کولیہ (روپ نگر) میرے آباء کا دیس (Kulia (Rupnagar
My Native Village In India
http://www.onefivenine.com/india/villages/Rupnagar/Chamkaur-Sahib/Bama-Kulian
دیس: کُولیہ (KULIA/KULIAN)،
روپڑ (Rupnagar روپ نگر)
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے بڑے اسے دیس کہا کرتے تھے۔ یہ اس دور کے ہندوستان کے ضلع انبالہ کی تحصیل روپڑ کا ایک گاوں تھا کُولیہ۔ اب تو روپڑ بھی رُوپ نگر ہو گیا۔ آج کل کولیہ اسی روپ نگر ضلع کی تحصیل چمکور صاحب کا ایک گاؤں ہے جس کا ڈاکخانہ ماموں سمیع (مقیم امریکہ) کے آبائی گاؤں بیلا میں ہے اور اس کا پوسٹ کوڈ 140111 ہے۔ بیلا سے یہ تقریبا 6 کلومیٹر دور ہے اور دریائے ستلج کے کنارے واقع ہے۔
کُولیہ اپنے ضلعی صدر مقام روپ نگر (روپڑ شہر) سے بجانبِ مغرب 15 کلومیٹر اور اپنی ریاست چندی گڑھ کے صدر مقام سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
کولیہ کے جنوب میں تحصیل مورنڈہ اور کھمانو ، مشرق میں تحصیل روپ نگر (روپڑ) اور شمال میں تحصیل بلاچور واقع ہیں جبکہ اس کے قریب ترین شہروں میں روپ نگر (روپڑ)، مورنڈہ، کُوریل، کھارڑ شامل ہیں۔
کولیہ دراصل ضلع روپ نگر (روپڑ) اور ضلع فتح گڑھ کی متصل سرحد پر واقع ایک گاؤں ہے۔ ضلع فتح گڑھ صاحب اور کھمانو اس کے جنوب میں ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اور ضلع نواں شہر کی سرحد بھی اس گاؤں سے متصل ہے۔
اگر گوجرہ سے بلاتوقف سیدھے بجانبِ مشرق گامزن رہا جائے تو 3 دن 6 گھنٹے کے پیدل سفر کے بعد آپ کُلیہ میں وارد ہو سکتے ہیں۔
نقشے پر کُولیہ کو دیکھنا ہو تو اس کے لئے مندرجہ ذیل لنکس پر کلک کیجیئے :
http://www.onefivenine.com/india/villages/Rupnagar/Chamkaur-Sahib/Bama-Kulian
اور اگر اس کے قرب و جوار کی سیر مطلوب ہو تو مندرجہ ذیل لنک سے استفادہ کیجیئے:
اس میں آپ ملاحظہ کریں گے کہ آپ کو دریائے ستلج کے ساتھ پہاڑی سلسلے نظر آ رہے ہیں۔ جی ہاں جس طرح ہمارے پاکستان میں سطح مرتفع پوٹھوہار ہے یعنی راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاقے بعینہ بھارت میں ہمارے آباء کا یہ دیس سطح مرتفع ہے جو ہما چل پردیش اور شملہ سے جا ملتا ہے بلکہ شملہ جانے کا راستہ کسی دور میں اسی دیس سے گزرا کرتا تھا۔ میری والدہ اپنے بچپن میں اپنے پھوپھا کے پاس شملہ میں اسی راستے سے ہو کر گزری تھیں۔ ان کے پھوپھا اس وقت شملہ میں بطور ڈاکٹر کیپٹن انگریز فوج کی طرف سے تعینات تھے۔ والدہ بتاتی ہیں کہ بہت ہی خوبصورت علاقہ تھا۔ میرے والد نے بھی اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ یہ دیس ایسا سر سبز و شاداب علاقہ تھا جہاں چٹانوں سے چشمے ابلتے تھے ، مور چہچہاتے تھے اور شملہ کی پہاڑیاں وہاں سے صاف دکھائی دیتی تھیں۔
اگر آپ یہ نظارہ بھی کرنا چاہیں کہ دریائے ستلج اس دیس میں داخل ہونے سے پہلے ہماچل پردیش سے کیسے گزرتا ہے تو مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئیے:
