یزید کیا قاتلِ امام تھا ؟
یزید کیا قاتلِ امام تھا ؟
یزید کے بارے میں ایک سوال؟؟؟
از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
کیا آپ راہنمائی فرما سکتے ہیں کہ کس صحیح کتابِ سنت و روایات و آثار (مثلا بخاری و مسلم یا مؤطا امام مالک وغیرہ) کی کس مستند و مصدقہ روایت یا اثر کے مطابق یہ فعلِ شنیع و مذموم یزید یا اس کی فوج نے کیا تھا ؟؟؟؟؟
کیونکہ میری ناقص معلومات کے مطابق یزیدی لشکر کا سپہ سالار عمر ابن سعد تھا جو صحابئ رسول ﷺ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کا صاحب زادہ تھا۔ دوسری طرف یزید بھی خود صحابئ رسول ﷺ اور کاتبِ وحی سیدنا امیر معاویہؓ کا فرزند تھا۔ کیا صحابہؓ نے اپنی اولاد کی تربیت نہیں کی تھی کہ ان سے یہ قبیح فعل سرزد ہوا؟
حیرت یہ بھی ہے کہ جلیل القدر صحابئ رسول ﷺ سیدنا مغیرة بن شعبہؓ جو یکے از صاحبِ بیعتِ رضوان بھی تھے (یعنی از روئے قرآن اللہ ان سب سے راضی ہوا جو مقامِ حدیبیہ پر شجر کے نیچے نبئ محترم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے اور جن کے بارے میں قرآن میں کہا گیا تھا یداللہ فوق ایدیھم کہ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے) ۔۔۔۔ حیرت ہے کہ ان مغیرة بن شعبہ ؓ ہی نے یزید کو ولی عہد بنانے کی تجویز و تائید و حمایت و تحریک چلائی تھی۔ حیرت ہے کہ ان نے بھی نہ سوچا کہ یہ یزید کیسا نالائق اور بدبخت ہو گا ؟ پھر بیعتِ رضوان ذوالنورین (نبئ محترم ﷺ کی دو حقیقی صاحبزادیوں کے شوہر یعنی دو نور والے) سیدنا عثمان ؓ کےخون کا بدلہ لئے منعقد ہوئی تھی کہ افواہ پہنچی تھی کہ انہیں مکہ میں شہید کر دیا گیا ہے۔ نبئ محترم ﷺ کے آپ محبوب ترین داماد تھے کہ جن کے بارے میں نبئ محترم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی باقی ہوتی تو میں وہ بھی عثمان کو دے دیتا۔ انہی عثمان ؓ نے کیا تیسری شادی سیدہ نائلہؓ سے کرتے ہوئے ذرا بھی نہ سوچا کہ کس خاندان میں رشتہ کر رہے ہیں کہ نائلہ ؓ یزید کی سگی پھوپھی تھیں۔ نیز یہ بات بھی باعثِ حیرت ہے کہ اس دور کی خاتونِ اول یعنی ملکہ سیدہ امِ محمد تھیں جو امامِ عالی مقامؓ سیدنا حسین ؓ کے سگے چچا سیدنا جعفر طیارؓ کی پوتی تھیں۔ ان نے کس طرح گوارا کر لیا کہ ان کا شوہر یزید ان کے چچا (یعنی ان کے باپ عبداللہ بن جعفر طیارؓ کے چچا زاد بھائی) سیدنا حسینؓ کا گھر کربلا میں یوں ظالمانہ طور پر اجاڑ دے۔ حیرت ہے کہ سیدنا حسینؓ کے ان چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر طیارؓ نے نہ صرف یزید کی بیعت کی بلکہ بیعت کو شہادتِ امامِ عالی مقام کے بعد فسخ بھی نہیں کیا بلکہ بدستور جاری رکھا۔۔۔ یہی نہیں بلکہ حسین ؓ کے سوتیلے بھائی جو بہت عابد و زاہد فقیہ تھے یعنی محمد بن علیؓ (محمد بن حنفیہ) ان نے بھی نہ صرف بیعتِ یزید کی بلکہ حیرت ہے کہ اپنے بھائی کے قاتل کی بیعت کو اپنے بھائی کی شہادت کے بعد بھی تادمِ مرگ جاری رکھا۔ سب سے بڑی حیرت تو اس بات پر ہے کہ سیدنا حسینؓ کے اکلوتے صاحبزادے سیدنا امام زین العابدین نے اس وقت یزید کے لئے یہ دعا کیونکر کی جب یزید کا گورنر ان کے پاس یزید کے تحائف و وظائف لے کر گیا کہ اللھم ارحم علی امیرالمومنین (اے اللہ امیرالمومنین پر اپنی رحمت فرما)ــ حیرت ہے کہ کیا کوئی بیٹا اپنے باپ کے قاتل کے لئے ایسی دعا کر سکتا ہے۔