تجھے کیا ملے گا نماز میں
تجھے کیا ملے گا نماز میں
(ایک سوال کے جواب میں)
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
drziaullahzia@gmail.com
.........................................................................
سوال تو محض یہ تھا کہ کیا ہم اپنی فرض نماز کسی چلتی ہوئی سواری (مثلا کار وغیرہ) میں بیٹھے کسی اہتمامِ قبلہ کے بغیر پڑھ سکتے ہیں ؟ مگر اس کا جواب قدرے تفصیل کا متقاضی ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے اسی شے کا سمجھنا ضروری ہے کہ جس کی بابت سوال ہوا ہے یعنی کہ "نماز" جو فارسی میں صرف مجوسیوں کی رسمِ پرستش یا پوجا پاٹ کا مفہوم رکھتا ہے جسے ہم مسلمانوں نے الصلوة کے متبادل کے طور پر پاک و ہند میں نہ صرف خود مجوسیوں سے مستعار لیا ہے بلکہ موجودہ عربوں کے دماغوں میں بھی الصلوة کے حقیقی مفہوم کو مسخ کر کے انگریزی کی prayer بنا کر رکھ دیا ہے۔ جبکہ قران میں الصلوة یہ ہے کہ
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالطَّيۡرُ صٰٓفّٰتٍؕ كُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسۡبِيۡحَهٗؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ (آیت24:41۔ النور)
تفہیم الآیات:
تم غور تو کرو کہ اللہ کے لئے تسبیح کرتا (یعنی بھاگا دوڑا پھرتا) ہے جو بھی کچھ ارض و سماوات میں ہے اور یہ پر پھیلائے اڑتے پرندے بھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی صلوٰة (فرائضِ منصبی ) اور اپنی اپنی تسبیح (سرگرمی) سے آگاہ ہے اور اللہ کو بھی ان کے افعال کا علم ہے
یعنی
صَلَاتَهٗ وَتَسۡبِيۡحَهٗؕ (ان کی صلوة و تسبیح) = بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ (جو بھی کچھ وہ کام سرانجام دیتے ہیں)
یاد رہے کہ عربی زبان میں تسبیح کے ماخذ سبح کا مطلب "تیزی سے تیرنا" ہےـ
یہ آیت اس امر پر دال ہے کہ صلوة محض کسی پوجا پاٹ کا نام نہیں یہ کام کاج کا نام بھی ہے۔
نماز کوئی چھو منتر تو ہے نہیں کہ جو منہ میں آیا بلا سوچے سمجھے اگل دیا اور اس لایعنی کام کا نادیدہ ثواب اکٹھا کرنے بیٹھ گئے کیونکہ نصِ قرآنی کا تقاضہ ہے کہ نماز کا علم بھی ہو:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ۔۔۔
(4:43)تفہیم الآیات:
بحالتِ نشہ نماز سے منع کرنا مقصود بالذات نہیں بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے تمہارے لئے اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔
حضورِ قلب ، تفہیم و شعورِ آیات اور اللہ سے لو لگائے بغیر نماز جیسے عظیم کام کے اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ ایسی بیکار نمازیں نمازی ہی کے منہ پر دے ماری جاتی ہیں۔
مزید یہ کہ فحشاء و منکر میں الواث اور شھہوات کی پیروی وغیرہ نماز کی روح اور نماز کی حفاظت ہی کے منافی ہے۔ جو لوگ ان کاموں میں ملوث ہیں ان کی پڑھی ہوئی نمازیں ہی رائیگاں ہو جاتی ہیں نصوصِ قرآنی کی قطعیت ان امور پر دال ہے مثلا
١ـ ۔۔۔۔خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا⭕فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا⭕ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ..