مجھے اپنے آبائی دیس کے بارے میں شک رہا کہ یہ باہما (bahama) تھا یا کولیہ کیونکہ ہمارے بزرگ اکثر اس دیس کو اکٹھا کرکے باہما کولیہ کہتے تھے تآنکہ میری اہلیہ کی دادی یعنی بی بی نے مجھ سے سوال کیا کہ میاں تم ہندوستان میں کس دیس کے ہو ؟ یہی سوال میں نے ان سے کیا تو فرمانے لگیں ریاست پٹیالہ کے سرحدی گاؤں سرہند بسی کے جہاں ہمارے رقبے کے ساتھ مجدد الف ثانی کا مزار واقع ہے۔ میں نے کہا ہم باہما کولیہ کے ہیں۔ فرمانے لگیں کہ باہما کے یا کولیہ کے ؟ کیونکہ یہ دو الگ الگ گاؤں تھے۔ تآنکہ ہمارے کسی بڑے (غالبا چچا عبدالحکیم مرحوم) نے بتا دیا کہ ہم کولیہ کے ہیں۔ اس پر جب میں نے بی بی کو بتایا تو بہت حیران ہوئیں کہ کولیہ تو ہمارے قریب ہی واقع تھا۔
اس خوبصورت علاقے میں ہمارے بڑے کہاں سے اور کیوں آئے تھے اور پھراس علاقے کو ان نے چھوڑ کیوں دیا اس امر میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو البتہ بزرگوں کی زبانی یہ کہانی ہے دلچسپ ہوا کچھ یوں کہ
ہمارے بڑے جالندھر کے گِل تھے مگر اس دیس میں وارد ہوئے تو سُوکھ کر لیؤسہ کہلانے لگے۔ زمینوں اور وراثتی امور کاحساب کتاب رکھنے والوں کے کاغزوں کی حد تک ہم گل تھے لیؤسہ کیسے بنے اس پر سرکاری کاغزات بھی حیراں ہیں مگر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
ہمارےکسی ایک جدِ امجد کی شادی اس دیس کی ایک لیؤسہ رئیس زادی سے ہو گئی جو اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی اور بڑی بڑی زمینوں پر مشتمل جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ بس پھر کیا تھا رال ٹپک پڑی، اس دیس میں لیؤسہ کہلائے اور اپنوں کو جالندھر میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہو رہے بہانہ ہوا بیگم کی جائیداد کے انتظام و انسرام کا۔ بس پھر کیا تھا تب سے اب تک۔۔۔۔۔۔۔چلیئے چھوڑیئے
جو کچھ بھی رہی حسبِ روایات رہی ہے
آخر کولیہ کے اس خوبصورت علاقے کو چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ سچ پوچھیئے تو ہمارے بڑے اس علاقے کو ترک کرکے مغربی پنجاب کے سمندری کے جنگلات میں آباد ہونے کو تیار ہی نہیں تھے۔ اس دیس کی یاد انہیں ہمیشہ ستاتی رہی چنانچہ وہ ذرا دیر کو سمندری کا رخ بھی کرتے تو پھر واپس آ جاتے۔ جنگلات اور جھاڑیاں کاٹ کر زمین آباد کرنا سمندری میں واقعی ایک کٹھن کام تھا۔ مگر اپنے علاقے میں بھی کیا کرتے کہ تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے کل تقریبا 5 ایکڑ زمین ہی بچی تھی جس میں سے ہر ایک بھائی کے حصے میں ایک ایک کنال لمبائی کے رخ زمین رہ گئی تھی جہاں بونا بھی مشکل ، پانی دینا بھی
اور کاٹنا بھی۔
وہ تو بھلا ہو روپڑ شہر کے باسی چودھری مراد بخش کا جن کے ہاں ہمارے جد امجد چودھری قادر بخش کے برادرِ نسبتی یعنی ہماری پڑدادی کے بھائی مزارعت پر مامور تھے۔یعنی وہی چودھری مراد بخش نہنگ جن کی دو بیٹیاں بعد ازاں ہماری دادی بنیں اور ایک بیٹی ہماری نانی ٹھہریں اور جو ہماری چچی انیس کے دادا تھے۔ چودھری مراد بخش رسول انجینئرنگ سکول کے فارغ التحصیل تھے اور ان دنوں مختلف دریاؤں اور نہروں پر تعمیراتی کام کے نگران تھے۔ جب لائلپور کا نہری نظام تشکیل پایا تو ان نے 1890 عیسوی کے قریب ہمارے بڑوں کو بھی دعوت دی اور انہیں چک 480 گ ب سمندری میں زمینیں الاٹ کروا کر دیں اور خود بھی روپڑ شہر سے آ کر متصلہ گاؤں 479 گ ب میں آباد ہو گئے۔
