طلاق اور خانگی کشیدگی۔۔۔ ایک کھلا خط Divorce & family disputes in URDU

خانگی کشیدگی
 تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
drziaullahzia@gmail.com
 کھلا خط اپنے ایک عزیز کے نام
افادہ عامہ کے لئے مشتہر کیا گیا
**************************
 برادرِ عزیز

 السلام علیکم
      آپ کابرادرِ خورد ایک عرضداشت کے ساتھ حاضرِ خدمت ہے کہ آنے والی دنیا کے لئے اس دنیا و مافیہا کو بھول کر طلاق سے رجوع فرما لیجیے تاکہ آپ کے اہلِ خانہ آپ کی سرپرستی اور آپ کے نام سے محروم ہو کر جیتے جی زندہ لاشیں نہ بن جائیں۔
طلاق بھی آپ کا حق ہے اور رجوع (طلاق واپس لینا) بھی۔ آپ کو تو کوئی بھی اس سلسلے میں مجبور نہیں کر سکتا مگر  آپ کے کسی بھی فیصلے کے نتائج و عواقب بڑے گہرے اور دور رس ہوں گے۔ غلطی ایک وقت کی ہوتی ہے مگر کئی نسلوں تک اس کے اثرات جاتے ہیں۔ غالبا میں نے کتابِ مقدس (bible ) میں مدتوں پہلے کوہِ طور پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالی کاایک کلام پڑھا تھا جس کا مفہوم یوں ہے کہ میں وہ خُدا ہوں کہ ماں باپ کی غلطیوں کے اثرات سات نسلوں تک اولاد پر مرتب کرتا ہوں۔
؎ لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
ہماری حیاتِ چند روزہ باقی ہی کتنی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اذیت ناک یادیں دے کر جائیں اور آخرت میں بھی اپنے کئے دھرے کابدلہ پائیں۔
بندگانِ خدا تو اللہ تعالی سے ملنے کی آرزو میں اور اس کو پانے کی جستجو میں بہت کچھ درگزر کر دیتے ہیں، معاف کر دیا کرتے ہیں، بھول جاتے ہی، اپنے پر بہت کچھ سہہ لیتے ہیں مگر کسی کو تکلیف نہیں دیتے کیونکہ ان کی منزل یہ دنیا نہیں وہ دنیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور وہ دنیا کبھی نہ ختم ہونے والی دنیا ہے مگر وہ انہی کو ملے گی جو
  يَشۡرُوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا بِالۡاٰخِرَةِ‌ ؕ (دنیا کی زندگی کو آخرت کے عوض بیچ دیتے ہیں) یہاں تک کہ اللہ کی خوشی کی خاطر اپنے آپ کو، اپنی زندگی کو غرضیکہ ہر شے کو بیچناپڑتا ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّہ
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا کے لئے اپنے آپ ہی کو بیچ ڈالتا ہے۔
اختلافات اور الزامات بس یہیں کا سودا ہے۔ آخرت کی طلب ہے تو ہمیں اپنی انا کا سودا کر کے نچلا بیٹھنا پڑے گا۔ ہم آہنگی نہیں تو نہ سہی ، سفر ہی تو کاٹنا ہے ۔ آخری منزل پر دھیان ہو تو ساتھی جیسا  بھی ہو سفر کٹ ہی جاتا ہے۔ جہاں تک شریکِ سفرِ حیات کا تعلق ہے یعنی بیوی کا تو اس کی سفارش خود اللہ تعالی نےفرمائی ہے کہ
عَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا 
بیویوں سے بہت اچھی طرح گزر بسر کیا کرو پھر اگر تم انہیں ناپسند کرتے ہو یا نفرت کرتے ہو تو عین ممکن ہے کہ جس شے سے تم نفرت کرو اسی میں اللہ تعالی نے بہت ہی زیادہ بھلائی رکھی ہو۔
اصل میں میاں بیوی کی اپنی اپنی انا، خودپرستی اور ہٹ دھرمی آڑے آجاتی ہے جو انہیں جڑنے نہیں دیتی۔ خاندانوں کے خاندان اور نسلوں کی نسلیں جدائیوں کی  نذر ہو جاتی ہیں۔ 
لَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۤ اَنۡ يُّصۡلِحَا بَيۡنَهُمَا صُلۡحًا‌ ؕ وَالصُّلۡحُ خَيۡرٌ‌ ؕ وَاُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ‌ ؕ وَاِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا  (سورةالنساء۔ آیت 128)
میاں بیوی میں بایم صلح کر لینے میں کوئی مضائقہ  نہیں اور صلح تو ہے ہی بہتر جبکہ اس میں رکاوٹ صرف یہ ہے کہ نفوس کے سامنےلالچ ، ضد، انا اور ہٹ دھرمی آ جاتی ہے ۔ اس کی بجائے اگر تم حسنِ سلوک اور خداخوفی اختیار کر لو تو پھر  اللہ کوبھی تمہارے حسنِ اعمال کےسب خبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
معاملہ صرف اور صرف میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے۔
معاملات وہاں بگڑتے ہیں جہاں میاں بی بی کے درمیان زمانے والے یعنی لڑکی والے یا لڑکے والے آ جاتے ہیں مثلا ان کے ماں باپ اور بھائی بہن۔
میاں بی بی کو باہم گفت و شنید اور میل ملاقات کا موقع ہی کب دیا جاتا ہے۔  
شاید اسی لئے عورت کو پس از طلاق گھر سے بے گھر کرنے کا نہیں بلکہ اسی گھر میں رکھنے کا حکم ہے کہ شاید پہلی اور دوسری طلاق کے بعد دورانِ عدت  میاں بی بی سے بات چیت کرکے  رجوع کر پائے۔ 
 **** ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ 3 طلاق بیک وقت دینے کی اجازت ہے اور نہ دورانِ عدت دوسری یا تیسری طلاق دینے کی ـ جو لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ اپنی اپنی فقہی مُو شگافیوں کی آڑ میں قرآنِ مجید کے واضح احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ان سے حشر میں اللہ تعالی تو پوچھے گا ہی مگر


عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
 زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی 
 مسائلِ طلاق پر کسی اور کا ایک منقول تفصیلی مضمون اسی بلاگ میں اہلِ نظر کی توجہ  
کا طالب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
**********  
برادرِ عزیز 
 رجوع میں کسی اور کا کچھ دوش نہیں۔ ہماری صرف عرض ہے زور نہیں۔ 
رجوع کا مکمل اختیار مرد کو یعنی آپ کو ہے۔ از راہ کرم رجوع فرما لیجیےاور اپنے خاندان کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچا لیجیے۔ 
وَلۡيَـعۡفُوۡا وَلۡيَـصۡفَحُوۡا‌ ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ‌ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ 
چاہیےکہ معاف کر دیں، درگزر کریں کیا آپ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالی بھی آپ کو بخش دے کہ وہ تو ہے ہی غفور و رحیم۔
فتح مکہ کے موقع پر  سب مکہ والے  نظریں جھکائے کھڑے تھے جن نے  آنحضرت ﷺ پر  ظلم و ستم کے  پہاڑ توڑے حتی کہ آپ ﷺ کے قتل کے درپے ہوئے اور آپ ﷺ کو اپنا شہر اور گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا ۔
آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ آج تم مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو ؟
تو سب نے بیک آواز کہا
"اخوالکریم وابن الاخوالکریم"
"آپ ﷺ کریم یعنی شریف بھائی ہیں اور کریم یعنی شریف النفس بھائی ہی کے بیٹے ہیں"
برادرِ عزیز
"آپ بھی شریف بھائی ہیں اور ہمارے انتہائی شریف النفس  اور مہربان چچا کے بیٹے ہیں"۔
