پاک دل و پاکباز ﷺ
پاک دل و پاکباز ﷺ
ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا کیجیئے اس ذخیرہءروایات کا جو اول تو کسی تحریری ذریعہ سے مرتب ہی نہیں ہوا بلکہ سینہ بہ سینہ متعدد واسطوں سے یوں منتقل ہوا کہ اصل بات کچھ سے کچھ ہوتی چلی گئی اور ثانیا یہ کہ یہ واسطے بھی کم از کم 3 یا 3 سے زائد ہیں۔ 3 واسطوں کی احادیث محض 5 ہیں باقی تمام احادیث 3 سے زائد واسطوں زیادہ تر 5 واسطوں یعنی تقریبا 5 نسلوں کے بعد کچھ سے کچھ ہوتی ہوئی جب مرتبین مثلا بخاری و مسلم تک پہنچیں تو کیا اپنی اصل حالت یا اصل شکل میں تھیں ؟ کچھ اس لئے بھی بالتیقن نہیں کہا جا سکتا کہ محدثین کا اتفاق ہے کہ ایک حدیث بھی نبئ محترم ﷺ کا اصل قول نہیں بلکہ قولِ راوی ہے اور وہ بھی کئی واسطوں سے یعنی عن فلاں اور عن فلاں سے منتقل ہوا ۔ اس پر طرہ یہ کہ محدثین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ یہ قولِ راوی بھی روایت بالمعنی ہے یعنی راوی کا بھی دعوی یہ نہیں کہ یہ قول وفعلِ رسول ﷺ ہے بلکہ روای نے جو کچھ آپ ﷺ سے سنا یہ آپﷺ کو دیکھا اس نے اسے اپنے الفاظ اور اپنی فہم و فراست کا رنگ دے دیا۔ جس طرح قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود ذاتِ باری نے لیا ہے بعینہ حدیث کی حفاظت کے بارے میں قرآن میں ایک بھی نصِ قطعی نہیں جو بخاری و مسلم وغیرھم کی مزعومہ مشروعیت کو منصوص من اللہ ٹھہرا سکے۔
اب ایک طرف قرآنِ مجید ہے جو نبئ محترم ﷺ کی پاکیزہ سیرت کا آئینہ دار ہے تو دوسری طرف ان روایات کا انبار ہے جن میں سے بعض روایات کا چہرہ داغدار ہے اور صاف معلوم دیتا ہے کہ یہ سازشِ اغیار ہے۔
اس کی ایک مثال لیجیئے کہ بعض روایات میں نبئ محترم ﷺ کی ازداوجی زندگی کے بارے میں بعض ایسی باتیں آئی ہیں جو قرآن کے علی الرغم نبئ محترم ﷺ کی سیرت و کردار کا ایسا نقشہ کھینچتی ہیں جن سے مستشرقین و معاندین کو محلِ نقد و نظر اور جوازِ طعن و تشنیع مل جاتا ہے۔ ہم اس کی وضاحت میں نہیں جاتے بس اسی اجمال کو تفصیل سمجھ لیجئیے اور زیرِ نظر سطور میں نبئ محترم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کی پاکیزہ تجلیات سے فیضیابی پائیے۔
عمرِ مبارک 25 برس ہو چکی ہے۔ قریش کے جس جوانِ رعنا کی صداقت و امانت کی گواہی ہر کس و ناکس دے رہا ہے۔ جس کی پاکیزہ اطواری مکہ کی گلیوں میں ضرب المثل بن چکی ہے۔ جس کی دلنشیں شخصیت پر اپنے بیگانے جان چھڑکتے ہیں۔ اس عالی نسب و پاکیزہ کسب سے شرفِ نسبتِ دامادی پانے کا آرزومند کون نہ تھا ۔جوانی کے اتنے برس بیت چکے تھے مگر یوں لگتا ہے محمد ﷺ کی نگاہِ انتخاب کسی طاہرہ کی تلاش کر رہی تھی جو خدیجة الکبریؓ کی صورت میں آپ کی زوجیت میں آئیں۔ جن نے سفر و حضر میں آپ ﷺ کی نیک اطواری کا جائزہ لیا تو کائناتِ ہست و بود میں آپ ﷺ ہی انہیں یگانہء روزگار اور قدرت کا وہ حسین شاہکار نظر آئے کہ جن کی قدم بوسی کو آپ جیسی پاکباز خاتون نے اپنی منزل بنا لیا۔ حالانکہ آپ بیوہ تھیں مگر محمد ﷺ نے مکہ کی کنواری دوشیزاؤں پر آپ ہی کو ترجیح دی کہ آپ ہی مکہ کی دوشیزاؤں کے مقابلے میںنبئ محترم ﷺ کی اہلیہ بننے کی اصل اہل تھیں۔ آپ کی عمرِ مبارکہ 28 برس تھی جب آپ دامانِ مصطفیٰ ﷺ میں آئیں ( یاد رہے کہ یہ جو درسی کتب میں سیدہ خدیجة الکبری ؓ کی عمر 40 برس لکھی ہے اسے متعدد محققین اپنی تحقیقات سے باطل ٹھہرا چکے ہیں)ـ یعنی آپ نبئ محترم ﷺ سے عمر میں 3 برس بڑی تھیں۔ پھر ازدواجی زندگی کی جب تقریبا 28 بہاریں گزر گئیں اور نبئ محترم ﷺ تقریبا 52 سال کو پہنچے تو سیدہ طاہرہ کا انتقال ہو گیا۔
آپ اندازہ کیجیئے کہ ادھر نبوت و رسالت کا بارِ گراں، مکہ والے خون کے پیاسے اور ادھر بال بچوں اور گھر بار کی ذمہ داری۔ ایسے میں بچوں کے لئے کھانا پکا رہے تھے کہ ہمساہوں نے کھانے میں اونٹ کی بدبودار اوجھڑی پھینک دی مگر آفرین ہے اس مجسمہءحسنِ خلقِ عظیم پر کہ صبر سے کام لیا۔ درایں حالات ضرورت تھی کسی خاتونِ خانہ کی مگر سیدہ طاہرہ مرحومہ کا نعم البدل ہوتا بھی تو کون کہ جن کی یاد میں نگاہِ مصطفیٰ تادمِ آخر ہمیشہ آبدیدہ رہی۔
ایسے میں ایک صحابیہؓ نے ہمدردانہ مشورہ دیا کہ آنجناب ﷺ خانہ آبادی فرما لیں۔ اس خاتون نے بتایا کہ ایک بیوہ و ضعیف العمر بی بی ہیں سودہؓ اور دوسری کنواری سیدہ عائشہ ؓ جن کی عمر اس وقت 17 سال ہونے کو تھی مگر صدیقِ اکبر ؓ کے گھر میں بچپن سے دینی تعلیم و تربیت پا کر خانہء نبوت کا وہ چراغ بننے کی اہل ہو چکی تھیں جن کے طفیل نبئ محترم ﷺ کے 40 سال بعد تک بھی نورِ رشد و ہدایت امتِ مرحومہ کو ملتا رہا۔ درونِ خانہ حالات اس قدر پریشان کن تھے کہ نبئ محترم ﷺ نے اس خاتون سے کہا کہ دونوں جگہ پیغام دے کر دیکھ لو کہ کس کی قسمت میں خانہء نبوت کا تقدس آتا ہے۔
سیدہ سودہ ؓ کی طرف سے دیر نہ ہوئی ۔ مثبت جواب آنے پر یہ ضعیف العمر خاتون نبئ محترم ﷺ کی دوسری زوجہ اور مومنین کی ماں ٹھہریں اور خانہء نبوی ﷺ پھر سے آباد ہوا۔
ادھر پیغام سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ہاں بھی پہنچ چکا تھا ـ آپ کی عمر کے 6 برس ہونے کا افسانہ بھی یکے از اوہامِ راوی تھا جسے متعدد محققین نے باطل ٹھہرا کر عمرِ مبارکہ 17 برس ٹھہرائی ہے اور بعض محققین نے 27 برس قرار دی ہے۔ آپ کے ہاں جب پیغام پہنچا تو قبل ازیں آپ کی نسبت ایک ایسے خاندان میں ٹھہر چکی تھی جو تادیر مشرف بہ اسلام نہ ہوا تھا۔ جب خانہءنبوی ﷺ سے پیغامِ نکاح آیا تو آپ کے والدین نے بتایا کہ عائشہ کی نسبت تو طے ہے۔ صدیقِ اکبر ؓ اور ان کی زوجہ بیٹی کے ہونے والے سسرال یعنی اس مشرک خاندان والوں کے پاس گئے کہ نکاح و رخصتی کا کیا ارادہ ہے مگر ان نے صاف جواب دے دیا کہ تم بے دین لوگ ہو اور تمہاری لڑکی ہمارے لڑکے کو بھی بے دین کر دے گی۔ چنانچہ یہ کہتے ہوئے ان نے نسبت توڑ دی۔ نسبت ٹوٹنے کا صدمہ گہرا تھا کہ اسے زمانہء حال کی طرح اس دور میں بھی معیوب شمار کیا جاتا تھا۔ بہرحال چونکہ ادھر دبارِ رسالت ﷺ سے بلاوا آ چکا تھا اور دوسری طرف سے نسبت بھی توٹ چکی تھی لہذا صدیقہء کائنات کا نکاح بھی حضور ہادئ کائنات ﷺ سے ہو گیا مگر درایں اثناء معرضِ ہجرت درپیش تھا چنانچہ رخصتی میں دو برس کی تاخیر ہو گئی اور 19 برس کی عمرِ مبارک میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ زینتِ کاشانہء نبوی ﷺ ہوئیں اور یوں تمام مومنین کی تیسری ماں ہونے کا شرف پایا:
یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا
ان دونوں شادیوں کے بعد بوجوہِ ناگزیر و متعددہ یکے بعد دیگرے نبئ محترم ﷺ کو کئی اور نکاح بھی فرمانے پڑے مگر ایک سیدہ عائشہ ؓ کے سوا نبئ محترم ﷺ کی تمام ازواج بیوائیں تھیں۔ یہ آپ ﷺ کی پاکیزہ سیرت ہی تھی جس نے بیواؤں کی دستگیری کی اور ان کے یتیم بچوں کو کاشانہء نبوت ﷺ نے سہارا دیا۔
آپ ہی بتائیے کہ کیا کائناتِ ہست و بود نے پاکیزہ ازدواجی زندگی کی ایسی ارفع و اعلی مثال کبھی آپ ﷺ سے پہلے بھی دیکھی تھی۔۔۔۔ نہیں، نہیں ہر گز نہیں۔۔۔ آپ ﷺ نہ عہدِ شباب میں شہوت پسند تھے نہ اپنے پاکیزہ عالمِ پیری میں۔
وہ ہستی جو زندہ رہے تو رنج و آلام، محنت و مشقت اور جنگوں کی پے بہ پے مصیبتوں کے لئے اور جیئے تو ہمہ وقت اعلائے کلمة اللہ کی بھاری ذمہ داری کے لئے اس ہستی سے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ بعید ہے کہ اس کی توجہ معاذ اللہ کسی شہوت رانی پر مبذول ہو۔
روایات کو چھوڑیئے ذرا قرآن اٹھائیے اور دیکھئیے کہ قرآن مکہ کی مشکلات میں آپ ﷺ کی راتوں پر سورة مزمل میں تہجد کا بار اس لئے ڈال رہا ہے کہ سنلقی علیک قول ثقیلا (جلد ہی ایک بھاری بات ہم آپ پر ڈالنے والے ہیں) ـ ذرا دیر کو نبی ﷺ چادر میں لپٹے تو آسمانوں سے ندا آئے کہ یاایھا المدثر (اے چادر پوش ) قم فانذر (اٹھ اور انذار کر) اور جس کے بارے میں کتابِ الہی شہادت دے کہ ان لک فی النہار سبحا طویلا (رات کو تہجد پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ دن مشقت سے خالی ہے آپ ﷺ کے لئے تو دن بھر کی طویل تھکا دینے والی بھاگ دوڑ بھی ہے )۔
اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس ہستی کو 8 سال میں 88 جنگیں لڑنی ہوں، خندق کھودنی ہو، حکمرانوں کو خط لکھنے ہوں، قبائل سے معاہدات کرنے ہوں، پیٹ پر پتھر باندھنے ہوں، کئی کئی دن فاقہ کشی کرنی ہو اسے کیا شہوت رانیوں کے لئے ہماری طرح فراغت و فرصت میسر ہو گی ۔ سیدہ ء کائنات ؓ سے سوال ہو کہ اماں جان کیا چراغ میں ڈالنے کو تیل بھی نہ تھا فرمایا کہ بیٹا ہم اس قدر بھوک میں مبتلا ہوتے کہ اگر تیل ہوتا تو ہم اس کو چراغ میں نہ ڈالتے بلکہ پی جاتے۔
کہاں وہ ہستیاں کہاں ہم جیسے شہوت پرست جو ان عظیم ہستیوں کی سیرت پرغور نہیں کرتے اور ان کوبھی اپنے جیسا سمجھ بیٹھتے ہیں۔
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ
Comments
Post a Comment