.(59-19:58)
تفہیم الآیات:
۔۔۔۔۔۔۔نماز کا حقیقی کیف تو انہیں میسر تھا جو روتے روتے بےاختیار سجدوں میں گر پڑتے تھے جبکہ ان کے بعد وہ ناخلف آگئے کہ جن نے اپنی شہوتوں کو اختیار کر لیا بنا بریں نماز کی کیفیات ہی سے محروم ہو گئے ۔ ایسے لوگ بہت جلد گمراہیوں میں جا پڑتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اپنی شہوتوں (مزے کی باتوں اور لذیذ کاموں) سے باز آ جائیں اور ایمان لا کر اعمالِ صالحہ اختیار کر لیں۔۔۔۔۔
٢ـ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ ۔۔۔ (29:45)
تفہیم الآیات:
بلاشبہ فحشاء و منکر نماز کے منافی سرگرمیاں ہیں کیونکہ نماز انہی امور سے تو روکنے کے لئے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیرِ طبری بحوالہ احادیث و آثار (بالتدوین و تلخیص):
من لم تنهه صلاته عن الفحشاء والمنكر لم يزدد بصلاته من الله إلا بُعدا۔ لا تنفع إلا من أطاعها.لا صَلاةَ لِمَن لَمْ يُطِعِ الصَّلاةَ، وَطاعَةُ الصَّلاةِ أنْ تَنْهَى عَنِ الفَحْشاءِ وَالمُنكَرِ
( مفہوم : فحشاء و منکر سے باز نہ رکھنے والی نماز اللہ سے مزید دور کر دیتی ہے ۔ نماز کا فائدہ صرف اسی کو ہوتا ہے جو نماز کی اطاعت کرتا ہے ۔ اس کی نماز ادا ہی نہیں ہوتی جو نماز کی اطاعت نہیں کرتا اور نماز کی اطاعت فحشاء و منکر سے رک جانا ہے)
تفسیر تدبرِ قرآن (بالتدوین و تلخیص):
نماز کا اہتمام شہوانی جذبات سے وجود میں آنے والی برائیوں سے پاک کرتا ہے۔ لوگوں کا ضمیر اس طرح مردہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ان بےحیائیوں (مثلا فلموں اور ڈراموں) کو تہذیب و ترقی کا لازمہ سمجھنے لگا ہے اور ناقدین کو احمق اور دقیانوسی قرار دیتا ہے۔ طمع و حرص ، حبِ مال و جاہ اور تمام برائیاں جو ایک صالح معاشرہ کی پاکیزہ روایات اور اس کے معروف مسلمات کے خلاف ہوں منکر ہیں ۔ اس زمانے میں معاشرت و معشیت کا یہ فساد زندگی کے ہر شعبہ میں چھا چکا ہے ہیں۔ ان کے لئے لفظ منکر استعمال ہوا ہے۔ نما ز کی حیثیت ایک نہایت موثر واعظ و زاجر کی ہے۔ جو لوگ نماز اس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ان کی نماز اپنے ظاہر و باطن دونوں سے، ان کو ان حقائق کی یاد دہانی کرتی رہتی ہے جن کی یاددہانی زندگی کو صحیح شاہراہ پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ خاص طور پر خلوت کی نمازیں انسان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کسی نماز کے اندر صحیح تذکر اور اخلاص مفقود ہوں تو لازماً نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے معنی و مفہوم سے بالکل بیخبر ہے، اس کو کچھ معلوم نہیں کہ نماز میں اس نے کس چیز کا اقرار اور کس بات کا انکار کیا ہے۔ اصلی چیز خدا کی یاد ہے جس کی سب سے زیادہ بہتر جامع اور موثر شکل نماز ہے۔ یہ دل کی وہ طمانیت و سکنیت ہے جو انسان کو خدا کے سوا ہر طمع سے بےپروا کردیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الصلوٰة
(انتخاب وتلخیص و تدوین از تذکرہ۔ علامہ مشرقی)
