الفتنة اشد من القتل کی تفسیر


الفتنة اشد من القتل کی تفسیر
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 قرآن ِ مجید کا سطحی مطالعہ اور سرسری ورق گردانی طفلِ مکتب کو سیاق و سباق سے ہٹا کر بہت دور لے جاتی ہے اور وہ آیاتِ الہی کا غلط مطلب اخذ کر بیٹھتا ہے۔ مثلا وہ عربی زبان کے لفظ فتنہ کو اردو زبان میں مستعمل فتنہ شمار کرتا ہے۔ حالانکہ عربی زبان میں فتنہ کا بنیادی مفہوم آزمائش ہے جبکہ اردو میں اس کا استعمال شرانگیزی کے معنوں میں ہے جیسا کہ غالب کہتا ہے:
تیرے سرو قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
عربئ مبین جانے بغیر محض اردو یا انگریزی یا کسی اور زبان  میں ترجموں پر اکتفاء کر کے دعوئ ہمہ دانی رکھنے والے قرآنی اصطلاحات کے تعمق سے عموما نآشنا رہتے ہیں اور کسی ایک آیت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اسی کے لتے لیتے رہتے ہیں۔
مثلا فتنے کا ترجمہ اہنے ذہن سے شرانگیزی سوچ کر جب اس کے آگے لکھا دیکھتے ہیں اشد من القتل تو مفہوم یہ اخذ کرتے ہیں کہ شرپسندی قتل سے بھی بُری ہے۔ ایسے بزرجمہروں کے لئے عرض ہے کہ قرآن عربی زبان کی لغات اور قواعد مرتب ہونے سے بھی بہت پہلے کی کتاب ہے لہذا اپنی تشریح و توضیح کے لئے اپنے مابعد کےلغات و قواعد کی محتاج نہیں۔ اس کی بہترین تفسیر باجماعِ امت وہی ہے کہ جو خود قرآن ہی سے اخذ کی جائے۔
مثلا از روئے قرآن فتنے کا بنیادی مطلب آزمائش ہے۔ جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے:
 يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ لَا يَفۡتِنَـنَّكُمُ الشَّيۡطٰنُ كَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَيۡكُمۡ مِّنَ الۡجَـنَّةِ يَنۡزِعُ عَنۡهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوۡءاٰتِهِمَا (اے بنی آدم دھیان رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں بھی فتننے یعنی آزائش میں مبتلا نہ کر دے جیسا کہ اس نے تمیارے بڑوں کو جنت سے نکلوایا تھا بایں طور کہ ان کا لباس اتروا کر ان کی شرمگاہیں انہیں دکھاتا تھا) (7:27)
 وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً‌(اور ہم تمہیں آزماتے ہیں کبھی خیر کے اور کبھی شر کے فتنے یعنی آزمائش سے) (21:35)
۔وَلَقَدۡ فَتَـنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ (فتنہ یعنی آزمائش تو ہم نے ان سے پہلوں کی بھی کی تھی ) فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ (تاکہ اللہ انہیں جانچ پرکھ لے کہ کن نے صدق اختیار کیا اور کون جھوٹے نکلے) (3:29)
۔ اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ (تمہارے مال و اولاد تمہارے لئے فتنہ یعنی آزمائش ہیں) (64:15)
۔اِنَّ الَّذِيۡنَ فَتَـنُوا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ لَمۡ يَتُوۡبُوۡا فَلَهُمۡ عَذَابُ جَهَنَّمَ (جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں کو فتنے میں ڈالا یعنی آزمایا یا تختہء مشقِ بنایا اور باز نہ آئے تو ان کے لئے عذابِ جہنم ہے) (85:10)
ـ اَحَسِبَ النَّاسُ ( کیا لوگ یہ سمجھے بیٹھے ہیں) اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا (کہ انہیں محض یہ کہنے پر یونہی چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ ایمان لائے ہیں )  وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ ( اور ان کو فتنہ یعنی آزمائش میں نہیں  ڈالا جائے گا) ۞وَلَقَدۡ فَتَـنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ (جبکہ فتنہ یعنی آزمائش تو ان سے پہلوں کی بھی ہوئی) فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ  (پس اسی طرح اللہ نے جانچ پرکھ کر واضح کیا کہ کون سچے ہیں اور کون جھوٹے) (3-29:2)
-------------------------
ان آیات سے واضح ہوا کہ فتنہ اصلا آزمائش کو کہتے ہیں جس کا اصل ھدف سچوں اور جھوٹوں کو الگ الگ کر کے واضح کر دینا ہوتا ہے۔ دیگر مقامات پر متعدد آیات سے اس کی مزید تشریح ہوتی ہے کہ کبھی یہ فتن یا آزمانا گھروں سے نکالے جانے کی صورت میں ہوتا ہے، کبھی دین سے برگشتہ کرنے کی صورت میں، کبھی توجہ کسی اور طرف مبذول کرکے راہِ خدا سے ہٹانے کی شکل میں ، کبھی خوشحالی دے کر اور کبھی بدحالی دے کر۔ کبھی یوں ستانا  یا پریشان کرنا کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔۔۔ کچھ بھی ہو اصل مفہوم آزمائش کسی نہ کسی صورت میں ہر جگہ مضمر ہوتا ہی ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مزید بر آں کہ جب کسی لفظ کے شروع میں الف لام یعنی "ال" منسلک ہو جائے تو وہ اس کی جملہ انواع کو بھی محیط ہوتا ہے اور سیاق و سباق میں جو موضوع زیرِ بحث ہو اس سے بھی متعلق ہوتا ہے۔ درایں صورت یہ "ال" انگریزی کے "The" کا مفہوم دیتا ہے۔ مثلا 
It was stolen from my libray. The book belongs to me.
