TAWAKUL توکل
توکل کا مطلب
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
گوجرہ (پنجاب۔ پاکستان) drziaullahzia@gmail.com
......................................
توکل کا مطلب صدیوں کے عجمی اثرات کے زیرِ اثر کچھ کا کچھ ہو چکا ہے۔
توکل کہتے ہیں اللہ کے قوانین پر بھروسے اور اعتماد کو۔ مثلا یہ کہ پانی ڈھلوان ہی کی طرف بہے گا اور جب تک مطلوبہ پریشر نہیں ہو گا نہ پانی فوارہ بن کر بلند ہو گا اور نہ راکٹ کششِ ارضی سے باہر جا سکے گا۔ اللہ کے قوانین مادی یا طبعی دنیا میں جس طرح کار فرما ہیں بعینہ اس کی روحانی دنیا بھی ایسے ہی قوانین پر مشتمل ہے جن پر اعتماد کا نام توکل ہے۔ یعنی اس کا قانون ہے للذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنة (القرآن) جن لوگوں نے اس دنیا میں بہترین کارکردگی دکھائی ان ہی کے لئے تمام تر کامیابیاں و کامرانیاں اور سرفرازیاں ہیں۔ یعنی جو کمیت و کیفیت یعنی quantity اور quality کے معیار پر پورا نہیں اترے گا وہ کبھی بھی دنیا میں کامیاب ہو گا نہ آخرت میں۔ ایسے ہی قوانین پر اعتماد کا نام توکل ہے۔ اگر وہ مطلوبہ محنت نہیں کرے گا تو دعائیں بھی اس کا کچھ بگاڑ نہ پائیں گی کیونکہ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (اللہ تعالی کبھی بھی لوگوں کے اچھے یا برے حالات نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل ڈالیں) اس قانون پر اعتماد کا نام ہے توکل کیونکہ اللہ تعالی نے کہ دیا ہے کہ لوگ دعائیں تو کیا کرتے ہیں کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة وقنا عذاب النار ( اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا)ـ اللہ تعالی نے اس کے بعد فرما دیا ہے کہ اولئک لھم نصیب مما کسبوا (ان کا نصیب تو وہی ہے جو ان کا اکتساب ہے) یعنی کرتوت جیسے ہوں گے ویسے ہی نصیب بھی ہوں گے۔ اس قانون پر اعتماد کا نام توکل ہے۔ یعنی اگر ہم اللہ کے قوانین پر عمل پیرا ہوں تو یہ ہمیں راستے میں دھوکہ نہیں دیں گے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ ہم گندم بیجیں تو کیکر اگ آئے اور کیکر بوئیں تو اس پر آم لگ جائیں۔
Comments
Post a Comment