قرآن کی الصلوٰة صرف ایک نوکر کا پنج وقتہ سلام ہے۔ایک کارکن خادم کی احیاناً اپنے مالک کے حضور حاضری ہے۔ نعمت کے حصول کی عرضداشت ہے۔ کچھ خدمت کے سوئے ہوئے جذبے کو محرک کرنے کا وسیلہ ہے۔ مگرعبادتِ خدا قطعاً نہیں۔ خدا کی عبادت فی الحقیقت ان 5 وقتوں کے بعد اس وقت شروع ہوتی ہے جب مصلاؤں سےاٹھ کر لوگ احکامِ خدا کی تعمیل میں لگ جاتے ہیں۔ جب تن آسانی کے بت کو توڑ کر تگ و دو کی جاتی ہے۔جب نفس کے بت کو زیر کرکےنادار کے ساتھ احسان کیا جاتا ہے۔ جب محبتِ مال کے بت کی پرواہ نہ کرکے خدا کی راہ میں جہاد بالمال ہوتا ہے۔ جب حُب اولاد کے بت سے بے نیاز ہو کر حکمِ خدا سے سفر ہوتا ہے۔جب نفس پرستی کے بت کو توڑ کر جہاد بالسیف کیا جاتا ہے، جان کھچ کھچ کر حلق تک ہہنچتی ہے اور خدا یاد آ جاتا ہے۔جب بندہ خدا اپنے تن من دھن کو اپنے آقا مالکِ یوم الدین کی خوشنودی اور خدمت میں قربان کر دیتا ہے۔ مہینے کے اخیر پر تنخواہ کی امید میں مہینہ بھر جان لڑا دیتا ہے یعنی اس چار دن کی زندگی کے ختم ہونے پر ابد الآباد تک "الجنة” کے حقدار ہونے کی توقع میں اپنے آپ کو پیہم دکھ، مسلسل تکلیف اور متواتر سعی و عمل میں مشغول رکھتا ہے۔ یہی توحید ہے۔ ایسی عبادت وقت اور مقام، قوموں، قعدوں، رکعتوں اور رکنوں سے قطعا مستغنی (لاتعلق) ہے۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء، اشراق، مسجد یا خانقاہ سے اس کو کچھ واسطہ نہیں۔ یہ ایک پیہم اور مسلسل عمل ہے۔ چند لمحوں تک کھڑا ہونا یا بیٹھ جانا اس کو ادا کرنے کا اسلوب نہیں۔ قرآن کی بتائی ہوئی الصلوة اگر کسی معنوں میں داخلِ عبادت ہے تو اس لئے کہ یہ بھی اور بیسیوں حکموں میں سے خدا کا ایک حکم ہے اور بنا بریں اس فرض کا ادا کرنا بھی اور حکموں کی طرح شاملِ خدمت ہے یا اگر وہ داخلِ عبادت ہو سکتی ہے تو اس طرح پر جس طرح کہ ایک نجار (بڑھئی) یا معمار کا اپنے اوزاروں کو چند لمحوں کے لئے تیز کر لینا دن بھر کی مزدوری میں شامل ہے۔ اگرچہ مستاجر (مالک) کی اصلی غرض معمار سے مکان تیار کروانےکی ہے اس سے کم تر کچھ نہیں۔ لیکن جو نجار تمام دن ہتھیار تیز کرنے میں صرف کر دے اور کام کرنے سے گریز کرے، ایک کیل نہ ٹھونکے، ایک تختے کو صاف نہ کرے وہ مستاجر کے نزدیک کام چوری کر رہا ہے بلکہ اس بدمعاشی کی اجرت (ثواب) مانگنا ہی گستاخی ہے۔ آقا کی ملازمت کا پہلا محرک آقا سے تعلق لگائے رکھنا ہے اور اس تعلق کا عمدہ ذریعہ الصلوة ہے۔ پس اگر کوئی نماز خدا سے لگاؤ پیدا کر کے اس کی خدمت اور عبادت نہ کرائے۔ اس کا ذکر، اس کا کھٹکا اوراس کی یاد پیدا کر کے اس کے دیئے ہوئےحکموں کی تعمیل پیہم نہ کراتی رہے تو وہ ایک بیکار ہتھیار ہے۔ خدا کو انسان کی وہی حاضری پسند ہے جو (اس کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت پر) کسی نتیجہ خیز عمل کے بعد ظہور میں آئی ہو۔ ناکارہ، بے عمل، بھگوڑا اور کاہل الوجود نوکر آقا کے حضور کس منہ سے جائے گا۔ اس کی حاضری عبث ہے۔ مالک کو الٹا طیش می لانے کا عمدہ بہانہ ہے۔ کام چور اور حرام خور نوکر کے لئے یہ ہر وقت سلام کرتے رہنا، دم بدم ہاتھ باندھ کر مودب سروقد کھڑے ہو جانا پرلے درجے کی گستاخی اور بدمعاشی ہے، ریاکاری و مکاری و شرک و کفر ہے۔ خدا کو قطعا ناپسند ہے۔ کام چوری کے ڈھنگ ہیں اور نفس کو دھوکہ دینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں تو نمازیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ لوگ پنجگانہ نشست و برخاست اور قیام و قعود ہی کی مراسمِ پرستش کو نماز سمجھے بیٹھے ہیں۔ بنا بریں نماز کے اثرات نہ ان کی ذات پر مرتب ہوتے ہیں نہ درونِ خانہ اور نہ بیرونِ خانہ
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں (اقبال)
اب ایسی بیکار کی نمازیں خواہ کوئی حرم میں پڑھے، گھروں میں پڑھ لے یا سواری پر۔۔۔ یہ کچھ اثرات مرتب نہیں کریں گی۔ دل وہی کافر کا کافر ہی رہے گا