( یہ دعا اس موضوع کے ممتاز مؤرخ و محقق علامہ محمود عباسی مرحوم جیسے کئی مصنفین نے مستند شیعہ کتب ہی سے اپنی تصنیفات میں درج کر رکھی ہے )ـ پھر سیدنا امام زین العابدینؓ واقعہ کربلا کے بعد تقریبا ایک ماہ تک یزید کے محل میں قیام پزیر کیونکر رہے اور یزید کے ہمراہ ناشتہ کیونکر کرتے رہے (کیونکہ مستند روایات کی رو سے یزید آپؓ کے بغیر ناشتہ نہیں کرتا تھا )ـ پھر یہ بھی حیرت ہے کہ جب یزید نے سیدنا امام زین العابدینؓ سے دریافت کیا کہ میرے چچا زاد بھائی سیدنا حسین ؓ کو کس نے قتل کیا اور اس گھرانے کو کس نے اجاڑا تو امام زین العابدینؓ نے یہ کیوں نہ کہا کہ آپ نے ؟ یہ شیروں کے شیر کب کسی سے ڈرنے ، دبنے اور جھکنے والے تھے تو پھر شیرِ خدا سیدنا علی ؓ کے پوتے نے یزید سے یہ کیوں کہا کہ کسی کو معلوم نہیں کہ خیموں سے باہر کیا ہوا اور کس نے یہ کام کیا۔ پاکباز بیبیاں پردہ دار تھیں چنانچہ باہر نکل کر نہ دیکھ سکیں اور میں خیمہ میں بیمار پڑا تھا لہذا میں بھی باہر دیکھنے سے معذور تھا۔
میرے بھائی حیرت یہ ہے کہ مستند ترین و مصدقہ روایات و آثار یزید پلید کو قاتل کیونکر نہیں ٹھہراتے ؟؟؟ مجھے یہ سوال اکثر بیچین رکھتا ہے اور یہ بھی کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیھم اجمعین کے خاندانوں میں سے بھی کسی ایک نے بھی نہ یزید سے کی ہوئی بیعت فسخ کی اور نہ ان میں سے ایک بھی یزید کے خلاف اٹھا۔۔۔۔ ایسا کیوں کیا ان لوگوں نے ؟؟؟؟ کیا یہ بے ایمان ہو گئے تھے ؟؟؟مسلمانوں نے قاتلِ حسین یزید کی حکومت میں واقعہ کربلا کے بعد تین سال کیسے گزارے کیونکہ یزید تو تین سال بعد اپنی طبعی موت سے فوت ہوا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے یزید کا نماز جنازہ پڑھا۔۔۔اور غالبا یہ تاریخِ شام کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ ان مسلمانوں نے ، ان صحابہؓ کے صاحبزادوں اور خاندانوں نے اپنے نبئ محترم ﷺ کے نواسے امامِ عالی مقام کے قاتل کا اتنا بڑا جنازہ کیوں منعقد کیا ؟؟؟؟ـــــــــــ بہت ہی حیرت ہوتی ہے کہ مستند و مصدقہ روایات پر مبنی تاریخ یہ کہ رہی ہے اور میں اور آپ یزید کو اپنے محبوب و محترم امامِ عالی مقامؓ کا قاتل سمجھ سمجھ کر لعنت پہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ ایسا کیوں ہے ؟؟حقیقت ہے کیا ؟؟؟ پھر آگ نہ لگا دیں ان مستند و مصدقہ و معتبر کتبِ روایات و آثار کو جن میں ایسی ایسی بیہودہ معلومات درج ہیں جو بتاتی پھرتی ہیں کہ نہ یزید کا قتل حسین میں کوئی عمل دخل تھا نہ اس کی فوج کا۔ یہ تو انہی کوفیوں نے کیا تھا جن نے خط لکھ کر بلایا تھا اور بعد ازاں یزید کے پاس جاتے ہوۓ اثنائے راہ میں امامؓ کو اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا اور خطوط کے ثبوت لے کر فرار ہو گئے کیونکہ کربلا کوفہ سے شام کی طرف جانے والے راستے پر واقع ہے نہ کہ مکہ سے کوفہ کے راستے پر۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔۔ اصل ماجرا اللہ کو ہی معلوم ہے۔۔۔۔ ہم تو سیدنا امامِ عالی مقام کو شہید کرنے والوں اور ان کے گھر کو اجاڑنے والوں پر تا قیامت لعنت کرتے رہیں گے۔
