مشیت ، ہدایت اور مغفرت
مشیت ، ہدایت اور مغفرت
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے ہدایت دے ، جسے چاہے گمراہ کرے، جسے چاہے بخش دے ، جسے چاہے عذاب دے پھر کسی کا کیا دوش ؟ جب ہم تراجم میں پڑھتے ہیں”من یشآء“ (جس کو چاہتا ہے) تو سرسری طور پر ایک نوع کے فکری مغالطے میں مبتلا ہو کر یہ سمجھ بیٹھتے کہ اللہ تعالی (نعوذ باللہ) کسی اصول و ضابطے کے بغیر خوامخواہ ہم مجبوروں پر مختاری کر رہا ہے۔اس کے ہاں جنگل کا قانون رائج ہے اور ہم شاہی معاملات میں مداخلت کے مجاز نہیں اور مزاجِ شاہاں اسی کو سزاوار ہے کہ
گاہے بہ سلامے برنجند (کبھی تو صاحب سلامت کہنے پر غصے میں آگئے)
گاہے بہ دشنامے خلعت بخشند (کبھی گالیاں دیں تو خلعت سے نواز دیا)
کبھی ملک لوٹنے والوں کو اپنے گھر حاضری کی سعادت بخشی اور کہیں ملک بنانے والوں اور ملک کا خواب دیکھنے والوں کو اپنے در کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا
جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
مگر اللہ کے ہاں نہ دنیاوی بادشاہوں کی سی بے اصولی و بے قاعدگی ہے اور نہ جنگل کا قانون۔
اب دعا پر بھی غور فرمائیے کہ آپ آتش دان کے دہکتے شعلوں میں اپنا ہاتھ خود جھلسا رہے ہوں تو کیا ربنا وقنا عذاب النار (اے ہمارے پروردگار ہمیں آگ سے بچا لے) کے کلمات ادا کرنے سے آپ جلنے سے بچ جائیں گے ؟ آپ کوئی خطرناک زہر (مثلا گندم کی گولی یا سائیانائیڈ) اپنی رگوں میں انڈیل رہے ہوں اور بسم اللہِ الذی لا یضر مع اسمہ شئ ۔۔۔ (اللہ کے نام سے کہ جس کے نام کے سبب کوئی شے نقصان نہیں دیتی) کا ورد آپ کے لبوں پر ہو تو کیا آپ زہر کے مہلک اثرات سے بچ جائیں گے ؟
ایں خیال است و محال است و جنوں
اسی طرح آپ پیاسے ہیں ، پانی کا پیالہ آپ سے کچھ دور دھرا ہے۔ کوئی سبیل نہیں جو پانی آپ کے حلق میں لا انڈیلے۔ کیا وہاں دعائے استسقاء سے پانی کا برتن اڑ کر آپ کے پاس آ جائے گا ؟
اس کو قرآن نے یوں سمجھایا ہے:
كَبَاسِطِ كَفَّيۡهِ اِلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِـغِهٖؕ وَمَا دُعَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ (13:14)
جیسے کہ ایک شخص (اپنی جگہ بیٹھا محض) اپنے ہاتھ پانی کی جانب پھیلا رہا ہو کہ وہ پانی اس کے منہ تک جا پہنچے مگر اس طرح تو وہ پانی اس تک پہنچنے سے رہا بعینہ نہ ماننے والوں کی دعا بھی رائیگاں ہی جاتی ہے۔
یاد رکھیئے کہ مادی دنیا کے حوادث غارت گری سے پہلے مذہب و مسلک نہیں پوچھتے۔ وائرس ماننے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور نہ ماننے والوں کو بھی ۔ بجلی معبدوں پر بھی اسی طرح گرا کرتی ہے جیسے میخانوں پر۔
جب آپ مادی دنیا میں بے سروپا ، نامناسب، لایعنی، محیرالعقول ، غیرحقیقی و خلافِ منطق امور کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر اخلاقی ، نفسیاتی ، روحانی اور غیرمرئی امور میں بے تکی باتوں پر انحصار کیوں کرتے ہیں ؟
اللہ کے چاہنے کو جب ہم اپنےچاہنے پر قیاس کر لیتے ہیں تو وہیں فکری مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس طرح وجہ اللہ (اللہ کا چہرہ یا ذاتِ باری) ہمارے چہرے یا ہماری ذات کی مانند نہیں، جیسے یداللہ (اللہ کا ہاتھ) ہمارا ہاتھ نہیں بلکہ اس سے مراد دستِ قدرت ہے، جیسے کوئی بھی شے اللہ کی مثال نہیں بن سکتی کیونکہ لَيۡسَ كَمِثۡلِهٖ شَىۡءٌ (42:11) اس کے جیسی تو کوئی شے ہے ہی نہیں کہ تشبیہات و استعارات و مجازی مفاہیم سے کام چل سکتا۔ لہذا اللہ کا چاہنا بھی ہما شما و ہر کس و ناکس کا چاہنا نہیں بن سکتا۔ مگر ہم لوگ اللہ تعالی کو کبھی اپنے دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کر لیتے ہیں ، کبھی ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا بتا دیے ہیں حالانکہ کسی ایک آیت یا کسی ایک حدیث میں بھی ستر ماؤں سے زیادہ پیار والی کوئی بات ہے ہی نہیں لہذا
لَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰهِ الۡاَمۡثَالَؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (16:74)
تم لوگ اللہ تعالی کے لئے مثالیں نہ بیان کیا کرو، وہی تو اصل صاحبِ علم ہے جبکہ تم کچھ بھی تو نہیں جانتے۔
اللہ تعالی کون ہے ؟ اس کا طرزِ عمل کیا ہے؟ اور وہ کیا چاہتا ہے ؟ اس کا تعارف خود اللہ کی کتاب ہی کروائے گی اور ظاہر ہےکہ اس سے بہتر تعارف اور کروا بھی کون سکتا ہے کیونکہ وہ خود اللہ ہی کا بیان کردہ تعارف ہے۔ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيۡثًا (4:87) اللہ سے زیادہ حدیث (بات) کا سچا کون ہو سکتا ہے؟ وَمَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيۡلًا (4:122) اور اللہ سے زیادہ قول کا سچا کون ہو گا؟