دل ہے مسلمان تیرا نہ میرا
تو بھی نمازی میں بھی نمازی (اقبال)
کام کرنا شیطان کا اور نام لینا رحمان کا۔ پسند کرنا فرعون کی زندگی اور اجرت طلب کرنا موسی کی۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
ہماری نمازوں پر اقبال کا یہی تبصرہ کافی ہے کہ
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غور فرمائیے کہ نمازیں تو ہماری نذرِ برہمن ہو چکیں، دل ہمارے کافر ہو چکے مگر مسئلے پوچھنے چلے ہیں کہ نماز میں کیا فرض ہے اور کیا نفل؟ نواقضِ وضو کیا ہیں ؟ قبلہ رو ہونا بھی ہے یا نہیں ؟ سفر میں نماز کا کیا کرنا ہے ؟ ارے بھائی جب نماز ہی وہ نہیں رہی جو مطلوب تھی تو بھاڑ میں گئے تم اور تمہارے مسئلے۔ آخر بربادی نمازیوں پر بھی تو آنی ہے ۔ پڑھ دیکھئے سورة ماعون کہ وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ صاف لکھا ہے کہ وہ تکذیبِ دینِ برحق کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ وہ بے سہاروں کو خود سے دور ہٹاتے ہیں۔ خود دعوتیں اڑاتے ہیں مگر غریبوں کے کھانے کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ مال و متاع جس کو سب کے لئے عام ہونا چاہیے اسے صرف اپنے پاس رکھتے ہیں اور کسی کو نہیں دیتے۔ Share کرنا اور بانٹنا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ایسے ہی نمازی ہیں جن کی نمازیں محض ڈھونگ ہیں، سوانگ ہیں، دکھاوے ہیں ، شعبدہ بازیاں ہیں۔ ان کی زندگیاں، ان کی معیشت، ان کے لباس ، ان کی بود و باش ان ہی کی نمازوں کے برعکس ہے۔ ان کی نماز ان کی زندگی پر کوئی اثرات مرتب نہیں کرتی کوئی نقوش نہیں چھوڑتی کہ ان کا بھی کوئی مالک ہے بلکہ ان کے شب و روز شیطان کی خوشنودی میں صرف ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے نزدیک قبلہ رخ ہونا کوئی بہت بڑی نیکی ہے جس کے بغیر ان کی نماز نہیں ہو گی مگر قرآن ان کے نیکی کے اس بھونڈے تصور کا بھانڈا ان ہی کے سر پر یوں پھوڑتا ہے کہ تم جو محض رسومات کی بجا آوری کو نیکی سمجھتے ہو نیکی یہ تو نہیں ہوتی:
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ.......................... (آیت2:177-البقرة)
تفہیم الآیات:
قبلہ رخ ہونا تو کوئی حقیقی نیکی ہے ہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف رخ پھیرنے کو کوئی نیکی سمجھ بیٹھو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ تقویٰ (خوفِ خدا کے باعث اپنی خواہشات کو چھوڑ دینا) اور صدق و صفا کو اختیار کیا جائے جس کے لوازم و حقیقی مظاہر یہ 6 ہیں:
١ـ ایمان کو دل میں جاگزیں کیا جائے
٢ـ مال و دولت کو اپنی خواہش یا پسند پر لٹانے کی بجائے اس مال و دولت کی محبت کو دل سے اس طرح نکال باہر کیا جائے کہ اسے صرف اللہ ہی کی محبت میں اور اسی کی پسند کے کاموں میں صرف کیا جائے مثلا عزیز و اقارب کی ضروریات پوری کرنے پر، یتیموں، بیواؤں اور بے سہاروں کی پرورش پر ، غریبوں پر، راہِ خدا کے مسافروں پر، مانگنے والے ضرورت مندوں پر، قرض اور غلامی کے شکنجوں میں پھنسے لوگوں پر
٣ـ صلٰوة قائم کرنا یعنی انفرادی و اجتماعی سطح پر اللہ تعالی اور اس کے پیغام سے پیہم جڑے رہنا
٤ـ زکوٰة ادا کرنا
٥ـ عہد و پیمان اور ذمہداریوں کو نبھانا
٦ـ ہر نوع کی تکالیف و مشکلات و مصائب یا جنگ میں میں مستقل مزاجی اور ہمت و برداشت اختیار کرنا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ.............
