تمام حاجیوں پر فرض ہے اور نہ تمام مسلمانوں کے لئے فرض یا واجب ہے۔ اسلام میں عبادات صرف فرض ہیں یا نفل۔ واجب یا سُنتِ مؤکدہ (و غیر مؤکدہ) وغیرہ کی اصطلاحات بعد کی اختراع ہیں۔ ابوبکر و عمر اور دیگر کئی صحابہ رضوان اللّٰہ تعالٰی عنھم نے کبھی بھی عیدالاضحی پر  استطاعت کے باوجود  بھی قربانی نہیں کی مبادا  متاخرین اسے فرض نہ سمجھ لیں۔ جانور کی بھی کوئی قید نہیں کیونکہ بلال رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مُرغی کی قربانی ثابت ہے۔
تاہم جہاں تک تطوع کا معاملہ ہے (یعنی اپنی خوشی سے کوئی نفلی عبادت کرنے کا) اس حوالے سے قربانی ازل تا ابد اپنی جگہ ایک انتہائی اہم عبادت ہے لیکن نہ فرض ہے نہ واجب۔ اگر کوئی صاحبِ استطاعت یاصاحبِ عدمِ استطاعت تقرب الی اللہ ، تقوی کی افزائش اور بطورِ  استغفار یا تذکرہ ابراہیم و اسماعیل کی غرض سے بحضورِ باری تعالی قربانی پیش کرتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر کوئی صاحبِ عدمِ استطاعت بھی بخوشی یہ عبادت کرے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالی بھی پھر قدر دان ہے۔
آنحضرتﷺ نے بھی مدینہ طیبہ میں ہمیشہ عیدالاضحی کی قربانی فرمائی ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک قربانی اپنی طرف سے ایک اپنے اہل خانہ کی طرف سے اور ایک اپنی تمام اُمت کی طرف سے فرمائی لہذا کئی صحابہ رضوان اللّٰہ تعالٰی عنھم اسے کافی سمجھتے تھے۔
قربانی کا گوشت سب کا سب خود بھی کھایا جا سکتا ہے۔ عزیزوں اور ہمسایوں کی ضیافت بھی کی جا سکتی ہے اور ناداروں کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ مسنون تقسیم 3 حصے ہے ایک اہلِ خانہ کے لئے ایک اقرباء کے لئے اور ایک غرباء و مساکین کے لئے۔ مگر یاد رہے کہ اسلام میں غرباء و مساکین کے احکامات صرف عبوری دور سے متعلق ہیں ورنہ اسلامی معاشرے میں رفتہ رفتہ سائل و محروم کا وجود بینکاری ، نظامِ زرو سیم اورسرمایہ داری و جاگیرداری کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے اور سب ایک ہو جاتے ہیں
نے کوئی فغفور وخاقاں نے فقیرِ راہ نشیں
لہذا دریں صورت کہ اگر کسی علاقے میں کوئی مسکین نظر ہی نہ آئے تو پھر قربانی کا تمام گوشت خود بھی کھایا جاسکتا ہے۔
از روئے قرآن اللہ کو نہ قربانی کے خون سے کچھ غرض ہے اور نہ گوشت سے بلکہ اس تک رسائی صرف آپ کے خلوصِ نیت، حُسنِ عقیدت اور پرہیزگاری و پاکدامنی و پارسائی کی ہے۔ یہ نہیں کہ گھر میں تو فلموں ڈراموں کے خرابات اور ہلے گُلے ہوں یا  دل میں فخرومباہات اور معصیات ہوں مگر قربانی داغی جا رہی ہو۔

Comments

Popular posts from this blog

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ

عبادات بلا عمل