قرآن اور عربی زبان سے ناواقفیت اور محض تراجم و تفاسیر پر اکتفاء کا یہ شاخسانہ ہے کہ ہم ما یرید (جو وہ ارادہ کرتا ہے) کا مطلب بھی "جو وہ چاہتا ہے " سمجھ لیتے ہیں ، اس کی مرضی کو بھی اس کا چاہنا قرار دیتے ہیں اور اس کی مشیت (ما یشاء) کو بھی اس کی چاہت کہتے ہیں۔ اگر ہر ایک کا ترجمہ چاہت ہی ہے تو پھر عربی زبان میں مرضی ، مشیت اور مراد کو مختلف سہ حرفی مادوں سے اخذ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
لغوی اعتبار سے مشیت شئ (شے یا چیز) سے ماخوذ ہے اور کوئی بھی شے خواہ محسوس ہو یا غیر محسوس کسی نہ کسی طرح اوزان و پیمان، لائحہءعمل ،اصول و احکام، قواعد و ضوابط اور اسباب و علل سے منسلک، معلوم، متعین اور مشروط ہوتی ہے۔ مشیت شے کی ایجاد کو کہتے ہیں جبکہ ارادہ محض طلب کا نام ہے جس کا قواعد و ضوابط سے مشروط ہونا لازم نہیں ۔ (بحوالہ لینز لیکسیکن، مفردات امام راغب، مصباح اللغات، مترادفات القرآن و لغات القرآن)
اس لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو مشیت کا مطلب ہے قاعدہ، قانون، طریقہ، ضابطہ وغیرہ۔ یعنی من یشا (جسے چاہے) کا اصل مفہوم من یشاء (جسے وہ اپنے اصول و ضوابط کے مطابق مناسب سمجھے)ـ یعنی اللہ تعالی نے کچھ اصول اور قواعد و ضوابط مقررفرما رکھے ہیں جن کو وہ نہیں توڑتا اور اس کی مشیت سےمراد اس کا قانون اور اس کا طریقہ ہے اس ضمن لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِيۡلًا (17:77) وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبۡدِيۡلًا (33:62) تم ہمارے(اللہ کے )طریقِ کار اور دستورالعمل میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔
مثلا اس کا طریقہ یہ ہے کہ
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡؕ (13:11)
یقینا اللہ تعالی ہر گز کبھی بھی لوگوں کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالیں۔
اسی طرح مصیبت کے ضمن میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ
وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ (42:30)
اور جو افتاد بھی تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے۔
اس بحث کے تناظر میں اب ذیل کی آیات کو دیکھئیے جن کا عرفِ عام میں مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ خدا بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس کے ہاں اصول و ضوابط اور قاعدہ قانون نام کی کوئی شے نہیں نہ کوئی معیار ہے وہ جسے چاہتا ہے بس یونہی بادشاہی سے نوازتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بس یونہی خواہ مخواہ بادشاہی چھین لیتا ہےـ کیا واقعی مطلب یہی برآمد ہوتا ہے ؟
اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ (اے ہمارے اللہ حکومت و اقتدار ہو یا اس سے وابستہ قوانین و قواعد سب کچھ شایاں توآپ ہی کو ہے)
تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ (آپ جسے اپنے قوانین و قواعد کے مطابق مناسب سمجھتے ہیں اس کو بادشاہی عطا کر دیتے ہیں)
وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡكَ مِمَّنۡ تَشَآءُ (اور انہی اصول و ضوابط کےمطابق جسے نامناسب سمجھتےہیں اس سے بادشاہی چھین لیتے ہیں)
یعنی حکومت و اقتدار آپ اپنے مقررہ قواعد و ضوابط کی مناسبت ہی سے عطا فرماتے ہیں۔(3:26)
مثلا بنی اسرآئیل کے اس اعتراض پر کہ
اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهُ الۡمُلۡكُ عَلَيۡنَا وَنَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡكِ مِنۡهُ وَلَمۡ يُؤۡتَ سَعَةً مِّنَ الۡمَالِؕ (بھلا ہم پر بادشاہی طالوت کو کیونکر دی جا رہی ہے جبکہ ہم اس کے مقابلے میں بادشاہی کے زیادہ حقدار ہیں ۔ اسے تو مالی اعتبار سے بھی کشائش نہیں ملی)ـــ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ بادشاہی تو اللہ کے قوانین ہی کے اس طرح تابع ہے کہ۔۔۔۔ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮهُ عَلَيۡکُمۡ (یقینا اللہ تعالی نے اسے تم پر چنا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ) زَادَهٗ بَسۡطَةً فِى الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِؕ (کہ اللہ نے علمی و جسمانی طور پر اسے بہت زیادہ استعداد عطا کی ہے) وَاللّٰهُ يُؤۡتِىۡ مُلۡکَهٗ مَنۡ يَّشَآءُ(اور یوں اللہ تعالی اپنی مملکت اپنی مشیت کے مطابق جسے مناسب سمجھتا ہے عطا کر دیتا ہے) (2:247)ـ
اگر آپ مندرجہ بالا آیات کا تقابلی جائزہ لیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ اللہ تعالی کی مشیت مملکت کے ضمن میں یہی ہے کہ اللہ تعالی جس میں مطلوبہ صلاحیت و استعداد پاتا ہے اسے بادشاہت اور عزت دے دیتا ہے اور جب یہ صلاحیت و استعداد ختم ہو جاتی ہے تو اس سے حکومت و اقتدار سے محروم ک دیا جاتا ہے۔
اب ذرا ان آیات پر غور کیجیئے۔ بادئ النظر میں تو یوں معلوم دے گا کہ ہم مجبورِ محض ہیں
چاہیں جو سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
