فی سبیل اللہ فساد تحریر ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ *وَالۡبَغۡىِۚ* يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞
یقینا اللہ امر کرتا ہے عدل و احسان (بہترین سلوک) اور عزیز و اقارب پر نوازشات کا اور روکتا ہے فحشآء (حدود شکنی) و منکر (ناشائستگی ) و بغی (بغاوت، سرکشی) سے۔
{سورۃ نمبر 16 النحل۔آیت نمبر 90)
کسی پیغمبر علیہ السلام یا اس کے کسی ساتھی نے کبھی بھی کسی حکمران سے بغاوت نہیں کی بلکہ دین کی اصل تعلیم صبر ہے یعنی تحمل و برداشت سے اپنے مؤقف اور نصب العین پر مستقل مزاجی سے کاربند رہنا۔
فرعون جیسے حکمران کے لئے بھی موسی و ہارون سے فرمایا گیا:
اِذۡهَبَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۞
فَقُوۡلَا لَهٗ قَوۡلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوۡ يَخۡشٰى ۞
(سورۃ نمبر 20 طہ ۔ آیت نمبر 43-44)
تم دونوں جاؤ فرعون کی طرف کہ وہ سرکش ہے پس تم دونوں اس سے بہت ہی نرم پیرائے میں بات کرنا شاید کہ وہ سمجھ جائے یا خشیت (خوفِ خدا) اختیار کر لے۔
فرعون نے جب بنی اسرآئیل کے بچوں کا قتل اور دیگر مظالم شروع کئے تب بھی موسی علیہ السلام نے نظامِ مصر کو درہم برہم کرنے اور جنگ آزمائی کی بجائے بنی اسرآئیل سے یہ کہا کہ
اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا ۚ اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰهِ ۙ يُوۡرِثُهَا مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ (سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 128)
اللہ سے مدد طلب کرواور صبر اختیار کر لو ۔۔۔ دھرتی تو صرف اللہ ہی کی ہے وہ اس کا وارث اپنی مشیت کے مطابق ہی (جسے مناسب سمجھتا ہے) اپنے بندوں میں سے بنا دیتا ہے جبکہ بہتر انجامِ کار تو متقین ہی کا ہے۔
اسی طرح موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے جب شکوہ و فریاد کی کہ آپ ہی نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو تخت و تاج اور مال و اسباب و وسائل سے نوازا ہے جبکہ وہ ہم پر ہر طرح کے مظالم روا رکھے ہوئے ہے تو اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہو اور بغاوت کرکے اسے درہم برہم کر دو۔۔۔۔
قَالَ مُوۡسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَيۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَمَلَاَهٗ زِيۡنَةً وَّاَمۡوَالًا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ
اور موسی نے عرض کی کہ اے ہمارے رب آپ ہی نے فرعون اور اس کے مصاحب کو اس دنیاوی زندگی میں زینت اور اموال سے نوازا ہے
رَبَّنَا لِيُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِكَۚ
اے ہمارے رب کیا اس لئے کہ وہ تیری راہ سے بے راہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔
قَالَ قَدۡ اُجِيۡبَتۡ دَّعۡوَتُكُمَا فَاسۡتَقِيۡمَا وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِيۡلَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ
اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم دونوں کی پکار کو قبول کر لیا گیا ہے اب اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی استقامت اختیار کرو اور نادانوں کی راہ اختیار نہ کرو۔
(سورۃ نمبر 10 يونس ـآیت نمبر 88-89)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے لئے خروج (حکمران کے خلاف بغاوت) کی شرائط جو کتاب و سنت کی روشنی میں فقہاء نے مقرر کی ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔۔۔ ان کے خلاف کوئی بھی خروج غیرشرعی ہے اور مبنی بر معصیت ہے:
١۔ حکمران اعلانیہ کہ دے کہ وہ کفر کو اختیار کر کے کتاب و سنت کو ترک کر رہا ہے۔