یہ سب کچھ درست ہی سہی مگر بایں ہمہ نماز چھوڑنی نہیں پھر بھی ادا کرنی ہے بس اتنی سی احتیاط کرنی ہے کہ ہم واقعی وہ مصلین بن جائیں جن کی نمازیں ان میں وہ اوصاف پیدا کر دیتی ہیں جو قرآن کے نزدیک مصلین کا خاصہ ہیں مثلا
سورة المعارج (70) کی آیات 18 تا 34 میں حقیقی مصلین (نمازیوں) کے جو اوصاف درج ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نمازیوں میں یہ کمینے اوصاف نہیں ہوتے کہ وہ مال و متاع جمع کریں اور اسے سینت سینت کر رکھتے پھریں اور نہ وہ تھڑ دلے ہوتے ہیں کہ غربت و عسرت اور تکالیف و مصائب سےان کی جان جائے اور وہ گھبرا کر واویلا مچائیں یا جو مال و اسباب اور دولت و ثروت ملنے پر اسے
اپنے تک ہی محدود کر کے بیٹھ رہیں اور
کرنا share
یعنی بانٹ کر استعمال کرنا یا کسی اور کو بھی اس
میں شریک کرنا یا کسی اور کو فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے سب کچھ دے دینا انہیں گوارا نہ
ہو۔
اپنے تک ہی محدود کر کے بیٹھ رہیں اور
کرنا share
یعنی بانٹ کر استعمال کرنا یا کسی اور کو بھی اس
میں شریک کرنا یا کسی اور کو فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے سب کچھ دے دینا انہیں گوارا نہ
ہو۔
إِلَّاالْمُصَلِّينَ۔
مگر مصلین یعنی حقیقی نمازی ایسے نہیں
وہ تو ہمیشہ نماز ہی کی کیفیات میں کچھ یوں رہتے ہیں کہ
کہ وہ اپنے مال و اسباب میں ہر ضرورت مند کا مقرر حق سمجھتے ہیں خواہ کوئی ان سےمانگے یا نہ مانگے۔ وہ بن مانگے خود ہی سب کی ضرورتیں پوری کرتے چلے جاتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ۔۔۔
۔۔اپنے اس طرزِ عمل سے یہ روزِ جزا کی واقعی عملی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے رب کے اس عذاب سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں جس سے کسی کو مفر ہی نہیں
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔۔۔
۔ اور یہ جنسی طور پر انتہائی پاکدامنی و
پاکبازی کی زندگی گزارتے ہیں اور اس ضمن
میں شرعی حدود کے پاسدار ہوتے ہیں یعنی
صرف اپنے ازواج تک ہی محدود ہوتے ہیں۔
ان پر ملامت بھی نہیں کیونکہ یہ اس ضمن
میں حدود فراموش نہیں ہوتے
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
ویسے بھی اپنی ذمہ داریوں اور عہد و پیمان
کی نگہداشت کرتے ہیں
۔وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ
اور اپنی تمام شہادوں اور سچائیوں پر
کاربند رہتے ہیں
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
یہی تو ہیں جو اپنی نمازوں کے بارے میں
محتاط رہتے ہیں اور ان کی اس طرح
حفاظت کرتے ہیں کہ کہیں ان نمازوں کے
اثرات شہوتوں اور فواحش و منکرات کی
بھینٹ چڑھ کر ضائع نہ ہو جائیں
وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ۔۔۔
۔۔اپنے اس طرزِ عمل سے یہ روزِ جزا کی واقعی عملی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے رب کے اس عذاب سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں جس سے کسی کو مفر ہی نہیں
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔۔۔
۔ اور یہ جنسی طور پر انتہائی پاکدامنی و
پاکبازی کی زندگی گزارتے ہیں اور اس ضمن
میں شرعی حدود کے پاسدار ہوتے ہیں یعنی
صرف اپنے ازواج تک ہی محدود ہوتے ہیں۔
ان پر ملامت بھی نہیں کیونکہ یہ اس ضمن
میں حدود فراموش نہیں ہوتے
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