یہ میرے کتب خانہ سے چرائی گئی ہے۔ یہی کتاب تو میری ہے۔
یہاں باعتبارِ سیاق و سباق کتاب سے مراد وہ خاص کتاب ہے جس کا تذکرہ اس سے قبل ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ “ال" لگے گا اور ہم اسے کتاب نہیں بلکہ "الکتاب" The book کہیں گے۔ اسی طرح جب فتنة کے ساتھ "ال" لگ جائے گا تو اس سے مراد وہ خاص فتنہ یا آزمائش ہے جس کا تذکرہ  دیگر آیات میں اس سے پہلے یا بعد میں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ ترجمے پڑھ کر فتنے کے مطلب شرپسندی پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں اور اس کی آڑ میں اس کو قتل سے بُرا ٹھہرا کر ہر جراتِ تحقیق کو لائقِ گردن زنی ٹھہراتے ہیں ان کے لئے عرض ہے کہ وہ انہی آیات کو فتنہ کے بنیادی مفہوم اور سیاق و سباق سے ملاحظہ کریں جیسا کہ ہم نے ذیل میں واضح کیا ہے کہ ان تمام آیات میں وہ کون سا فتنہ یا  آزمانا یا امتحان میں ڈالنا  یا مشقِ ستم بنانا ہے جو قتل سے بھی بدتر ہے۔۔۔ ملاحظہ فرمائیے اور ان کج فہموں کی عقلِ نارسا کا ماتم کیجیے جو ترجمے پڑھ کر فتنے کا مفہوم شرانگیزی لیتے ہیں اور اس کی آڑ میں تحقیقات یا آزادئ اظہار پر پابندی لگا کر یا دستورِ زباں بندی کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَقَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (اور لڑو اللہ کی راہ میں ) الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ (صرف انہی سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں) وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ (لیکن اس جنگ میں بھی زیادتی نہ کرو) اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ (کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والواں کو پسند نہیں کرتا) ۞ وَاقۡتُلُوۡهُمۡ  ( ان کو قتل کر دو ) حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ (جہاں بھی ان لڑنے والوں کو پاؤ)  وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ  (اور ان کو نکال باہر کرو ) مِّنۡ حَيۡثُ اَخۡرَجُوۡكُمۡ‌ (جہاں سے ان نے تم کو نکال دیا تھا) وَالۡفِتۡنَةُ ( کہ یہی نکالنا اور پھر جنگ آزمائی کرنا وہ فتنہ ہے)  اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِۚ (جو قتل سے بھی بڑھ کر ہے )  وَلَا تُقٰتِلُوۡهُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ (پھر بھی مسجدِ حرام کے نزدیک ان سے جنگ نہ کرو) حَتّٰى يُقٰتِلُوۡكُمۡ فِيۡهِ‌ۚ (جب تک کہ وہ خود تم سے یہاں جنگ نہ چھیڑیں) فَاِنۡ قٰتَلُوۡكُمۡ (پھر بھی اگر وہ تم سے خود لڑائی کریں) فَاقۡتُلُوۡهُمۡؕ  (پھر انہیں قتل کرو ) كَذٰلِكَ جَزَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ (کہ نہ ماننے والوں کی یہی سزا ہے)  ۞ فَاِنِ انۡـتَهَوۡا ( بایں ہمہ اگر وہ باز آ جائیں)  فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ (تو پھر اللہ بھی مغفرت کرنے والا مہربان ہے) ۞وَقٰتِلُوۡهُمۡ (اور ان سے لڑائی تادیر کرو)  حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ ( جب تک جنگ آزمائی اور گھروں سے زبردستی اخراج کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے )  وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ لِلّٰهِ‌ؕ (اور نظامِ الہی نافذ نہ ہو جائے) فَاِنِ انتَهَوۡا (اگر وہ باز آ جائیں ) فَلَا عُدۡوَانَ (تو پھر ان پر زیادتی نہیں ) اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيۡنَ (ماسوائے ان ظالموں کے جو باز نہیں آتے)
( البقرة 190 تا 193)
يَسۡــئَلُوۡنَكَ عَنِ الشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ قِتَالٍ فِيۡهِ‌ؕ ( آپ سے یہ لوگ حرمت والے مہینوں میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں ) قُلۡ قِتَالٌ فِيۡهِ كَبِيۡرٌ ‌ؕ(ان سے فرما دیجیئے کہ ہر چند ان مہینوں میں لڑائی بڑی ہی بُری بات ہے مگر )  وَصَدٌّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ( راہِ خدا سے روکنا)  وَ کُفۡرٌ ۢ بِهٖ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ (اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام سے روکنا ) وَاِخۡرَاجُ اَهۡلِهٖ مِنۡهُ ( اوراصل  اہلِ حرم ہی کو حرم سے نکالنا) اَكۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰهِ (اللہ کے