اس کے جواب میں ایک پروفیسر صاحب نے بخاری و مسلم کے حوالوں سے راقم الحروف کو خوب آڑے ہاتھوں لیا
پروفیسر صاحب کے یہ ارشادات سر آنکھوں پر کہ
" صحابی کی عظمت کا مقابلہ پوری کائنات کے اولیا بھی مل کر نہیں کر سکتے۔
مگر اس کے باوجود صحابی بہر طور انسان ہے۔ اور سہو انسان سے ہی ہوتی ہے۔
لہذا سہو سے نہ تو صحابیت کا شرف ختم ہوتاہے۔ نہ
شان کم ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ تو سب ٹھیک ہے باقی قصے کہانیاں جو روایات میں مذکور ہیں ان پر جرح و تعدیل کرکے روایتا و درایتا محدثین نے بہت سی روایات میں کلام کیا ہے اور بخاری و مسلم تک کی روایات کو محلِ نظر ٹھہرایا ہے۔ ۔۔۔۔ جہاں تک صحابی کی عمومی تعریف کا تعلق ہے محقق علماء اسے معتبر نہیں جانتے مثلا غامدی صاحب نے غالبا مجھے ایک ذاتی ملاقات میں بتایا تھا کہ اس دور کا ہر شخص جس نے ایمان کی حالت میں نبئ محترم کی زیارت کی ضروری نہیں کہ وہ صحابی بھی ہو کیونکہ غامدی صاحب کے بقول صحابی صرف وہ تھے جن کو ساری دنیا نبئ محترم ﷺ کے قریب ترین رفقاء کے حوالے سے پہچانتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے نہ تو عبدالرحمان بن ابی بکرؓ کا واقعہ پوچھا تھا اور نہ کوئی اور کہ یہ سب مجھے پہلے سے معلوم ہیں کیونکہ سیدنا امیرمعاویہؓ کی صفائی پیش کرنے والوں نے ان روایات پر جرح و تعدیل اور اسماءالرجال سے کافی کلام کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تو صرف عرض کیا تھا کہ کیا کسی ایک بھی صحیح روایت سے یزید پر قتلِ حسینؓ یا آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا گھر اجاڑنا ثابت ہے ؟
اصل سوال یہی تھا۔
بہرحال
اس معاملے میں خاموشی بہتر ہے۔ جو معاملات 1400 سال سے لاینحل ہیں ہماشما یا ہرکس و ناکس کی کیا مجال کہ انہیں حل کر سکے۔
بس خاموشی ہی بہتر ہے
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ
وہ ایک خاص زمانہ کے لوگ تھے جو گزر چکے ۔ ان کے لئے وہ کچھ ہے جو ان نے کیا اور تمہارے لئے وہی کچھ ہے جو تم کرو گے۔ تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے۔
دین نبئ محترم ﷺ پر مکمل ہو گیا اور صحیح ترین روایات کے مطابق خطبہء حجة الوداع میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں صرف ایک شے چھوڑے جا رہا ہوں جس کو اگر مضبوطی سے پکڑ لیا تو میرےبعد کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے صرف اللہ کی کتاب قرآنِ مجید۔۔۔۔ اسی ارشاد کی بنا پر فاروقِ اعظم ؓ نے نبئ محترم ﷺ کے آخری وقت یہ کہ کر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ حسبنا کتاب اللہ اب ہمارے لئےصرف اور صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔۔۔ اقبالؒ نے تشکیل جدید میں فرمایا کہ نبئ محترم ﷺ نے بھی اس پر اظہارِ مسرت فرمایا (یعنی اپنے ہی دل کی آواز سمجھی کہ میں یہی تو لکھوانا چاہتا تھا)ـــ اب یہ واقعہ اور اس کی تشریح متنوع اور مختلف طور پر منقول ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ قرآن اپنے تئیں کافی کہتا ہے اور اس کی بہترین تشریح بھی تمام مفسرین کے نزدیک بالاجماع قرآن ہی سے ممکن ہے کیونکہ اس کے تبیان (تشریح و تفسیر) کی ذمہ داری بھی خود خدا نے لی ہے۔ اس دور کی صرف اور صرف یہی ایک واحد کتاب ہے جو اپنی اصلی حالت میں تب سے اب تک متفقہ و مستند طور پر موجود ہے۔ یہی صحیح اور غلط کا واحد معیار ہے۔
