کلامِ بے فیضؔ: فیض سے منسوب ایک نظم کا تنقیدی جائزہ
کلامِ بے فیضؔ: فیض سے منسوب ایک نظم کا تنقیدی
جائزہ
ـاز ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ۔۔۔۔۔گوجرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دیس میں آٹے چینی کا
بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حلق تک جا پہنچے
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ فیض احمد فیض سے جن نے اکتسابِ فیض نہ کیا ہو یا اس کے نسخہ ہائے وفا سے وفا نہ کی ہو ان کے لئے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ ہر کس و ناکس وہما شما کے کلام کو کلامِ فیض بنا کر پیش کردیں یا اس کا ابلاغ کریں تاہم فیض یافتہ احباب پر یہ سب کچھ گراں گزرتا ہے۔
زیرِ نظر نظم پر تبصرہ سے پہلے تمہیدا عرض ہے کہ یہ نظم فیض سے زیادہ کسی مذہبی جماعت کے شاعر کی معلوم دیتی ہے کیونکہ فیض جیسے اشتراکی
(Socialist) و اشتمالی (communist)
رجحانات کے حامل شاعر سے یہ بعید ہے کہ وہ نظامِ زروسیم کے مکمل خاتمہ کی بجائے صرف آٹے چینی کے بحران پر نظمیں لکھے۔ فیض چور کو نہیں بلکہ چور کی اس ماں کو مارنا چاہتا ہے جو اس نوع کے چوروں کو جنم دیتی ہے۔
گو کے ذیل میں درج شعر بھی فیض کا نہیں ہے مگر اس کی ایک مشہور غزل (رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام) ہی کی زمین میں ہے اور فیض کے مندرجہ بالا نکتہء نظر سے زیادہ مناسبت کا حامل ہے کہ
ہم بدلنا چاہتے تھے نظم مے خانہ تمام
آپ نے بدلا ہے لیکن صرف مے خانے کا نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم اس نظم کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ جو فیض کے نام سے موسوم ہو کر ذرائع ابلاغ پر محوِ گردش ہے۔
جس دیس میں آٹے چینی کا
بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حلق تک جا پہنچے
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ فیض کو الگ الگ بحرانوں سے بحث ہی نہیں کہ کبھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرتا پھرےاورکبھی بجلی پانی کے نرخ ناموں پر چیں بہ جبیں ہو بلکہ وہ تو بحران پیدا کرنے والے نظامِ زر ہی کا مکمل خاتمہ چاہتا پے۔ مزید برآں اس نظم کے اصل خالق کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ”فلک” اور "حلق" کے قوافی مختلف ہیں اور فیض کی کسی ایک نظم یا غزل میں بھی یہ شعری سقم موجود نہیں۔ ایسا معلوم دیتا ہے کہ اس نظم کا اصل خالق شعری محاسن و اسالیب ہی سے ناواقف ہے ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ فیض تو قوافی کا اس قدر لحاظ رکھتا تھا کہ اس نے محض رات کے ساتھ قوافی کی درستگی کو ہاتھ کی ھ ہی اڑا کر ہاتھ کو ہات بنا دیا (چہ جائیکہ وہ متذکرہ بالا مثال میں ق اور ک کے فرق کو قبول کر لیتا)ـ
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہاتھ میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
اب ذیل کے شعر کو دیکھیئے:
جس دیس میں دولت شرفاء سے
نا جائز کام کراتی ہو
اگر اس شعر میں ر پر جزم کے ساتھ اور الف ممدودہ کے بغیر شُرْفا پڑھا جائے تو مصرعِ اول بحور و اوزان پر پورا اترتا ہے مگر یہ کلام کہنے والے کو معلوم ہی نہیں کہ اصل شُرَفَآء کے ہاں نہ ر پر جزم ہوتی ہے اور نہ الف غیرممدودہ ۔ چلیئے کہنے کو ہم شُرْفا کو قبول کر لیتے ہیں مگر پھر بھی مصرعِ ثانی و مصرعِ اول کے مابین بحور و اوزان کا فرق واضح ہے۔
اب ذیل کے مصرعوں پر غور کریں:
سوال اٹھانا واجب ہے
سولی پہ چڑھانا واجب ہے
کہاں "سوال اٹھانا" اور کہاں "سولی پہ چڑھانا"
بچشمِ عروض یہ سب کچھ بالکل نہیں جچتا ۔
Comments
Post a Comment