وَمَا تَشَآءُوۡنَ (اور تم کچھ نہیں چاہو گے ) اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ (بجز اس کے کہ اللہ ہی چاہے) یعنی اللہ کے چاہے بنا تم کچھ چاہ ہی نہیں سکتےـ
مگر اب ان آیات کو مشیت کی بحث کے تناظر میں دیکھیئے
اِنَّ هٰذِهٖ تَذۡكِرَةٌ ۚ(یہ تو محض ایک یاددہانی ہے) فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيۡلًا (پس جو چاہے وہ اپنے رب کی راہ اختیار کر لے) وَمَا تَشَآءُوۡنَ (اور تم کچھ نہیں چاہو گے ) اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ (مگر یہ کہ اللہ اپنی مشیت کے مطابق جو مناسب سمجھے) (30-76:29)
اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ لِّلۡعٰلَمِيۡنَ (یہ تو سب جہانوں کے لئے ایک یاددہانی ہے) لِمَنۡ شَآءَ مِنۡكُمۡ اَنۡ يَّسۡتَقِيۡمَؕ (تاکہ تم میں سے جو چاہے وہ سیدھا ہو جائے) وَمَا تَشَآءُوۡنَ (اور تم چاہ نہیں سکتے) اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ (مگر یہ کہ اللہ بھی اپنی مشیت کے مطابق یہی مناسب سمجھے) (29-81:27)
مندرجہ بالا آیات میں انسان کی چاہت یہ ہے کہ وہ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيۡلًا ( اپنے رب کی راہ اختیار کر لے) یا اَنۡ يَّسۡتَقِيۡمَؕ (تاکہ وہ سیدھا ہو جائے) ۔ ان دو امور کے لئے اگر انسان چاہے تو اس کی یہ چاہت اسی صورت میں پوری ہو گی کہ جب وہ اس ضمن میں مشیتِ الہی کو بروئے کار لائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيۡلًا ( اپنے رب کی راہ پکڑنا) چاہتا ہو تو اس ضمن میں مشیتِ الہی یہ ہے کہ
الَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا (29:69) جو لوگ ہمارے لئے جدوجہد کرتے ہیں ہم لازما انہیں اپنے راستے دکھا دیتے ہیں۔
لہذا محض چاہنے سے کچھ نہیں ہو گا اس مشیتِ الہی پر کاربند ہو کر اللہ کے لئے جدوجہد کرنی ہو گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ضمن میں مشیتِ الہی یہ بھی ہے کہ الھوی (خواہشاتِ نفسانی) سے بچا جائے: لَا تَتَّبِعِ الۡهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (38:26) الھوی (خواہشاتِ نفسانی) کی پیروی نہ کر بصورتِ دیگر یہ تجھے اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گی۔ اسی طرح اگر کوئی چاہتا ہے کہ اَنۡ يَّسۡتَقِيۡمَؕ (تاکہ وہ سیدھا ہو جائے) تو اس کی اس خواہش کو اللہ تعالی کی مشیت کے مطابق ہونا پڑے گا جن میں سے ایک یہ ہے کہ مَنۡ يَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰهِ (جو اللہ سے جڑ گیا ، جس نے اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا ) فَقَدۡ هُدِىَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ (پس اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا گیا) (3:101)
اب معاملہ ہے ھدایت و ضلالت (گمراہی) کاـ جب ہم قرآن کے تراجم میں پڑھتے ہیں کہ
يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ (14:4) ; (16:93)
اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا
تو ہم سوچتے ہیں کہ جب گمراہ اسی نے کرنا ہے اور ہدایت اسی نے دینی ہے تو پھر ہمارا کیا قصور ہے ؟ حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ کہ ضلالت ہو یا ھدایت سب کچھ اسی کی مشیت کی مناسبت سے ہے۔ یعنی
يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ (14:4) ; (16:93)
وہ جس کو اپنی مشیت (قواعد و ضوابط) کے مطابق مناسب سمجھتا ہے راستے سے بھٹکا دیتا ہے اور جسے اپنی مشیت (قواعد و ضوابط) کے مطابق مناسب سمجھتا ہے ھدایت دے دیتا ہے۔
مثلا ھدایت کے ضمن میں اس کی مشیت (ضابطہ) یہ ہے کہ
قَدۡ جَآءَكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ نُوۡرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيۡنٌ (اللہ کی جانب سے تمہارے پاس روشنی آ چکی ہے اور ایک واضح کتاب بھی) يَّهۡدِىۡ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَهٗ (اس کے ذریعہ سے اللہ تعالی اسے ہدایت دیتا ہے کہ جو اللہ کی مرضی پر چلے) (16-5:15) يَهۡدِىۡۤ اِلَيۡهِ مَنۡ اَنَابَ (13:27) يَهۡدِىۡۤ اِلَيۡهِ مَنۡ يُّنِيۡبُ (42:13) اللہ اسی کو اپنی طرف ھدایت دیتا ہے جو رجوع کرتا ہے (مَنۡ اَنَابَ/ مَنۡ يُّنِيۡبُ)