مثلا اگر "اہلِ بیت" کی تفسیر درکار ہو کہ یہ اصلا کون ہیں ؟ تو قرآن عمومی طور پر مزعومہ اہلِ بیت کی بجائے نبئ محترم ﷺ کی ازواجِ مطہرات کو اصلا اہل بیت کہتا ہے اور وارثینِ آیہء تطہیر بھی بحوالہءسیاق وسباقِ قرآنی اصلا نبئی محترم ہی کی ازواجِ مطہرات ہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ نبئ محترم ﷺ کے بعد سید(عرب) اور غیر سید (عجم) کی نسل پرستی پر مبنی امتیازات اسلام میں کہاں سے در آئے جب کہ نبئ محترم ﷺ نے جاہلیت کے یہ تمام غرور خطبہء حجة الوداع میں اپنے پیروں تلے روند ڈالے تھے ؟؟؟
بس خاموشی ہی بہتر ہے
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ
وہ ایک خاص زمانہ کے لوگ تھے جو گزر چکے ۔ ان کے لئے وہ کچھ ہے جو ان نے کیا اور تمہارے لئے وہی کچھ ہے جو تم کرو گے۔ تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے۔
میں باز آیا سر۔۔۔ آپ ہمارے استادِ محترم ہیں ۔۔۔۔۔ اور ہم ٹھہرے بے استاد۔۔۔۔۔ آپ ہی نے ہمیں سکھانا ہے۔۔۔۔۔ امید ہے ہم جلد سیکھ جائیں گے۔۔۔
اگر کوئی بات آپ کو یا کسی کو بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
بس اب ہم نے آپ کے حضور زبان بندی اختیار کی
امید ہے آپ اور آپ سب معافی عطا فرمائیں گے۔ آپ دوستوں کا پیار محبت بحث مباحثوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ معذرت طلب ہوں اور دعاؤں کا خواستگار ہوں۔
اس کے جواب میں ایک پروفیسر صاحب نے بخاری و مسلم کے حوالوں سے راقم الحروف کو خوب آڑے ہاتھوں لیا
پروفیسر صاحب کے یہ ارشادات سر آنکھوں پر کہ
" صحابی کی عظمت کا مقابلہ پوری کائنات کے اولیا بھی مل کر نہیں کر سکتے۔
مگر اس کے باوجود صحابی بہر طور انسان ہے۔ اور سہو انسان سے ہی ہوتی ہے۔
لہذا سہو سے نہ تو صحابیت کا شرف ختم ہوتاہے۔ نہ
شان کم ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ تو سب ٹھیک ہے باقی قصے کہانیاں جو روایات میں مذکور ہیں ان پر جرح و تعدیل کرکے روایتا و درایتا محدثین نے بہت سی روایات میں کلام کیا ہے اور بخاری و مسلم تک کی روایات کو محلِ نظر ٹھہرایا ہے۔ ۔۔۔۔ جہاں تک صحابی کی عمومی تعریف کا تعلق ہے محقق علماء اسے معتبر نہیں جانتے مثلا غامدی صاحب نے غالبا مجھے ایک ذاتی ملاقات میں بتایا تھا کہ اس دور کا ہر شخص جس نے ایمان کی حالت میں نبئ محترم کی زیارت کی ضروری نہیں کہ وہ صحابی بھی ہو کیونکہ غامدی صاحب کے بقول صحابی صرف وہ تھے جن کو ساری دنیا نبئ محترم ﷺ کے قریب ترین رفقاء کے حوالے سے پہچانتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے نہ تو عبدالرحمان بن ابی بکرؓ کا واقعہ پوچھا تھا اور نہ کوئی اور کہ یہ سب مجھے پہلے سے معلوم ہیں کیونکہ سیدنا امیرمعاویہؓ کی صفائی پیش کرنے والوں نے ان روایات پر جرح و تعدیل اور اسماءالرجال سے کافی کلام کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تو صرف عرض کیا تھا کہ کیا کسی ایک بھی صحیح روایت سے یزید پر قتلِ حسینؓ یا آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا گھر اجاڑنا ثابت ہے ؟