اور کاٹنا بھی۔
وہ تو بھلا ہو روپڑ شہر کے باسی چودھری مراد بخش کا جن کے ہاں ہمارے جد امجد چودھری قادر بخش کے برادرِ نسبتی یعنی ہماری پڑدادی کے بھائی مزارعت پر مامور تھے۔یعنی وہی چودھری مراد بخش نہنگ جن کی دو بیٹیاں بعد ازاں ہماری دادی بنیں اور ایک بیٹی ہماری نانی ٹھہریں اور جو ہماری چچی انیس کے دادا تھے۔ چودھری مراد بخش رسول انجینئرنگ سکول کے فارغ التحصیل تھے اور ان دنوں مختلف دریاؤں اور نہروں پر تعمیراتی کام کے نگران تھے۔ جب لائلپور کا نہری نظام تشکیل پایا تو ان نے 1890 عیسوی کے قریب ہمارے بڑوں کو بھی دعوت دی اور انہیں چک 480 گ ب سمندری میں زمینیں الاٹ کروا کر دیں اور خود بھی روپڑ شہر سے آ کر متصلہ گاؤں 479 گ ب میں آباد ہو گئے۔
ہمارے بڑوں کو یہ نیا علاقہ اپنے خوبصورت دیس کے مقابلے میں ایک آنکھ نہ بھایا۔ اس جنگل نما علاقے کو اور جھاڑ جھنکار کو صاف کر کے زمین تیار کرنا ہی کٹھن مرحلہ تھا اور اوپر سے سابقہ دیس کی یاد لہذا ہمارا کوئی بھی بڑا زیادہ دیر یہاں نہ رکتا اور واپس دیس چلا جاتا۔ رفتہ رفتہ ہمارے سارے بڑے اجداد اپنے ننھے بچوں کو یتیم چھوڑ کر تقریبا 1910 عیسوی تک دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ہمارے پڑدادا بھی دیس جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئے۔ گمان غالب یہی رہا کہ ان دنوں نئی نئی بچھائی گئی کسی ریلوے لائن پر ٹرین کی زد میں آ گئے۔ پھر ان کا کچھ پتہ نہ چلاـ ان کا نام چودھری قادر بخش تھا جو اپنے دیگر بھائیوں یعنی کریم بخش اور عظیم بخش میں سب سے چھوٹے تھے۔
بخش برادران (کریم بخش، عظیم بخش اور قادر بخش) کے والد کا نام صوبہ تھا۔ ان کے والد صوبہ یا دادا غلام بھیک (بھیکا) میں سے کوئی ایک بہت بڑا عالم تھا جس کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی ضخیم کتابوں پر مشتمل بوریاں میرے والد ڈاکٹر حفیظ نے بھی اپنے بچپن میں دیکھی تھیں۔ ہمارے دادا ڈاکٹر رحمت اللہ نے کئی مرتبہ میرے سامنے اس حیرت کا اظہار کیا کہ معلوم نہیں کیوں ایسے عالم فاضل انسان کی اولاد تعلیم سے نابلد کیونکر رہ گئی۔
اگر حقیقی وفرضی سن ہائے وفات کو 30 برس کے وقفے پر شمار کر کے اندازہ لگایا جائے تو وہ کچھ یوں بنتا ہے۔
ڈاکٹر رحمت اللہ (1992) ابنِ چودھری قادر بخش (1910؟ ) ابنِ صوبہ (1880؟) ابن غلام بھیک (بھیکا) (1850 ؟) ابنِ وزیر محمد (وزیرا 1820؟)
وزیر محمد یا ان کے والد غالبا ہمارے خاندان کے پہلے مسلمان تھے اور ان نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ ہندوسان میں مرہٹوں اور سکھوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔ ایسے میں پنجاب کے اضلاع پٹنہ سے دہلی تک جس ایک تحریک کی تبلیغ سے متاثر ہورہے تھے وہ خانوادہء شاہ ولی اللہ دہلوی اور بالخصوص سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک و تبلیغ تھی جس نے آگے چل کر اہل حدیث کا نام اختیار کر لیا۔ میرے والد کے بقول ہمارے بزرگ