اسی طرح ضلالت (گمراہی) کے ضمن میں اس کی مشیت (ضابطہ) یہ ہے کہ مَا يُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِيۡنَۙ (2:26) اس سے ماسوائے فاسقین (نافرمانوں) کے اور کوئی گمراہ نہیں ہوتا۔اللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَۚ (2:258) اللہ ظالم لوگوں کو ھدایت نہیں دیا کرتا۔اللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ (2:264) اللہ نہ ماننے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاسۡمَعُوۡا ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ (5:108) اور اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اچھی طرح سنو اور سمجھو (بصورتِ دیگر تم فاسق ہو) اور اللہ فاسق لوگوں کو ھدایت نہیں دیا کرتا۔ذٰ اَنَّهُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا عَلَى الۡاٰخِرَةِ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡكٰفِرِيۡنَ (16:107) چونکہ آخرت کے مقابلے میں ان نے دنیا کی زندگی کو چاہا ہے (یہی ان کا کفر ہے) اور یقینا اللہ ایسے کافر لوگوں کو ھدایت نہیں دیا کرتا۔ وَمَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰٮهُ بِغَيۡرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ (28:50) اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جس نے اللہ کی ھدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی، یقینا اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ (39:3) یقینا اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو بہت جھوٹا اور نہ ماننے والا ہو۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ كَذَّابٌ (40:28) اللہ کسی حد سے تجاوز کرنے والے بہت جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلۡمٍ (45:23) جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا الہ بنا رکھا ہو تو علم کے باوجود اللہ اسے گمراہ کر دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ اللہ کا ھدایت دینا یا گمراہ کرنا بھی اس کی مشیت (مخصوص قواعد وضوابط) کے تابع ہے اور اسی کے مطابق من یشاء (جسے وہ مناسب سمجھتا ہے) ھدایت دیتا ہے اور من یشاء (جسے وہ مناسب سمجھتا ہے) بھٹکا دیتا ہے۔
اسی طرح اس کی مشیتِ مغفرت و عذاب ہے یعنی وہ مخصوص قواعد و ضوابط ہیں جن کی روسے کوئی شخص مغفرت یا عذاب کا سزاوار ہوتا ہے۔ مگر ہم جب تراجم میں یہ پڑھتے ہیں کہ وہ جسے چاہے بخش دے (يَـغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ) اور جسے چاہے عذاب دے( يُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ ) تو ہم اس فکری مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جب مغفرت اور عذاب اس کی چاہت پر موقوف ہے تو ہمارا کیا دوش ہے؟
مگر اس کا مطلب کچھ اور ہی ہے:
اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ (جو کچھ بھی تمہارے نہاں خانہء باطن میں ہے خواہ تم اسے منصہء شہود پر لا ظاہر کرو یا یونہی اپنی ذات میں پوشیدہ رکھو) يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُؕ (اللہ اس پر تمہارا محاسبہ کر کے رہے گا) فَيَـغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ (پس جسے وہ اپنی مشیت یعنی قواعد و ضوابط کی رو سے مناسب سمجھے گا بخش دے گا) وَيُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ(اور جسے وہ اپنی مشیت یعنی قواعد و ضوابط کی رو سے مناسب سمجھے گا عذاب دے گا) وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ (اور اللہ ہی تو ہے جو ہر شے پر قادر ہے یعنی ہر شے کی قدر یعنی معیار و اوزان کا تعین کرنے والا ہے) (2:284) کیونکہ كُلُّ شَىۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ (13:8) ہر شے اس کے ہاں ایک مقدار کے ساتھ ہی متعین ہے۔
اسی طرح ایک اور آیت کے ضمن میں لوگوں کو تراجم پڑھ کر یہ مغالطہ ہو جاتا ہے کہ بجز شرک کے اللہ تعالی ہر گناہ کو یونہی بخش دے گا۔ وہ الگ بات ہے کہ شرک بہت جامع اور وسیع اصطلاح ہے حتی کہ مذکورہ بالا ایک آیت میں خواہش کو الہ (معبود) بنانے والے کا بھی ذکر ہے یعنی خواہش پرستی بھی شرک میں داخل ہے۔ اب اسی آیت کو ملاحظہ فرمائیے جس سے لوگ شرک کے سوا سب گناہوں کی معافی کا مفہوم اخذ کر بیٹھتے ہیں: (بلاشبہ شرک کی سنگینی اس قدر ہر گناہ سے بڑھ کر ہے کہ) اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ یقینا اللہ تعالی شرک کو توکسی صورت میں نہیں بخشے گا۔ (تو کیا باقی گناہ بخش دے گا ؟ ہر گز یونہی نہیں بخشے گا) وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ (4:48) اور اس سے کمتر جو بھی گناہ ہیں وہ بخش تو دے گا مگر جس کو وہ اپنی مشیت (قواعد و ضوابط) کے اعتبار سے مناسب سمجھے گا۔
جب مغفرت کے لئے اس کی مشیت (اصول و ضوابط) موجود ہیں توپھر مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ (39:53)
کہہ دیجیئے میرے ان بندوں سے جن نے اپنے آپ پر زیادتی کی ہے کہ اللہ کی رحمت (مواقعِ مغفرت) سے مایوس نہ ہوں (کیونکہ) اللہ تعالی تمام ذنوب کو بخش دیتا ہے (اپنے اصول و قواعد و ضوابطِ مغفرت کے مطابق)ـ
اور مغفرت کے ضمن میں یہ رحمت ہے کیا یہ بھی اللہ نے قرآن ہی سے واضح کر دیا ہے:
كَتَبَ رَبُّكُمۡ عَلٰى نَفۡسِهِ الرَّحۡمَةَ ۙ اَنَّهٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡكُمۡ سُوۡٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ وَاَصۡلَحَۙ فَاَنَّهٗ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ (6:54)
اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم (تو) کر لیا ہے ( مگر تفصیل اس اجمال کی یہ ہے ) کہ تم میں سے جس کسی نے بھی نادانی سے کسی برائی کا ارتکاب کر لیا ہے تو پھر اس کے بعد وہ تائب ہوا (لوٹا) اور اپنی اصلاح کر لی تو پھر (ان مراحل کے بعد ہی ) وہ بخشنے والا اور رحمت فرمانے والا ہے۔
الَّذِيۡنَ عَمِلُوا السُّوۡۤءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ وَاَصۡلَحُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنۡۢ بَعۡدِهَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ (16:119) جن لوگوں نے جہالت سے برائی کا ارتکاب کیا پھر اس کے بعد وہ باز آ گئے اور اپنی اصلاح کر لی بے شک تیرا رب ان تمام مراحل کے بعد ہی بخشنے والا اور رحمت فرمانے والا ہے۔
اِنِّىۡ لَـغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا ثُمَّ اهۡتَدٰى (20:82)
بے شک میں بہت زیادہ مغفرت فرمانے والا ہوں مگر انہی کی جو تائب ہوئے (باز آئے) اور پھر ماننے والے بنے اور ان نے ایسے صالحیت وصلاحیت والے اعمال کئے جو ان کے گزشتہ غلط کاموں کو درست کر دیں اور پھر وہ اس ھدایت پر ہی مستقل مزاجی سے کاربند اور قائم رہے۔
اللہ کے ہاں بخشش کا یہ قاعدہ نہیں کہ خوامخواہ بخش دیا یا خوامخواہ عذاب میں مبتلا کر دیا ۔ اس کے ہاں مغفرت بھی مشیت (قواعد و ضوابط) کے تحت ہے اور عذاب بھی۔
مثلا مغفرت کے بارے میں اس کے کچھ اصول و ضوابط یہ ہیں کہ
١۔ اتباعِ رسول ﷺ:
فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ (3:31) پس تم میری (نبی ﷺ) کی اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت بھی کرے گا اور تمہاری بخشش بھی کر دے گا۔
٢۔یادِ الہی اختیار کرنا::
٢۔ ترکِ معصیت (یعنی گناہ پر کاربند نہ رہنا):
وَالَّذِيۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِهِمۡ وَمَنۡ يَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰهُ ۖ وَلَمۡ يُصِرُّوۡا عَلٰى مَا فَعَلُوۡا (3:135 ) اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ( بیحیائی ان کا معمول تو نہیں ہوتا تاہم) اگر ان سے کوئی فحش حرکت ہو جائے یا اپنی ذات پر ظلم کر بیٹھیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پس اپنے ذنوب کی بخشش چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کے ذنوب کی بخشش کر بھی کون سکتا ہے ؟ اور ( اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ) جو کچھ یہ کر چکے اس پر کاربند نہیں رہتے ۔
٤۔ تقوی شعاری (پرہیزگاری) و قولِ سدید اور اللہ اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری:
اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡؕ (8:29) اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کر لو تو وہ تمہارے لئے فرقان بنا دے گا، تمہاری بدحالیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔
اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا يُّصۡلِحۡ لَـكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا (71-33:70)
اللہ کا تقوی اختیار کرو اور سیدھی دو ٹوک بات کہو ۔ یوں اللہ تمہارے اعمال کو سنوار دے گا اور تمہارے ذنوب کو بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوۡهُ وَاَطِيۡعُوۡنِۙ يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ (4-71:3)
بندگی اختیار کر لو اللہ کی اور اس کے تقوی شعار ہو جاؤ اور میری (پیمبر کی) اطاعت کرو تو وہ تمہارے ذنوب بخش دے گا
٥۔ دوسروں کے لئے عفو و درگزر کی روش اختیار کرنا:
وَلۡيَـعۡفُوۡا وَلۡيَـصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ (24:22)
اور چاہیے کہ عفو و درگزر اختیار کریں کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ بھی تمہیں بخش دے۔
٦ـ ہجرت، جدوجہد اور صبر
تُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَۙ يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡ (12-61:11) تم جو جدوجہد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان کے ساتھ تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اس طرح اللہ تمہارے ذنوب کو بخش دے گا۔
هَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰهَدُوۡا وَصَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنۡۢ بَعۡدِهَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ (16:110)
جن نے ستائے جانے کے بعد ہجرت اختیار کی، پھر جدوجہد کی اور صبر کیا ان تمام مراحل کے بعد تیرا رب مغفرت اور رحمت فرمانے والا ہے۔
٧ـ فاسق (نافرمان) نہ ہو
لَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَهُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ (63:6)
اللہ ہر گز انہیں نہیں بخشے گا کیونکہ اللہ تعالی فاسقوں (نافرمانوں) کو ھدایت نہیں دیتا.