اصل سوال یہی تھا۔
بہرحال
اس معاملے میں خاموشی بہتر ہے۔ جو معاملات 1400 سال سے لاینحل ہیں ہماشما یا ہرکس و ناکس کی کیا مجال کہ انہیں حل کر سکے۔
بس خاموشی ہی بہتر ہے
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ
وہ ایک خاص زمانہ کے لوگ تھے جو گزر چکے ۔ ان کے لئے وہ کچھ ہے جو ان نے کیا اور تمہارے لئے وہی کچھ ہے جو تم کرو گے۔ تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے۔
دین نبئ محترم ﷺ پر مکمل ہو گیا اور صحیح ترین روایات کے مطابق خطبہء حجة الوداع میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں صرف ایک شے چھوڑے جا رہا ہوں جس کو اگر مضبوطی سے پکڑ لیا تو میرےبعد کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے صرف اللہ کی کتاب قرآنِ مجید۔۔۔۔ اسی ارشاد کی بنا پر فاروقِ اعظم ؓ نے نبئ محترم ﷺ کے آخری وقت یہ کہ کر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ حسبنا کتاب اللہ اب ہمارے لئےصرف اور صرف اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔۔۔ اقبالؒ نے تشکیل جدید میں فرمایا کہ نبئ محترم ﷺ نے بھی اس پر اظہارِ مسرت فرمایا (یعنی اپنے ہی دل کی آواز سمجھی کہ میں یہی تو لکھوانا چاہتا تھا)ـــ اب یہ واقعہ اور اس کی تشریح متنوع اور مختلف طور پر منقول ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ قرآن اپنے تئیں کافی کہتا ہے اور اس کی بہترین تشریح بھی تمام مفسرین کے نزدیک بالاجماع قرآن ہی سے ممکن ہے کیونکہ اس کے تبیان (تشریح و تفسیر) کی ذمہ داری بھی خود خدا نے لی ہے۔ اس دور کی صرف اور صرف یہی ایک واحد کتاب ہے جو اپنی اصلی حالت میں تب سے اب تک متفقہ و مستند طور پر موجود ہے۔ یہی صحیح اور غلط کا واحد معیار ہے۔
مثلا اگر "اہلِ بیت" کی تفسیر درکار ہو کہ یہ اصلا کون ہیں ؟ تو قرآن عمومی طور پر مزعومہ اہلِ بیت کی بجائے نبئ محترم ﷺ کی ازواجِ مطہرات کو اصلا اہل بیت کہتا ہے اور وارثینِ آیہء تطہیر بھی بحوالہءسیاق وسباقِ قرآنی اصلا نبئی محترم ہی کی ازواجِ مطہرات ہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ نبئ محترم ﷺ کے بعد سید(عرب) اور غیر سید (عجم) کی نسل پرستی پر مبنی امتیازات اسلام میں کہاں سے در آئے جب کہ نبئ محترم ﷺ نے جاہلیت کے یہ تمام غرور خطبہء حجة الوداع میں اپنے پیروں تلے روند ڈالے تھے ؟؟؟
بس خاموشی ہی بہتر ہے
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ
وہ ایک خاص زمانہ کے لوگ تھے جو گزر چکے ۔ ان کے لئے وہ کچھ ہے جو ان نے کیا اور تمہارے لئے وہی کچھ ہے جو تم کرو گے۔ تم سے نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے۔
میں باز آیا سر۔۔۔ آپ ہمارے استادِ محترم ہیں ۔۔۔۔۔ اور ہم ٹھہرے بے استاد۔۔۔۔۔ آپ ہی نے ہمیں سکھانا ہے۔۔۔۔۔ امید ہے ہم جلد سیکھ جائیں گے۔۔۔
اگر کوئی بات آپ کو یا کسی کو بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
بس اب ہم نے آپ کے حضور زبان بندی اختیار کی
امید ہے آپ اور آپ سب معافی عطا فرمائیں گے۔ آپ دوستوں کا پیار محبت بحث مباحثوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ معذرت طلب ہوں اور دعاؤں کا خواستگار ہوں۔
Comments
Post a Comment