سکھ نہیں تھے بلکہ ہندو برہمن تھے جو براہِ راست اہل حدیث ہوئے اور پھر نسلا بعد نسلا ہم سے ایک دو نسل پہلے تک اسی مسلک پر قائم رہے۔ جب ممتاز محقق غلام رسول مہر کی تذکرة المجاھدین دیکھیں تو معلوم ہوتا ہےکہ مشرقی پنجاب کے دیہات خاص طور پر انبالہ اور روپڑ میں اہل حدیث بہت اثر و نفوذ اختیار کر چکے تھے۔ ہمارےخاندان کے جملہ بزرگوں پر اس تحریک المجاھدین کے ایک اہل حدیث امیر صوفی عبداللہ کا کافی اثر رہا جن نے 1930 کے قریب ماموں کانجن اور فیصل آباد میں اہل حدیث کے مدارس کی بنیاد ڈالی۔ ہمارا گاؤں 480 گ ب تقریبا تمام کا تمام صوفی عبداللہ کے اعتقاد میں پختہ اہل حدیث رہا ہے۔ ہمارے بزرگ بشمول ہمارے دادا اور میرے والد کے صوفی عبداللہ کا بہت احترام اور ذکر خیر کیا کرتے تھے ۔
مندرجہ بالا سطور اپنے خاندان کے بزرگوں کا فیضانِ صحبت ہے اگر اس میں لاعلمی پر مبنی کوئی کوتاہی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ آیندہ نسلوں کے لئے یہ معلومات محفوظ کر دی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ
ضرورت کام آئے۔
ابھی ہمارے دادا ڈاکٹر رحمت اللہ چھوٹے تھے کہ ان کے والد اور دونوں تایا دنیا سے چل بسے تھے ۔ ان کے بڑوں میں ہماری پڑدادی ماں جی، ہمارے دادا کے بڑے بھائی عبداللہ ابن قادر بخش ، دو ان کے تایا زاد بھائی عبدالرحمان ابن عظیم بخش (آف بہاولپور) اور فیض محمد ابنِ کریم بخش ہی ان کے پُرسانِ حال رہ گئے تھے۔ سب اکٹھے رہتے تھے۔ ماں جی ان سب کی بڑی تھیں جو اپنے اور اپنے جیٹھوں کے یتیم بچوں اور بچیوں کو لئے بیٹھی تھیں۔ *دشمنوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ ان کی بچی کچھی زمینیں بھی ہتھیا لی تھیں اور بڑے بھائیوں کو جیل میں بھی ڈلوایا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے دادا کو پڑھانے کے لئے اور جملہ خاندان کے افراد کی کفالت کے لئے ہمارے دادا کے تایا زاد بھائی عبدالرحمان سڑکوں پر مزدوری کرتے اور بجری کوٹتے رہے کیونکہ زمینیں اغیار کے قبضہ میں تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دشمن لوگ ان کو مار ڈالنے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھانے تک کی دھمکیاں دیتے تھے۔* غربت و افلاس کا یہ عالم تھا کہ دادا جان جب ایم بی ہائی سکول گوجرہ پڑھنے کے لئے آتے تھے تو ان کے پاس نہ سردی گرمی سے بچاؤ کے لئے ڈھنگ کے کپڑے تھے اور نہ پاؤں میں اچھی جوتی مگر انہیں پڑھائی اور اپنے دین اور نماز سے بہت دلچسپی تھی۔
*میرے ابو کہا کرتے تھے کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب گاؤں والے ہمارے خاندان پر ازراہ ہمدردی ترس کھا کر کہتے تھے کہ یہ لوگ زندہ کیسے ہیں اور وہ کہتے تھے کہ یا تو ان کے دشمن ان کو اٹھا لے جائیں گےیا مار ڈالیں گے یا یہ خود ہی غربت و افلاس و مصائب سے تنگ آ کر یہ گاؤں چھوڑ جائیں گے۔*