نفرت کبھی بھی نفرت سے ختم نہیں ہوتی۔ جیسے آگ پانی سے بجھتی ہے آگ یا پٹرول سے نہیں بعینہ نفرت ہمیشہ محبت سے ختم ہوتی ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے کہ
لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ
برائی کبھی بھی بھلائی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ بھلائی کا مقام اعلی و ارفع ہے
ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ 
اس لئے تمام معاملات میں برائی کا مقابلہ بھلائی کے ایسے بہترین طرزِ عمل سے کرو یعنی کسی کی بدعملی  bad action کا جواب اسی طرح کے ردِعمل reaction سے نہیں بلکہ حسنِ عمل سے دو
فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ 
اگر ایسا کرو گے تو جو آج تمہارا دشمن (مثلا بیوی یا اولاد) ہے وہی تمہارا گرم جوش اور ہمدرد  دوست بن جائے گا
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا 
مگر ایسا شائستہ حسنِ عمل ہر کسی کو نصیب کہاں کہ یہ تو صرف صبر والوں ہی کا خاصہ ہے
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
اور یہ اسی کو شایاں ہے کہ جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔
  وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ
اگر اس معاملے میں  شیطان تمہیں بھڑکائے یا غصہ دلائے
فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ 
تو اس کی بات ماننے کی بجائے اللہ کی پناہ میں آ جانا یعنی اس کے کلام اور تعلیمات ہی کو اختیار کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں سیرت ِ طیبہ کے حوالے سے یہ سب باتیں سوچ کر اور اپنے مہربان چچا کو یاد کر کے بہت رویا۔
برادرِ عزیز
"آپ بھی شریف بھائی ہیں اور ہمارے انتہائی شریف النفس  اور مہربان چچا کے بیٹے ہیں لہذا کرم فرمائیے"۔
 بھائی جان  جیسے جیسے عدت کی مہلت ختم ہونے کو ہے، ہماری بے چینی اور پریشانی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ امید ہے آپ کرم کا، رحم کا ، فیاضی کا، دریا دلی کا، کشادہ ظرفی کا، اعلی حوصلگی کا اور عفو و درگزر کا معاملہ ضرور فرمائیں گے کہ آپ ہمیشہ سراپا محبت رہے ہیں اور ہمارے مہربان چچا کے مہربان بیٹے اور رسولِ آیة رحمة ﷺ کے امتی ہیں۔ اپنے باپ، دادا، تایا اور چچا مرحومین کی شرافت و محبت کے وارث اور ان کی شفقت کے امین ہیں۔ آپ سے محبت اور رحمت ہی متوقع ہے۔ میں آپ سے خود معافی اور درگزر کا طالب ہوں اس نیک بی بی کے لئے کہ جو آپ کے باپ اور میرے مرحوم و مہربان چچا کی بہو ہی نہیں خادمہ بھی رہی ہے۔ اس نے ہمارے نیک سیرت چچا کی جو خدمت کی تھی، ان کی بیماری میں جو تیمار داری کی تھی، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس مہربان ، شفیق اور ہمدرد انسان کے دوا دارو کا اہتمام کیا تھا۔ ہمارے چچا اپنی اس خادمہ کے لئے دل سے کتنی دعائیں کرتے اس دنیا سے  رخصت ہو ئے تھے۔ آج وہ عالمِ برزخ میں اس کے منتظر ہوں گے کہ ان کی اس خادمہ پر مہربانی و نظرِ عنایت ہو۔