٢۔ خروج کے قائد پر اجماعِ کامل ہو یعنی قوم کی انتہائی بھاری اکثریت اس کے ساتھ ہو جیسے قائداعظم پر اجماع ہوا تھا۔
٣ـ خروج کرنے والا جہاں رہ رہا ہے وہاں نظام میں خلل ڈالنے کی بجائے اپنے حامیوں سے بیعت لے کر ان کے ہمراہ وہاں سے نکل کر کسی آزاد علاقہ کی جانب ہجرت اختیار کرے اور وہاں وہ اپنی حکومت دین کے صحیح اصول و احکام یعنی کتاب و سنت کے مطابق قائم کرکے دکھائے۔
٣ـ اس کے بعد اگر غلط نظام والی حکومت اس سے خود جنگ چھیڑے تو وہ غلط نظام والی حکومت کو بدلنے کے لئے اعلانِ قتال کرے کیونکہ اللہ تعالی لڑنے کی اجازت صرف ان سے دیتا ہے جو خود آمادہء پیکار ہوں۔ خواہ مخواہ جنگ چھیڑ کر دنیا کو مبتلائے عذاب کرنا نہ پیغمبروں کا شیوہ رہا ہے نہ ان کے ساتھیوں کا۔۔۔ یہ سب کچھ بعد کےادوار کی کارستانیاں ہیں۔
قَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ (سورۃ نمبر 2 البقرةـآیت نمبر 190 )
اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو خود تم سے لڑیں اور تعدی (حد سے تجاوز ) نہ کرو کہ اللہ تعالی کو تعدی کرنے والے ناپسند ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مندرجہ بالا شرائط میں ہجرت کی شرط زمینِ خدا کی وسعت سے مشروط ہے یعنی جب دنیا بھر میں کہیں بھی نقل و حرکت یا آباد ہونے کی آزادی ہو
قَالُوۡا كُنَّا مُسۡتَضۡعَفِيۡنَ فِىۡ الۡاَرۡضِؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَكُنۡ اَرۡضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوۡا فِيۡهَاؕ (4:97)
ان نے کہا کہ ہم زمین میں دبے پسے ہوئے کمزورلوگ تھے۔ ان سے موت کے فرشتوں نے کہا کہ کیا تم نے اللہ کی دھرتی کو وسیع نہ پایا کہ اس میں ہجرت اختیار کر لیتے۔
مندرجہ بالا آیت سے بھی یہی ثابت ہے کہ مجبور و مظلوم و مقہور لوگوں کو بھی بغاوت کی نہیں بلکہ ہجرت کی رخصت ہے اور ہجرت بھی زمینِ خدا کی وسعت سے مشروط ہے۔
جہاں زمین پر بسنے والے انسانوں نے اپنے اپنے ملک بنا کر زمینِ خدا کی وسعت کو ختم کردیا ہو اور لکیریں کھینچ کر آبادی کو ویزوں ، پاسپورٹوں اور ڈومیسائیلوں میں خود محدود کر دیا ہو بلکہ اقوامِ متحدہ میں بیٹھ کر سرمایہ داروں نے اس خلافِ فطرت عمل کو قانونی جواز دے دیا ہو وہاں نہ ہجرت ممکن رہی ہے نہ خروج کیونکہ فساد کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا۔
لَا تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِهَا وَادۡعُوۡهُ خَوۡفًا وَّطَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ (7:56)
زمین میں فساد برپا نہ کرو بعد اس کےکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو (کوئی قانون و ضابطہ اور دستورالعمل رائج ہو چکا ہو) اور تمہارا کام یہی ہا کہ اندیشے اور آرزؤئیں لے کر اللہ تعالی کو پکارتے رہو یقینا اللہ کی رحمت محسنین ہی سے قریب ہے۔
لَا تَبۡغِ الۡـفَسَادَ فِى الۡاَرۡضِؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ (28:77)
زمین میں فساد نہ چاہ یقینا اللہ تعالی فسادیوں کو پسند ہی نہیں کرتا۔
اگر کچھ ہمیں کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے کرہء ارضی کو دوبارہ وسعت دینا ہو گی۔ حکومتیں بےشک قائم رہیں مگر عام لوگوں کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی نہ ہو وہ جہاں چاہیں نقلِ مکانی کریں اور جہاں چاہیں آباد ہوں۔
اس کے لئے سب سے پہلے محدودیت کی خلافِ فطرت سوچوں کو بدلنا ہو گا جس نے 1920 سے یعنی سو برس سے دنیا کو لکیریں کھینچ کر ویزوں ، پاسپورٹوں اور ڈومیسائیلوں
میں محدود ہی نہیں بلکہ مقید کر دیا ہے۔ ہجرت اور قتال کی بات تو بعد میں ہو گی۔
سچ کہا تھا پرویز نے کہ
قوموموں کی تعمیر نہ ہنگاموں سے ہوتی ہے اور نہ تعزیرات سے۔ قوموں کی تعمیر فکر کی تبدیلی سے ہوتی ہے۔
قوموں کی تعمیر فکر سے ہوتی ہے۔
Comments
Post a Comment