پھر محنت اور دعائیں رنگ لائیں۔ اللہ تعالی کی رحمت اور فضل و کرم نے دستگیری کی۔رحمت اللہ کی لیاقت دیکھ کر خاندان کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ اس غربت کے عالم میں سب کچھ ہم رحمت اللہ کی تعلیم پر لگاتے ہیں۔ پھر دنیا بھر نے بچشمِ خود دیکھا کہ اللہ کے فضل و کرمِ خاص سے رحمت اللہ نےمیٹرک کے امتحان میں اس پورے پنجاب میں اول مرتبہ میں کامیابی حاصل کی جو دہلی سے پشاور اور جموں سے سندھ تک پھیلا ہوا تھا۔چنانچہ انہیں گلانسی میڈیکل سکول امرتسر میں داخلہ مل گیا۔ جب وہ داخلہ لینے گئے تو ماں نے تھوڑے سے پیسے ایک گٹھڑی میں باندھے۔ ننھے رحمت اللہ نے رات امرتسر کی ایک مسجد میں بسر کی مگر ایک کھٹکے سے آنکھ کھلی تو گٹھڑی بازؤں میں دبا کر ساری رات بیٹھے رہے مبادا کوئی یہ داخلے کے پیسے بھی نہ لے اڑے جو ماں نے دیئے تھے۔ صبح جب میڈیکل سکول میں انگریز پرنسپل کے آفس پہنچے تو وہ ایک دھوتی اور پگڑی میں ملبوس دیہاتی لڑکے کو اپنے دفتر میں داخل ہوتے دیکھ کر رعب سے بولا کہ کون ہو تم ؟ رحمت اللہ نے اپنے کاغزات سامنے رکھ دیئے جنہیں دیکھ کر انگریز پرنسپل اپنی نشست سے احتراما اٹھ کھڑا ہو اور بولا کہ رحمت اللہ ہم کئی دن سے تمہارے منتظر تھے اور پریشان تھے کہ وہ رحمت اللہ ہم تک کیوں نہیں پہنچا ۔ کہیں وہ لاہور کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول میں تو نہیں چلا گیا۔
پھر دادا ڈاکٹر بنے اور اپنے ہر مہربان اور بہنوں اور بھائیوں کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح گھر میں رکھ کر پڑھاتے رہے۔
*پھر اللہ تعالی نے اس خاندان کو جو کبھی زمین میں دبا اور پسا ہوا تھا اپنی مہربانی سے نہ صرف اس خطے میں عزت و سربلندی سے نوازا بلکہ (بالفاظِ کتابِ زبور) اس چھوٹے سے پودے کو بڑا تناور شجر بنا دیا اور اس کی شاخوں کو سمندر پار کئی ملکوں تک پھیلا دیا۔۔۔ اب ہمیں اسی خدائے بزرگ و برتر کی شکر گزاری اور فرماں برداری کرنی چاہیے جس نے ہم پر اتنا کرم کیا۔*
آپ اب ان آیات کو اسی حوالے کو ذہن میں رکھ کرملاحظہ فرمائیے:
وَاذۡكُرُوۡۤا ( *اور یاد کرو* ) اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ ( *جب تم لوگ بہت تھوڑے سے تھے* ) مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ ( *زمین میں اتنے کمزور، دبے ہوئے اور پسے ہوئے تھے کہ* ) تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ ( *خائف رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اٹھا نہ لے جائیں* ) فَاٰوٰٮكُمۡ ( *پھر اللہ نے تمہیں سہارا دیا* ) وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ ( *اور اپنی مدد سے تمہاری دستگیری کی* ) وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ( *اور تمہیں ہر قسم کی عمدہ و اعلی چیزوں کا رزق عطا کیا* ) لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ( *تاکہ تم ہمارے شکر گزار بندے بن کے رہو، نافرمانی سے بچو اور ہماری نعمتوں کی قدر دانی کرو* ) يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ( *اے ایمان والو* ) لَا تَخُوۡنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ ( *اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو* ) وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ( *اور نہ اپنی امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کرو* ) وَاعۡلَمُوۡۤا ( *اور یہ جان رکھو* ) اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ ( *کہ بے شک تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں، امتحان ہیں یعنی ان کو امتحان ہی سمجھو* ) ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ( *اگر ان کو امتحان سمجھو گے اور خیانت نہیں کرو گے تو اللہ کے ہاں اس کی عظیم اجرت پاؤ گے* ) سورة الانفال 8 آیات 26 تا .28
