وضو اور قرآنِ مجید
وضو اور قرآنِ مجید
تحریر و تدوین و تحقیق:
ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (drziaullahzia@gmail.com)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعیؒ کے نزدیک قرآنِ مجید کے بعد زیرِ فلک کوئی بھی کتاب مٶطا امام مالک سے زیادہ صحیح نہیں ہے ۔ یہ حدیث کی وہ واحد مستند کتاب ہے جو مدینہ طیبہ میں رسول ِ مقبول ﷺ سے قریب تر دور میں ضبطِ تحریر میں آئی۔ اس میں وضو کےبغیر قرآن پڑھنے کی رخصت وغیرہ کے عنوان کے تحت ایک عجیب و غریب واقعہ درج ہے کہ امیرالمومنین سیدنا فاروقِ اعظمؓ اپنے عہدِ بابرکات میں ایک مرتبہ جب رفع حاجت سے واپس آئے تو بغیر وضو کئے قرآنِ مجید اُٹھا کر پڑھنے لگے۔آپ کو ایک ایسا شخص بغور دیکھ رہا تھا جو کسی دور میں مسیلمہ کذاب کے فتنہ میں گرفتار رہنے کے بعد تائب ہو گیا تھا ۔ اُس نے سیدنا عمرؓ سے بصد حیرت و استعجاب دریافت کیا ” ا تقراء و لست علیٰ وضو (حیرت ہے کہ آپ بغیر وضو کے قرآنِ مجید پڑھتے ہیں !) “ اس پر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ارشاد فرمایا ” من افتاک بھذا ؟ اَ مسیلمہ؟ ( تجھ سے کس نے کہ دیاہے کہ ایسا کرنا منع ہے؟ کیا مسیلمہ کذاب نے تجھے ایسا فتویٰ دیا تھا ؟)۔ مٶطا امام مالک کے مترجم و شارح علامہ وحید الزماں اس روایت کی شرح یوں فرماتے ہیں” رسول اللہ ﷺ تو بے وضو کلام اللہ پڑھا کرتے تھے“ اُن کا تو ایسا فتویٰ نہیں ہے ( کہ قرآنِ مجید پڑھنے کے لئے وضوضروری ہے)۔ ( مٶطا امام مالک ترجمہ و فوائد علامہ وحیدالزماں۔ شائع کردہ اسلامی اکادمی۔ 17۔ اردو بازار لاہور)۔۔۔۔ آج سے تقریباً 22 سال قبل جب میں نے مٶطا امام مالک سے یہ خوشہ چینی کی تو بہت تعجب ہوا۔ ایک صاحبِ علم سے میں پوچھ ہی بیٹھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اُن نے بھی مٶطا کا حوالہ دیتے ہوئے اسی امر کی تائید کی۔ اس امر سے اُس مکتبہؑ فکر کی پردہ دری ہوتی ہے جو قدم بہ قدم اور جا بجا قرآنِ مجید کی تلاوت کے لئے وضو کا التزام کر کے اس کتابِ ہدایت کو عوام الناس کے لئے Inaccessible & unapproachable یعنی یعنی نارسا و نایاب بنا دیتا ہے اور ہم اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں کہ موسمِ سرما کی یخ بستگی میں بار بار وضو کیونکر کیا جائے اور یوں وضو اُس کتابِ رشد و ھدایت تک رسائی میں مانع ہو جاتا ہے کہ جس کے نام کا لفظی مطلب ہی بکثرت اور بار بار پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ یوں قرآنِ مجید کتابِ انقلاب ثابت ہونے کی بجائے محض کتابِ برکت و ثواب بن کر زینتِ جزدان اور حوالہؑ طاقِ نسیان ہو جاتا ہے پھر زیادہ سے زیادہ قول و قسم لینے کے لئے اُٹھایا جا تا ہے یا بوقتِ رخصت اُن بیٹیوں کے قرآنی تعلیمات سے نا آشنا سروں پر سایہ کرنے کے لئے نکالا جاتا ہے جن کو اغیار کی انگریزی زبان تو پڑھا دی لیکن قرآن کی عربی زبان سے اور قرآن فہمی سے دور رکھا۔ یاد رکھیئے کہ قرآنِ مجید نے پہلے ہی باور کروا دیا ہے کہ بروزِ قیامت قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ھذَا الۡقُرۡاٰنَ مَھجُوۡرًا ۔۔۔رسولؐ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (الفرقان ۔ آیت 30) قرآنِ مجید کو بغیر وضو کے پڑھنے کے ضمن میں 2 انتہائی مستند و معتبر تفاسیر سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں۔ جن سے اس مسؑلے کی خاطر خواہ وضاحت ہو جاتی ہے: 1۔ ”جن فقہاء نے قرآن کو ہاتھ لگانے تک کے لئے بھی طہارت کی وہ شرطیں عائد کی ہیں جو نماز کے لئے ضروری ہیں ان کے اقوال غُلو ( مبالغہ آرائی exaggeration) پر مبنی ہیں۔ قرآنِ مجید ہر قدم پر حق و باطل اور خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ، حوالہؑ اخذ و استنباط (Refrence for derivation & deduction ) اور مرکزِ استدلال (logic ) بھی ہے۔ اگر اس کو ہاتھ لگانے یا اس کی کسی سورة یا آیت کی تلاوت کرنے یا اس کا حوالہ دینے کے لئے بھی مطہر اور باوضو ہونا ضروری قرار پائے تو یہ ایسی تکلیفِ ما لا یطاق ہو گی جو دینِ فطرت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس طرح کی غیر فطری پابندیاں عائد کرنے سے قرآن کی تعظیم کا وہی تصور پیدا ہو گا جس کی تعبیر سیدنا مسیحؑ نے یوں فرمائی ہے کہ تمہیں چراغ دیا گیا تھا کہ سارے گھر میں روشنی پھیلے لیکن تم نے اُس کو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر رکھا ہے۔“ ( تفسیر تدبرِ قرآن از امین احسن اصلاحیؒ۔ تشریح آیة 89۔ سورة واقعہ) 2۔ ” ظاہریہ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے خواہ آدمی بے وضو ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ (امام) ابنِ حزم نے المحلیٰ میں اس مسلک کی صحت کے دلائل دیئے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ فقہاء نےقرآن پڑھنے اور اُس کو ہاتھ لگانے کے لئے جو شرائط بیان کی ہیں ، اُن میں سے کوئی بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے۔“ (تفھیم القرآن از سید مودودیؒ ۔ تفسیر آیت 89۔ سورة واقعہ)۔ 3۔ ” لا یمسہ الا المطھرون (پاکیزہ فرشتوں کے سوا کوئی اسے نہیں چھوتا) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب تک کوئی شخص پاک نہ ہو وہ اسے نہ چھوئے۔ یہ تفسیر آیت کے سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ “ (ایضاً) مندرجہ بالا تفاسیر میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ صورتِ واقعہ ہے کیا۔ میری دانست میں قرآن پڑھنے کے لئے وضو لازم تونہیں تاہم آداب کا تقاضہ ہے ۔ علاوہ ازیں توجہ مرکوز رکھنے اور نیت درست رکھنے کا مٶثر ذریعہ ہے مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بحالتِ جنابت مصحف کو مس یعنی Touch نہ کیا جائے لیکن وضو نہ بھی ہو تو بھی قرآنِ مجید سے بار بار راہنمائی لینے اور استفادہ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیئے۔ کور چشمانِ منبر و محراب اس امر کو کیونکر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جس کتاب میں نماز کے لئے وضو کا پورا طریقہ بیان ہوا ہے اور کہنیوں اور ٹخنوں تک کے دھونے کا ذکر ہے اُس کتاب سےکیا بعید تھا کہ خود اپنی تلاوت کےضمن میں بھی وضو کا کوئی نسخہ بیان ہو جاتا۔ جو قرآن اپنے آدابِ تلاوت میں پڑھنے سے قبل تعوذ لازم ٹھراتا ہے آخر وضو اور طہارت کو لازم ٹھہرانے میں اُسے کیا امر مانع تھا۔ وہ قرآن جو ہر شے کی تفصیل و تبیان کا مدعی ہے آُس نےاپنے پڑھنے کے لئے وضو کو لازم کیوں نہ قراردیا ۔مگر قرآن قدم قدم پر جن کی راہنمائی کو اُترا اُن نے خود ہی جا بجا فقہی پابندیوں اور مُو شگافیوں میں اپنےتئیں اس ذریعہِؑ رشد و ہدایت سے دور کر لیا .
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
Comments
Post a Comment