روایت ہے کہ حضرت لقمان کسی زمانے میں کسی کے غلام ہوا کرتے تھے۔ مالک ان کی سیرت و کردار کے باعث  ان پر بہت مہربان تھا۔ سب سے پہلی سوغات جو گھر میں آتی لقمان علیہ السلام کو دی جاتی۔ ایک روز ایک پھل آیا۔ مالک نے لقمان کو بلا بھیجا اور پھر پھل چھیل کر اپنے ہاتھوں سے ایک ایک قاش خود لقمان کو کھلانے لگا۔ لقمان بھی مزے لے لے کر پھل کے قاشے کھاتے جا رہے تھے حتی کہ آخری قاش رہ گئی۔ مالک نے کہا کہ لقمان آخر ہم بھی کیوں نہ کھا کر دیکھیں کہ کیسا خوب ذائقہ ہے۔ چنانچہ مالک نے جونہی آخری قاش اپنے منہ میں رکھی تو اس کی کڑواہٹ اور تکلیف سے اس کا منہ پکڑا گیا اور وہ چیخا کہ اُف لقمان تم اتنا بدمزہ اور کڑوا  کسیلا پھل کیسے مزے سے کھاتے رہے۔ لقمان علیہ السلام فرمانے لگے کہ دل میں خیال آیا کہ جس مالک سے آج تک اتنی اچھی اچھی چیزیں لے کر کھائی ہیں، اگر آج وہ کوئی انتہائی کڑوا پھل کھلا رہا ہے تو میں اس پر منہ کیوں بسوروں۔
مانا کہ ہمارے چچا کی اس خادمہ سے آپ کو بہت شکایات ہوں گی مگر ان  کی خدمات کا  صلہ  دیا نہیں جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا 
پھر اگر تم انہیں ناپسند کرتے ہو یا نفرت کرتے ہو تو عین ممکن ہے کہ جس شے سے تم نفرت کرو اسی 
میں اللہ تعالی نے بہت ہی زیادہ بھلائی رکھی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آپا نے ہمارے چچا جان ہی کی نہیں ہماری چچی جان کی بھی بہت خدمت کی تھی اور کچھ نہیں تو آپ کے بیرونِ ملک قیام کے دوران آپ کی عدم موجودگی میں ان کی تنہائیوں کی مونس و رفیق ہماری یہی آپا  تو رہی ہیں۔ صرف چچی جان ہی پر کیا موقوف، آپ کے ہاں آنے والے ہم جیسے بھائیوں کی خاطرمدارات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
اس نیک بی بی کی عمر بھر کی ایذاء نصیبیوں اور تکالیف کا مداوا ہو نہ ہو کم از کم ہمیں اپنی اور اپنے بزرگوں کی اس خادمہ کو اس کی عظیم خدمات اور مساعئ جلیلہ کا صلہ کچھ نہ کچھ تو ضرور دینا چاہیے کہ ہم مہربان بزرگوں کی مہربانیوں کے امین ہیں۔
ایک عرصہ بیت گیا ہے کچھ عرصہ اور بیت جائے گا۔ پھر بہت کچھ جب یاد آئے گا تو آنکھیں بھیگ جائیں گی۔مگر اس وقت تک کرچیاں بکھر چکی ہوں گی اور شیشوں کا کوئی مسیحا بھی نہ ملے گا کہ شیشے کے ان ٹوٹے ہوئے گھروندوں کو پھر سے جوڑ دے۔
اپنے ساتھ آپا کے گزرے ہوۓ اچھے دنوں اور خوشگوار لمحوں کو کبھی اکیلے میں دہرائیے گا تو بہت کچھ یاد آئے گا۔ 
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
رو رو کے گزرتی ہیں راتیں، آنکھوں میں سحر ہو جاتی ہے
دیوار بنی ہے مجبوری وہ پاس بھی رہ کر پاس نہیں
ہم پیاس بجھا لیں آنکھوں کی، اتنی بھی ہمیں تو آس نہیں
برباد بھی کرتی ہے دنیا، مجرم بھی ہمیں ٹھہراتی ہے


آپ اور آپا ایک فیملی یونٹ ہیں، ہر اعتبار سے۔ دین کے حوالے سے بھی اور دنیا کے حوالے سے بھی۔ معاملہ صرف دو افراد کا ہے۔
یقین مانیے میں یہ پورے وثوق سے کہ رہا ہوں۔ انفرادی طور پر ہماری الگ الگ اپنی اپنی مثلا ماں باپ اور اعزہ و اقرباء کی ذمہ داریاں بھلے بہت ہی اہم ہوں مگر وہ اپنی جگہ اور میاں بی بی کا رشتہ اپنی جگہ۔ بچوں کو بھی فی الحال ایک طرف رکھیئے۔ صرف 3 دن کے لئے آپ اور آپا صرف دونوں ناران کاغان ہو آئیں مگر ان 3 دنوں میں آپ دونوں کا دنیا کے کسی بھی فرد سے کچھ رابطہ نہ رہےتو آپ دیکھیں گے کہ تمام منظر کتنے بدل جائیں گے۔ 
