ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نوٹ: مضمون ھذا اپنی ایک عزیزہ بہن کی فرمائش پر ضبطِ تحریر میں لایا ہوں۔۔۔ لہذا اس کے جملہ مندرجات سے خود راقم الحروف کا اتفاق ضروری نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو مشرق بھی اسی خدا کا ہے جس کا مغرب ہے لیکن جس طرح گوئٹے کے دیوانِ مغرب کے مقابلے میں اقبال نے پیامِ مشرق سنایا بعینہ مجھے بھی ایک بات بہت کھٹکتی ہے کہ ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے۔ ہم بحثیت آدمِ خاکی اہلِ مغرب کے ہم جنس ہی سہی مگر مغرب سے مرعوبیت اس قدر ہمارے عمومی مزاج اور رسم و رواج میں سرایت کر چکی ہے کہ ہمارا مشرقی لباس خود ہمارے ہی لئے اجنبی بنتا جا رہا ہے۔۔۔ جسے دیکھو وہی مغربی لباس زیبِ تن کرنے کو اعزاز جانتا ہے:
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقہء دیرینہ چاک
نوجواں اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
لیکن جناب کوا چلا ہنس کی چال ، اپنی چال ہی بھول گیا کہ مصداق ایک لباس ہی پہ کیا موقوف یہاں تو مغرب کی مرعوبیت میں آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے مثلا زبان و بیان میں، اسلوبِ گفتار میں سالگرہ کی جگہ birthday کو کس نے اختیار کیا بلکہ یہ birthday منانے کی رسم نے مشرق کے مسکینوں کو کہاں سے آ لیا یہ سب مغرب کا تہذیبی و ثقافتی اثر نہیں تو آخر ہے کیا ؟ ہمارے ہاں تو تاریخِ وفات یادگار ہوا تھی یہ تاریخِ ولادت کہاں سے در آئی۔۔۔ اسی پر اکتفاء کیا۔۔۔۔ افکار و نظریات بھی مغرب سے مستعار لئے گئے جبکہ اقبال نے باور کروا دیا تھا کہ
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی
یہ بات کوئی آج کی نہیں مغرب سے مرعوبیت اقبال کے دور سے روز افزوں زوروں پر ہے جسے دیکھ کر ہی اقبال نے کہا تھا
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ایرانیِ
لہُو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
ہمارے دل بچوں کی طرح مغرب کی ہر شے پر مچلتے ہیں جس نے ہمیں گھر کے دسترخوان سے اٹھا کر پہلے میز کرسی پر لا بٹھایا اور پھر ہمیں گھر سے نکال کر ہوٹلنگ سکھا دی جس پر اکبرالہ آبادی بول اٹھے
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں ، مرے ہسپتال جا کر
طبِ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری کہ کر اقبال نے خبردار کیا تھا کہ ہمارے دل مغرب کی ہر شے پر جو یوں مچل رہیں ہیں مبادا اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ ہم مغرب کے دامِ ہوس کے اسیر ہو جائیں:
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش
مغرب کے مرعوبین، یہ مشرق کے مسکین ، گلوبل ولیج کے کمی کمین از سرِ نو اپنی خودی کو بلند کرکے چرخِ نیلی فام سے پرے جا سکتے تھے مگر کیا کیجیئے
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
اسی کو لیجیئے کہ حدیث شریف کے مطابق بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب بحالتِ سجدہ ہوتا ہے ۔۔ سجدے میں اسی قربت کا ثبوت قرآنِ مجید خود یوں دیتا کہ وَاسۡجُدۡ وَاقۡتَرِبْ سجدہ کر اور قریب ہو جا مگر
وہ سجدہ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
اور اس کی وجہ بھی مغرب ہے کیونکہ
مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
یہی نہیں سماجی و ثقافتی اقدار کے انحطاط کی ایک وجہ مغرب کی ناپاک تہذیب بھی ہے جس نے مشرق کو بھی آلودہ کر دیا ہے
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ رُوح اس مَدنِیّت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ رُوح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
آج مغرب اپنی مصنوعات سمیت ہمارے قلب و نظر پر یلغار کر رہا ہے۔۔۔ جسے دیکھو وہی سیل فون کی سکرین سے چمٹا بیٹھا ہے۔۔ اس خرابئ بسیار میں اقبال کے اشعار یوں راہنمائی کرتے ہیں کہ
اللہ کو پامردئ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
مگر کیا کیا جائے ان اداروں کا جن کے لئے مغرب ہی سب کچھ ہے۔مغربی لباس سے مغربی تہذیب و تصورات تک سب ہی کچھ تو مستعار لے لیا ہے مثلا
یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سُرور و رعنائی
انھی کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد
ایسے ہی افرنگ زدہ جوانوں سے مخاطب ہو کر اقبال نے جو کہا ہے اسی پر میں اپنی بات کو انجام تک پہنچاتا ہوں کہ
ترا وجود سراپا تجلّئ افرنگ
کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو، زرنگار و بے شمشیر
Comments
Post a Comment