ویسے بھی اپنی ذمہ داریوں اور عہد و پیمان
کی نگہداشت کرتے ہیں
۔وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ
اور اپنی تمام شہادوں اور سچائیوں پر
کاربند رہتے ہیں
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
یہی تو ہیں جو اپنی نمازوں کے بارے میں
محتاط رہتے ہیں اور ان کی اس طرح
حفاظت کرتے ہیں کہ کہیں ان نمازوں کے
اثرات شہوتوں اور فواحش و منکرات کی
بھینٹ چڑھ کر ضائع نہ ہو جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہوتی ہیں نمازیں اور یہ ہوتے ہیں نمازی اور یہ ہوتی ہے دلجمعی سے نمازوں کی واقعی حفاظت و نگہداشت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آمدم برسرِ مطلب کہ اگر کسی سفر وغیرہ کے اندیشے میں دلجمعی کی کیفیات میسر نہ رہیں تو پھر بھی نماز نہیں چھوڑنی کہ وہ تو
كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
مومنوں پر فریضہ موقتہ ہی ہے یعنی اپنے
وقت کی پابندی ہی سے فرض ہے
بنا بریں قضا نمازیں منصوص بالقرآن ہی
نہیں ہیں
لہذا قضا نمازوں کی شرعی
حیثیت
لہذا قضا نمازوں کی شرعی
حیثیت
ہی محلِ نظر اور مشکوک ہے۔
اب رہی بات سفر میں نماز کیسے پڑھی جائے تو پیدل بھی اجازت ہے اور سواری پر بھی ۔
زیرِ نظر آیات پر غور فرمائیے:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ⭕ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ
(239-2:238)
تفہیم الآیات:
تمام نمازوں کا مکمل اہتمام تو ضرور کرو اور خاص طور پر صلوةِ وسطی کا یعنی اس نماز کا جو تمہاری مصروفیات یا مشغولیات کے عین درمیان میں مخل ہو اور جس کا عمومی طور پر ادا کرنا تمہارے لئے بارِ گراں ہو ۔لیکن نمازوں کے اہتمام سے اصل مقصود یہ ہے کہ تم اللہ کے فرماں بردار بندے بن کر زندگی گزارو ۔ اگر یہی حقیقی مقصد حاصل نہ ہوا تو پھر نافرمانوں کی نمازوں کی وقعت ہی کیا ہے۔
اگر تمہیں خدشہ لاحق ہو یا اندیشہ دامن گیر ہو (کہ تم کسی جلدی میں مثلا سفر وغیرہ کے پیشِ نظر نمازوں کو باہتمام ادانہ کرسکو گے یاکوئی نماز چھوٹ جائے گی) تو پھر تم خواہ پیدل چلتے ہوۓ ہی نماز پڑھ لو ، خواہ سواری پر بیٹھے بیٹھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ رخصت صرف احوالِ خوف و خدشات تک ہی محدود ہے ۔۔۔ جب بھی کیفیتِ امن دوبارہ میسر ہو تو اللہ کی یاد یعنی نماز کا اہتمام دل جمعی سے ویسے ہی کروجیسا کہ تمہیں سکھایا گیا ہے جو کہ تم جانتے ہی نہیں تھے۔
.......................................................................
جب پیدل ہوں یا سواری پر تو نیت قبلہ ہی کی ہو ۔ جہاں تک ممکن ہو تو ایک مرتبہ قبلہ رخ ضرور ہو جائیں جو آپ کو آپ کا offline موبائیل app بھی بتا دے گا مثلا
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.quranreading.qibladirection
ایسے ( یعنی سفر) میں قبلہ رخ ہونے کا مطلب بالکل ہی قبلہ رخ ہونا نہیں بلکہ قبلہ کی اصل سمت سے دائیں بائیں زیادہ سے زیادہ 45 درجے کا انحراف بھی قابلِ قبول ہے مگر اس سے زائد نہیں۔ البتہ جب اس طرح ہی سہی مگر ایک دفعہ قبلہ رخ ہو جائیں تو پھر سواری جہاں بھی رخ کرے وہ قبلہ ہی شمار ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ میری دانست اور میری برسوں کی تحقیق ہے۔ آپ کسی عالمِ دین سے confirm کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود بھی پڑھیے اور دوسروں کو بھی یہ لنک share کر دیجیے
Comments
Post a Comment