ضرورت کام آئے۔
اب اس سے وابستہ و پیوستہ داستان بھی ملاحظہ فرمائیے کہ میں سورة الانفال کی کچھ آیات کی
تلاوت کر رہا تھا اور جب بھی ان آیات کی تلاوت کرتا ہوں *مجھے اپنے خاندان کے ماضی کی داستانیں* یاد آتیں ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں ان آیات کے بارے میں بتاؤں مختصرا وہ داستان سن لیجیئے کہابھی ہمارے دادا ڈاکٹر رحمت اللہ چھوٹے تھے کہ ان کے والد اور دونوں تایا دنیا سے چل بسے تھے ۔ ان کے بڑوں میں ہماری پڑدادی ماں جی، ہمارے دادا کے بڑے بھائی عبداللہ ابن قادر بخش ، دو ان کے تایا زاد بھائی عبدالرحمان ابن عظیم بخش (آف بہاولپور) اور فیض محمد ابنِ کریم بخش ہی ان کے پُرسانِ حال رہ گئے تھے۔ سب اکٹھے رہتے تھے۔ ماں جی ان سب کی بڑی تھیں جو اپنے اور اپنے جیٹھوں کے یتیم بچوں اور بچیوں کو لئے بیٹھی تھیں۔ *دشمنوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ ان کی بچی کچھی زمینیں بھی ہتھیا لی تھیں اور بڑے بھائیوں کو جیل میں بھی ڈلوایا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے دادا کو پڑھانے کے لئے اور جملہ خاندان کے افراد کی کفالت کے لئے ہمارے دادا کے تایا زاد بھائی عبدالرحمان سڑکوں پر مزدوری کرتے اور بجری کوٹتے رہے کیونکہ زمینیں اغیار کے قبضہ میں تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دشمن لوگ ان کو مار ڈالنے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھانے تک کی دھمکیاں دیتے تھے۔* غربت و افلاس کا یہ عالم تھا کہ دادا جان جب ایم بی ہائی سکول گوجرہ پڑھنے کے لئے آتے تھے تو ان کے پاس نہ سردی گرمی سے بچاؤ کے لئے ڈھنگ کے کپڑے تھے اور نہ پاؤں میں اچھی جوتی مگر انہیں پڑھائی اور اپنے دین اور نماز سے بہت دلچسپی تھی۔
*میرے ابو کہا کرتے تھے کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب گاؤں والے ہمارے خاندان پر ازراہ ہمدردی ترس کھا کر کہتے تھے کہ یہ لوگ زندہ کیسے ہیں اور وہ کہتے تھے کہ یا تو ان کے دشمن ان کو اٹھا لے جائیں گےیا مار ڈالیں گے یا یہ خود ہی غربت و افلاس و مصائب سے تنگ آ کر یہ گاؤں چھوڑ جائیں گے۔*
پھر محنت اور دعائیں رنگ لائیں۔ اللہ تعالی کی رحمت اور فضل و کرم نے دستگیری کی۔رحمت اللہ کی لیاقت دیکھ کر خاندان کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ اس غربت کے عالم میں سب کچھ ہم رحمت اللہ کی تعلیم پر لگاتے ہیں۔ پھر دنیا بھر نے بچشمِ خود دیکھا کہ اللہ کے فضل و کرمِ خاص سے رحمت اللہ نےمیٹرک کے امتحان میں اس پورے پنجاب میں اول مرتبہ میں کامیابی حاصل کی جو دہلی سے پشاور اور جموں سے سندھ تک پھیلا ہوا تھا۔چنانچہ انہیں گلانسی میڈیکل سکول امرتسر میں داخلہ مل گیا۔ جب وہ داخلہ لینے گئے تو ماں نے تھوڑے سے پیسے ایک گٹھڑی میں باندھے۔ ننھے رحمت اللہ نے رات امرتسر کی ایک مسجد میں بسر کی مگر ایک کھٹکے سے آنکھ کھلی تو گٹھڑی بازؤں میں دبا کر ساری رات بیٹھے رہے مبادا کوئی یہ داخلے کے پیسے بھی نہ لے اڑے جو ماں نے دیئے تھے۔ صبح جب میڈیکل سکول میں انگریز پرنسپل کے آفس پہنچے تو وہ ایک دھوتی اور پگڑی میں ملبوس دیہاتی لڑکے کو اپنے دفتر میں داخل ہوتے دیکھ کر رعب سے بولا کہ کون ہو تم ؟ رحمت اللہ نے اپنے کاغزات سامنے رکھ دیئے جنہیں دیکھ کر انگریز پرنسپل اپنی نشست سے احتراما اٹھ کھڑا ہو اور بولا کہ رحمت اللہ ہم کئی دن سے تمہارے منتظر تھے اور پریشان تھے کہ وہ رحمت اللہ ہم تک کیوں نہیں پہنچا ۔ کہیں وہ لاہور کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول میں تو نہیں چلا گیا۔
پھر دادا ڈاکٹر بنے اور اپنے ہر مہربان اور بہنوں اور بھائیوں کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح گھر میں رکھ کر پڑھاتے رہے۔
*پھر اللہ تعالی نے اس خاندان کو جو کبھی زمین میں دبا اور پسا ہوا تھا اپنی مہربانی سے نہ صرف اس خطے میں عزت و سربلندی سے نوازا بلکہ (بالفاظِ کتابِ زبور) اس چھوٹے سے پودے کو بڑا تناور شجر بنا دیا اور اس کی شاخوں کو سمندر پار کئی ملکوں تک پھیلا دیا۔۔۔ اب ہمیں اسی خدائے بزرگ و برتر کی شکر گزاری اور فرماں برداری کرنی چاہیے جس نے ہم پر اتنا کرم کیا۔*
آپ اب ان آیات کو اسی حوالے کو ذہن میں رکھ کرملاحظہ فرمائیے:
وَاذۡكُرُوۡۤا ( *اور یاد کرو* ) اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ ( *جب تم لوگ بہت تھوڑے سے تھے* ) مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ ( *زمین میں اتنے کمزور، دبے ہوئے اور پسے ہوئے تھے کہ* ) تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ ( *خائف رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اٹھا نہ لے جائیں* ) فَاٰوٰٮكُمۡ ( *پھر اللہ نے تمہیں سہارا دیا* ) وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ ( *اور اپنی مدد سے تمہاری دستگیری کی* ) وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ( *اور تمہیں ہر قسم کی عمدہ و اعلی چیزوں کا رزق عطا کیا* ) لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ( *تاکہ تم ہمارے شکر گزار بندے بن کے رہو، نافرمانی سے بچو اور ہماری نعمتوں کی قدر دانی کرو* ) يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ( *اے ایمان والو* ) لَا تَخُوۡنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ ( *اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو* ) وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ( *اور نہ اپنی امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کرو* ) وَاعۡلَمُوۡۤا ( *اور یہ جان رکھو* ) اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ ( *کہ بے شک تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں، امتحان ہیں یعنی ان کو امتحان ہی سمجھو* ) ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ( *اگر ان کو امتحان سمجھو گے اور خیانت نہیں کرو گے تو اللہ کے ہاں اس کی عظیم اجرت پاؤ گے* ) سورة الانفال 8 آیات 26 تا .28
Comments
Post a Comment