نزدیک حرمت والے مہینوں میں لڑائی سے کہیں زیادہ بُرا ہے) ‌‌ۚ وَالۡفِتۡنَةُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ‌ؕ  (اور یوں آزمانا لڑائی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ) وَلَا يَزَالُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ  ( یہ لڑائی سے باز نہیں آنے کے ) حَتّٰى يَرُدُّوۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ( یہاں تک کہ حسبِ استطاعت تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں)  ‌ؕ وَمَنۡ يَّرۡتَدِدۡ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ (اور تم میں سے جو کوئی بھی اپنے دین سے پھرا)  فَيَمُتۡ  (اور بایں حال مر گیا ) وَهُوَ کَافِرٌ ( اور وہ یونہی کافر ٹھہرا) فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ‌‌(یہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال دنیا و آخرت میں ضائع ہو گئے)   وَاُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ(یہی لوگ ہیں کہ جو جہنم والے ہیں)  هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ (وہ اس میں تا ابد رہیں گے) (البقرة 217).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان  تمام آیات پر بحثیتِ مجموعی بحوالہ ء سیاق و سباق غور فرمائیے  اور پھر انہی آیات میں
وَالۡفِتۡنَةُ ( کہ یہی نکالنا اور پھر جنگ آزمائی کرنا وہ فتنہ ہے)  اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِۚ (جو قتل سے بھی بڑھ کر ہے )
وَقٰتِلُوۡهُمۡ (اور ان سے لڑائی تادیر کرو)  حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ ( جب تک جنگ آزمائی اور گھروں سے زبردستی اخراج کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان  تمام آیات پر بحثیتِ مجموعی بحوالہ ء سیاق و سباق غور فرمائیے  اور پھر انہی آیات میں یہ دیکھیئے کہ
1- وَالۡفِتۡنَةُ ( کہ یہی نکالنا اور پھر جنگ آزمائی کرنا وہ فتنہ ہے)  اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِۚ (جو قتل  یعنی لڑائی سے بھی بڑھ کر ہے )
2- وَالۡفِتۡنَةُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ‌ؕ  (اور یوں آزمانا  قتل یعنی لڑائی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے )
3- وَقٰتِلُوۡهُمۡ (اور ان سے لڑائی تادیر کرو)  حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ ( جب تک جنگ آزمائی اور گھروں سے زبردستی اخراج کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے )
...............................................
آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ محض  فتنہ یا آزمائش نہیں بلکہ  الفتنہ (جس فتنے یا آزمانے ) کو محض قتل کئے جانے نہیں بلکہ القتل (یعنی اس خاص مارے جانے یا اس خاص لڑائی ) سے بھی بدتر قرار دیا جا رہا ہے اس سے مراد  وہ خاص فتنہ یا وہ خاص طور پر آزمانا یا تنگ کرنا ہے اور اس خاص لڑائی میں قتل یعنی مرنا مارنا ہے جس کا ان آیات میں بطورِ خاص ذکر کیا جا رہا ہے یعنی یہاں اس فتنے سے مراد ہے
1۔ مکہ کے یا حدودِ حرم کے علاقے سے یہاں آباد مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر بے گھر کرنا اور انہیں ہجرت پر مجبور کرکے آزمانا۔
2-۔ جنگ میں پہل کرنا اور جنگ نہ روکنا بالخصوص حرمت والے مہینوں کا لحاظ بھی نہ رکھنا اور ان ممنوع ایام میں جنگ کر کے لوگوں کو آزمانا۔
3۔ حرم میں آمد سے لوگوں کو روکنا  اور انہیں جنگ و جدل میں ڈال کر آزمانا
4۔ دینِ برحق سے لوگوں کو روکنا
5-۔ نظامِ الہی کے نفاذ میں روڑے اٹکانا۔
ان تمام باتوں کو فتنہ قرار دے کر اس فتنے یا آزمائش کو حرمت والے مہینوں میں قتل و غارت سے بھی بدترین قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے واضح کر دیا کہ یہ عربی کا فتنہ (جنگ آزمائی و مشقِ ستم ) تو ہےمگر اردو کا  فتنہ (شرپسندی و شرانگیزی ) نہیں اور یہ محض فتنہ یا Test  نہیں بلکہ الفتنہ The Test ہے جس سے مراد وہ سب کچھ ہے جس کا ذکر ان آیات میں موجود ہے اور یہی الفتنہ The Test ہے  جو  اپنی سنگینئی نوعیت کے اعتبار سے محض کسی عام قتل  murder سے نہیں بلکہ اس القتل The bloodshed  سے بھی بڑھ کر سنگین ہے جو حرمت والے مہینوں میں کیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب



Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