٨ـ راہ خدا میں مال خرچ کرنا
اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡؕ (64:17)
اگر تم اللہ کے حضور قرض دو بہت ہی عمدہ تو ایک تو وہ اسے تمہارے لئے ہی دوگنا کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔
٩۔ مندرجہ ذیل خصوصیات کے حاملین مغفرت کے حقدار ہیں:
بے شک سرِ تسلیم خم کرنے والے ،فرمانبردار، ماننے والے، سچے، صبر کرنے والے، خشوع اختیار کرنے والے، صدقہ دینے والے، روزہ دار ،پاکداماں و عفت شعار اور کثرت سے یادِ الہی کرنے والے مرد و زن ۔۔ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً (33:35) اللہ نے ان کے لئے مغفرت رکھی ہے۔
١٠ـ ایمان و اتباع
مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ (36:11) جو الذکر (یعنی قرآن کے احکام وتعلیمات ) کا اتباع کرے اور غیب میں الرحمان کی خشیت اختیار کر لے اس کو مغفرت کی بشارت دیجیئے۔
فرشتوں کی دعا بھی یہی مذکور ہے کہ
فَاغۡفِرۡ لِلَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاتَّبَعُوۡا سَبِيۡلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِ (40:7)
پس بخش دیجیئے ان کو کہ جو تائب ہو گئے اور ان نے آپ کی راہ اختیار کر لی۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں اب آئیے عذابِ الہی کی طرف ۔۔۔ وہ بھی یونہی نہیں ملتا بلکہ وہ بھی یعذب من یشاء (جس کو اللہ اپنی مشیت کے اعتبار سے عذاب کا مستحق سمجھتا ہے) ہے مثلا مشیتِ الہی کا ایک اہم اصولِ عذاب یہ ہے کہ جو لوگ شکر گزاری (اللہ کی نعمتوں کا اس کے حکموں کے مطابق استعمال) کریں اور واقعی ماننے والے ہوں ان کو عذاب نہیں دیا جا سکتا:
مَا يَفۡعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمۡ اِنۡ شَكَرۡتُمۡ وَاٰمَنۡتُمۡ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيۡمًا (4:147) خدا کو تمہارے عذاب سے کیا لینا اگر تم واقعی شکرگزاری اور ایمان کی روش اختیار کرو۔
وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوۡدَهٗ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَالِدًا فِيۡهَا ۖ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ (4:14)
اور جو بھی اللہ اور رسول ﷺ کی معصیت (نافرمانی) اختیار کرے گا اور اس کی حدود سے تجاوز کرے گا اللہ اسے آگ میں ہمیشہ رہنے کے لئے داخل کرے گا اور اس کے لئے توہین آمیز عذاب ہے۔
فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡسِبُوۡنَ (7:39)
پس چکھو عذاب کو جو نتیجہ ہے خود تمہارے اپنے کرتوت کا۔
ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡخُـلۡدِۚ هَلۡ تُجۡزَوۡنَ اِلَّا بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡسِبُوۡنَ (10:52)
ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ تم بھگت رہے ہو وہی کچھ جو تم کمایا کرتے تھے۔
اِلَّا تَـنۡفِرُوۡا يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۙ (9:39)
اگر تم (اللہ کی راہ میں ) نہ نکلو گے تو خدا تمہیں دردناک عذاب دے گا ـ
اس جملہ بحث کا حآصل یہ ہے کہ من یشآء کا مطلب جس کو وہ کسی ضابطے یا قاعدے کے بغیر چاہے نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے کہ اس کے ہاں ہدایت ہو یا ضلالت (گمراہی) ، مغفرت ہو یا عذاب ہر ایک کے لئے ایک قاعدہ و ضابطہ ہے جسے مشیت کہتے ہیں۔ جو کچھ بھی وہ چاہتا ہے وہ اسی مشیت کے حوالے سے جسے مناسب سمجھتا ہے ہدایت دیتا ہے جسے مناسب سمجھتا ہے انہی قواعد و ضوابط کے تحت راہ سے بے راہ کر دیتا ہے۔ مغفرت ہو یا عذاب وہ بھی اسی دائرہء مشیت میں آتے ہیں۔
مزید وضاحت کے لئے ذیل کا مضمون کسی اور کا تحریر کردہ ہے جو برادرم ڈاکٹر عابد حسین نے ارسال فرمایا ہے۔ اس کے مندرجات سے معلوم دیتا ہے کہ اس کے بیشتر اقتباسات علامہ پرویز ؒ کی کتب بالخصوص لغات القرآن سے ماخوذ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
