ابلیس: اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر
ایک سوال کے جواب میں کہ ابلیس کو کس نے گمراہ کیا تھاـ جب کہ اس سے قبل وجودِ شیطان ہی نہ تھا۔
جواب از ڈاکٹر ضیاء اللہ ضیاءؔ:
اللہ تعالی نے اپنی جملہ معلوم مخلوقات میں سے 3 مخلوقات ہی کو دولتِ عقل و خرد عطا کی ہے۔ ملائکہ اور جن و انس۔ مگر بایں امتیاز کہ ملائکہ کو اختیار نہیں دیا گیا وہ محض امر ہی کے تابع ہیں۔ یفعلون ما یومرون یعنی وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں امر کیا جاتا ہے مگر جن و انس کو آزادی دی گئی ہے اما شاکرا و اما کفورا کہ چاہے وہ شکرگزاری یعنی فرمانبراری کریں یا کفر یعنی نافرمانی اختیار کر لیں مگر لا یرضیٰ بعبادہ الکفر اللہ تعالی اپنے بندوں کی جانب سے نافرمانی پر راضی نہیں یعنی بندے جو نافرمانی کرتے ہیں اس میں خدا کی مرضی نہیں ہوتی وہ صرف اس مشیتِ الہی (قانونِ قدرت) کے تحت کفر کرتے ہیں جس کے تحت انہیں آزادئ فکر و عمل دی گئ ہے۔ شطن کا اصل مطلب رسی کا اس طرح بٹا ہو ہونا ہے کہ اس میں بل در بل کشمکش اور پیچ و تاب یعنی سرکشی آ جائے اسی سے شیطان ہے۔ عربی میں اسی مناسبت سے شیطان سانپ کو بھی کہتے ہیں۔ شیطان کوئی بھی من الجنة والناس ہو سکتا ہے یعنی جن و انس میں سے کوئی بھی جو اپنے اختیار یا ارادے کو رضائے الہی کے برعکس محض اپنی خواہش کے تحت استعمال کرے جیسا کہ ابلیس جو کہ ایک جن تھا ففسق عن امرِ ربی پس وہ اپنے پروردگار کے امر سے روگرداں ہوا و کان من الکافرین اور یوں نافرمانوں میں سے ہو گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ابیٰ کہ پہلے اس نے حکم عدولی کی واستکبر اور تکبر کیا کہ خلقتہ من طین اسے تو نے مٹی سے بنایا مگر خلقتنی من النار مجھے آگ سے بنایا لہذا میں اس کو سجدہ نہیں کروں گا اور جو تکریم تو نے اسے خلافتِ ارضی اور علم الاسماء کی جہاں گیری کی بخشی ہے میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا لہذا میں وسوسہ انگیزی سے اور میلانِ خواہشات سے اسے تیری راہ سے بھٹکاتا رہوںگا۔۔۔۔۔۔ یہ جملہ تفصیلات بقولِ علامہ اقبال (تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ میں) اور بقول علامہ مشرقی (تذکرہ) میں باندازِ تمثیل ہیں جن کی حقیقت یہ ہے کہ جب بنی نوعِ انسان اپنے ارتقائی سفر میں ایک جانور نما حالت سے پس از تسویہ انسانی پیکر میں ڈھلے اور ان نے جذبات کی بجائے عقل سےکام لینا شروع کیا، دستِ غیب سے زبان و بیان پایا تو درایں حالات جہاں قوائے فطری (ملائکہ) کو ان سے بسروچشم تعاون کا حکم ملا اور ان نے اوزار سازی سے لے کر آگ جلانے تک میں انسان سے اپنی ولائیت کا ثبوت اس وعدے کے تحت دیا کہ نحن اولیاءکم فی الحیاة الدنیا کہ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے معاون رہیں گے وہیں جنات کے ایک فرد( اور اس کے زیرِاثر جماعتِ جنات) نے جو انسانی جسم میں برقی رو کی طرح خون کی صورت دوڑ رہے تھے ان نے مزاحمت کی کہ کہیں عروجِ آدمِ خاکی کائناتِ ہست و بود کی طنابیں کھینچ کر اس زمین و آسمانِ مستعار کو پھونک کر اپنے علمِ خدادا کی بدولت اس کی خاکستر سے آپ اپنا جہان پیدا نہ کر دے۔ یعنی انسان کے جسمانی ارتقاء کے مکمل ہو جانے کے بعد اب اس کی شخصیت سازی اور نفسیاتی ارتقاء کی تکمیل کے لئے جس مزاحمت کی ضرورتھی وہ ابلیس نے شیطان بن کر پوری کردی کہ انسان کا نفس امارة بسوء ہو یعنی اسے برائی کی ترغیب و تحریص دے تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کرکے نفسِ لوامہ پا لے جو اس کے باطنی وجود میں پیہم سرزنش و تنبیہات کا عمل جاری رکھے یہاں تک کہ وہ مقام آ جائے جہاں وہ نفسِ مطمئنہ پا کر نہ صرف بندگانِ خدا میں جا داخل ہو بلکہ خدا کی جنت میں داخلے کا سزاوار ٹھہرے۔
Comments
Post a Comment