نکاح کے وقت میاں بی بی کے قبولیت کے عہد و پیمان کو قرآن میثاقا غلیظا یعنی انتہائی پختہ عہد کا نام دیتا ہے ۔ قبولیت کا مطلب کسی شخص کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سمیت ساری عمر کے لئے قبول کرنا ہے۔ یہی اپنائیت ہے کہ گلاب کو کانٹوں کے ساتھ قبول کیا جائے۔ کانٹے چبھے ہیں تو کیا ہوا کہ گلاب کے رنگ و روپ اور خوشبو سے ہمارے آنگن میں کبھی بہار کے دن بھی تو رہے ہیں نا۔
تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
کانٹوں میں رہ کر تو گلاب اور بھی نکھر جاتا ہے۔ آپ کی ذات میں بھی صبر و تحمل کا حسن پیدا ہو گا۔
 بہاریں پھر سے آ جائیں گی بس ذرا بڑا دل کرکے خطائیں بخش دینے اور مسکرانےکی ضرورت ہے۔
میں یقین رکھتا ہوں
شادمانیوں کے دن
پھر سے لوٹ آئیں گے
ایک پھول کی پتی
اپنے ہونٹ پر رکھ کر
سب کے ہونٹ پر رکھ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بڑے بھائی
فریقِ ثانی پر نہیں اپنے آپ پر قابو پائیے۔ وہ جو جی میں آئے کہے۔ آپ اللہ کے لئے معافی اور درگزر اختیار کر لیں تو اللہ تعالی آپ کی عمر بھر کی خطاؤں کو بخش کر معاف فرما دے گا کہ یہ اس کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ معافی، درگزر، صلح جوئی یکطرفہ طور پر ہی مطلوب ہے:
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ والوں کی، آخرت کے طلب گاروں کی روش دنیا داروں جیسی نہیں ہوتی کہ
قرآن کے مطابق
وَاِذَا مَا غَضِبُوۡا هُمۡ يَغۡفِرُوۡنَ‌ۚ‏ 
جب انہیں غصہ آئے تو وہ معاف کردیا کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس  مہربانی یا معافی کے صلے میں دوسرے سے اجر کے طالب نہیں ہوتے کہ وہ تو صرف اللہ ہی کی رضا چاہتے ہیں اور اسی سے صلہ مانگتے ہیں۔ انہیں محبت کا جواب محبت سے نہ بھی ملے پھر بھی یہ بہشتی لوگ محبتیں اور مہربانیاں بانٹتے چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کی نظر دنیا پر نہیں دنیا پیدا کرنے والے پر ہوتی ہے۔ ان کے قدم دنیا کی طرف نہیں، آخرت کی طرف اٹھتے ہیں۔
قدم سوئے مرقد، نظر سوۓ دنیا ؟؟؟
کہاں جا رہا ہے۔۔۔۔کدھر دیکھتا ہے !!!!!!!
لہذا
عمل ہو ردِ عمل نہ ہو، Action ہو، Reaction نہ ہو کیونکہ
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ وَاَوۡلَادِكُمۡ عَدُوًّا لَّكُمۡ فَاحۡذَرُوۡهُمۡ‌ۚ وَاِنۡ تَعۡفُوۡا وَتَصۡفَحُوۡا وَتَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ (آیت 14سورة التغابن 64 )
اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے لیے دشمن ہیں تو ان سے بچ کے رہو اور اگر تم معاف کرو گے، در گزر کرو گے اور بخشو گے تو اللہ غفور و رحیم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایسا نہ ہوا تو  عمر بھر کے پچھتاوے دونوں ہی کی نہیں ہم سب کی جاں کا روگ بن سکتے ہیں اور ہمارے مہربان مرحومین کی روحیں بھی کچھ خوش نہ ہوں گی۔ اور جب ہم کبھی گزرے دنوں کو یاد کریں گے تو بہت کچھ یاد آئے گا اور آنکھیں اشکبار ہوں گی۔
میرےرحمت لقب رسول ﷺ کے امتی
میرے شفیق و مہربان چچا کے بیٹے
میرے شریف النفس باپ کے بھتیجے
میرے شفیق اور مہربان بھائی
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
آپ کا خیر اندیش
آپ ک چھوٹاا بھائی
ضیاءاللہ

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