من یشاء
’’من یشاء‘‘ قرآن کریم میں اکثر وبیشتر مقامات میں آیا ہے۔ ان مقامات کا صحیح مفہوم سامنے نہ ہونے سے انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ا نسان مجبور محض ہے۔ کرتا سب کچھ خدا ہی ہے۔ پھر خدا بھی جو کچھ کرتا ہے کسی قاعدے اور قانون کے مطابق نہیں کرتا بلکہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس مفہوم سے قرآنِ کریم کی تعلیم کی ساری عمارت نیچے آگرتی ہے۔ لہٰذا‘ ان آیات کا صحیح مفہوم واضح ہونا ضروری ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے۔۔۔ ولکن اللہ یھدی من یشاء۔۔۔ (28:56) اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ۔ ’’اللہ جسے چاہے اُسے ہدایت دیتا ہے‘‘۔ یعنی صحیح راستے پر وہی چل سکتا ہے جس کے متعلق خدا چاہے کہ وہ صحیح راستے پر چلے۔ اگر کوئی شخص غلط راستے پر چلتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا چاہتا ہی نہیں کہ وہ صحیح راستے پر چلے۔ لیکن قرآن کریم میں متعدد مقامات میں اس قسم کی آیات موجود ہیں کہ قل الحق من ربکم۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر۔۔۔ (18:29) حق تمہارے رب کی طرف سے آگیا۔ سو جس کا جی چاہے اس پر ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے اس سے انکار کردے۔ اس اس آیت کی روشنی میںآیت (28:56) کا مطلب واضح ہوجاتا ہے۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اسے ہدایت دیتا ہے جو خود ہدایت لینا چاہے۔ (من یشاء۔۔۔ جو شخص چاہے وہ ہدایت حاصل کر سکتا ہے)۔ اس کے لئے خدا ہی نے ایک قانون مقرر کر رکھا ہے۔ اور وہ قانون یہ ہے کہ انسان اپنی عقل وفکر سے کام لے کر قرآنِ کریم پر غوروفکر کرے۔ اس قسم کی آیات میں من یشاء کا فاعل انسان ہے۔
جو آیات ایسی ہیں جن میں فاعل خدا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا کے قانون کا تقاضا یہ ہے ۔ یہ قانون اُن تینوں گوشوں میں سے (جن کا ذکر پہلے آچکا ہے) جس گوشے سے متعلق ہو گا اس کے مطابق اس کے معنی لئے جائینگے۔ ان تصریحات کی روشنی میں ان آیات کا مفہوم متعین ہو گا جن میں من یشاء یا اس قسم کے اور الفاظ آئے ہیں۔
(1) وحی خدا کی مشیت سے ملتی ہے ۔ اس میں انسان کے کسب وہنر کو دخل نہیں۔(2:90) ۔ (2:105) ۔
(2) بالحکمۃ مشیت کے مطابق ملتی ہے۔ (2:269) ۔اگر الحکمۃ سے مراد وحی خداوندی ہے تواس میں انسان کی سعی وکاوش کا دخل نہیں ہوتا۔ اگر اس سے مراد عام بصیرت ہے تو اسے جو شخ چاہے حاصل کر سکتا ہے۔
(3) نبوت کو خدا کا فضل اور رحمت کہا گیا ہے ۔ وہ اس کی مشیت سے ملتی تھی۔ (3:72-73) ۔ (3:178) ۔ (14:11) ۔ (16:2) ۔ (40:15) ۔ (62:4)
ہدایت وگمراہی
(1) جو دہایت لینا چاہتا ہے ‘ اللہ اسے ہدایت دے دیتا ہے۔ اس میں جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔ (2:142)
(2) خدا قرآنی روشنی سے راستہ دکھاتا ہے اُسے جو ہدایت لینا چاہے۔ (24:35) ۔ (24:46)
(3) انبیاء کو اس لئے بھیجا گیا کہ جو ہدایت حاصل کرنا چاہے اسے ہدیات مل سکے۔ (2:213) ۔ (6:89) ۔ (14:4) ۔
(24:46) ۔ (39:33) ۔ (62:3-4)
(4) رسولؐ اللہ سے کہا کہ آپ جسے چاہیں اسے راہِ راست پر نہیں لا سکتے۔جو شخص خود صحیح راستے پر آنا چاہے اسے یہ راستہ مل سکتا ہے۔ (2:272) ۔(28:56) ۔ (35:8)
(5) تکذیب آیات سے لوگ گونگے بہرے ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ہدایت نہیں مل سکتی۔ یہ اسی کو مل سکتی ہے جو اسے حاصل کرنا چاہے۔ (6:39)
(6) خدا‘ دارالسلام کی طرف دعوت دیتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے اس کا راستہ دکھا دیتا ہے۔ (10:25)
(7) جو گمراہ رہنا چاہتا ہے وہ گمراہ رہتا ہے۔ جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت مل جاتی ہے۔ (13:27) ۔ (42:13)
(8) خدا نے انسان کو مجبور پیدا نہیں کیا۔ صاحب اختیار پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے لئے صحیح یا غلط راستہ اختیار کر لے۔ (2:256) ۔ (16:93) ۔ (18:29) ۔ (25:57) ۔ (42:8) ۔ (73:19) ۔ (76:3) ۔ (78:39) ۔ (80:11-12) ۔ (9:10)
(9) جو سننا چاہے وہی سن سکتا ہے ۔ مروہ کیا سنے گا۔ (35:22-23)
(10) ہدایت اور ضلالت قرآن پر غور کرنے سے اور نہ کرنے سے ملتی ہے۔ (74:31)
(11) جس کا بر اکام اسے اچھا بن کر دکھائی دے‘ وہ راہِ راست پرکیسے آسکتا ہے۔سیدھی راہ اسے ملتی ہے جو اس ذہنیت کو بدل لے۔ (35:8)
(12) جو سننا چاہے اسی کو سننایا جا سکتا ہے۔ (35:19-22)
(13) جو شخص چاہے اپنے رب کی پناہ میں آسکتا ہے۔ (78:39)
(14) خدا اس کی طرف رجوع کرتا ہے جو چاہتا ہے کہ وہ اس کی طرف رجوع کرے۔ (9:27)
(15) ہدایت خدا کی رحمت ہے۔ جو چاہے وہ اسے حاصل کر سکتا ہے۔ (76:31)
(16) خدا کے قانونِ مشیت کے مطابق ہدایت اورگمراہی ملتی ہے۔ (7:155)
رزق
(1) جو رزق حاصل کرنا چاہتا ہے‘ اُسے اللہ بغیر حساب رزق دہتا ہے۔ یعنی اس کے اپنے اندازے سے بھی زیادہ۔ (2:211) ۔ (3:26) ۔ (24:38) ۔ (24:19)
(2) حضرت مریم کو ہیکل میں جو کچھ لوگ دے جاتے تھے۔ اس سلسلہ میں یہی کہا۔ (3:36)
(3) رزق کی بسط وکشاد خدا کے قانون کے مطابق ہوتی ہے۔ (13:26) ۔ جو اس کے قوانین سے اعراض برتتا ہے اس کی معیشت تنگ ہوجاتی ہے۔ (13:26) ۔ (17:30) ۔ (20:124) ۔ (28:82) ۔ (29:62) ۔ (30:37) ۔ (34:36) ۔ (34:39) ۔ (39:53) ۔(42:12)
(4) جو کچھ فی سبیل اللہ خرچ کیا جائے اس کے بدلے میں کئی گناہ ملتا ہے ۔ جو لینا چاہے لے لے۔ (2:261)
(5) اگر بستیوں والے ایمان وتقویٰ اختیار کرتے تو ان پر زمین وآسمان کی برکات کے دروازے کھل جاتے ۔ (7:96)
تزکیہ نفس
(1) یونہی اپنے آپ کو مزکی نہ کہو۔ تزکیہ نفس (انسانی ذات کی نشوونما) اس کی ہوتی ہے جو خدا کے قوانین کے مطابق ایسا چاہے۔ (4:49) ۔ (24:21)
اقتدار وحکومت
(1) پہلے کہا کہ حضرت طالوت کو ان کی جسمانی اور علمی قوت کی بنا پر اقتدار دیا۔ اور اس کے بعد ہے کہ واللّٰہ یوتی ملکہ من یشاء۔۔۔ (2:247) یہاں سے واضح ہے کہ جو انسان اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرلے‘ اسے قانونِ خداوندی کے مطابق اقتدار مل سکتا ہے۔
(2) ملک اللہ کا ہے ۔ جو اسے لیناچاہے وہ اپنے قانون کے مطابق اسے دیدیتا ہے۔ (7:128) وہ قانون یہ ہے کہ اس کے لئے صلاحیت پیدا کرو۔ (21:105)
عذاب ومغفرت۔ جنت
(1) تباہی سے حفاظت یا بربادی‘ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ جو جیسا چاہے ویسا ہی کچھ اُسے مل جائے گا۔ (2:284) ۔ (3:128) ۔ (5:18) ۔(5:40) ۔ (48:14) ۔ (29:21)
(2) جنت خدا کا فصل ہے۔ جو اسے لینا چاہے اسے مل سکتی ہے۔ (57:21)
(3) مصیبت اور راحت‘ حتیٰ کہ حوادثِ ارضی وسماوی سے تباہی‘ اس کے قانون کے مطابق ملتی ہے ۔ جو لینا چاہے اسے مل جاتی ہے۔ (10:107) ۔ (13:13) ۔ (24:43) ۔ (30:48)
(4) ’’شفاعت‘‘ کی اجازت خدا کی مشیت سے ملتی ہے۔ (53:26) ۔ ] اس کے لئے عنوان شفاعتؔ دیکھئے[
(5) شرک کی تباہی سے حفاظت نہیں مل سکتی۔ اس کے علاوہ ‘ جو چاہے کہ اسے مغفرت مل جائے وہ اُسے حاصل کر سکتا ہے۔ (4:48)
تائید ونصرتِ خداوندی
(1) جو خدا کی تائید ونصرت چاہے وہ اس کے لئے قانونِ خداوندی کے مطابق کوشش کرے۔ (3:12) ۔ (30:5)
(2) جو چاہے کہ خدا اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (9:15;27)
(3) فتح ونصرت خدا کی رحمت ہے۔ جو چاہے اس میں داخل ہوجائے۔ (48:25)
مومنین کی خصوصیات
جو حاصل کرنا چاہے اسے مل سکتی ہیں۔ (5:54) ۔ (57:29)
اولاد
خدا کے قانونِ طبیعی کے مطابق ملتی ہے۔ (42:49-50)
متفرقات
نفخ صور کے وقت‘ وہ خوف سے بچے گا جس نے اپنے آپ کو قانونِ مشیت کے مطابق رکھ اہو گا۔ ( اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰہ۔۔۔ 27:87 )۔ یا جس کے متعلق خدا کے قانونِ مشیت کا تقاضا ہو گا۔
ReplyDeleteجَزَاكَ ٱللَّٰهُ خَيْرًا