ارطغرل کی حقیقت


پروفیسر ڈاکٹر فراز انجم ( پی ایچ ڈی ، شعبہ تاریخ 
جامعہ پنجاب لاہور ) کو داد دینی چاہئیے کہ آپ نے قوم کی جزباتیت،اندھی عقیدت اور  روایت پرستی کے ناسور پر اپنی تاریخی تحقیقات کا نشتر چلایا ہے ۔ آپ کے مطابق تاریخ کا ارطغرل تو مسلمان بھی نہیں تھا  (اور اگر مسلمان تھا بھی تو صلیبیوں اور منگولوں کےخلاف جہاد کی وہ ساری تفصیلات جوڈرامہ کی زیب و زینت ہیں، تاریخی شواہد سےثابت نہیں )ـ ڈرامہ آپ کو پسند ہے تو اسے محض افسانہ سمجھیئے ‏لیکن خدارا اسے اسلام کا ڈرامہ (مذاق) نہ رچائیے نیز اس ڈرامے کے اداکاروں کو ولی اللہ یا نجات دہندہ سمجھ کر اپنی عقیدت کی بھینٹ نہ چڑھائیے کیونکہ عمومی طور پر اداکار یا فنکار دین و مذہب سے عاری اوباش و بدمعاش و بدکردار اور اکثر بدکار ہی ہوتے ہیں
الا الذین تابوا و اٰمنوا و عملوا الصالحات الذین یجتنبون کبائرالاثم والفواحش ما ظھر منھا و ما بطن و لم یصروا علی ما فعلوا ویذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبہم
 سوائے ان لوگوں کے جو  باز آئے اور واقعتا صاحبان ایمان  ہوئے اور ان نے صالح اعمال اختیار کئے یعنی وہ لوگ جن نے کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا اور فواحش سے  بھی اور اپنی بداعمالیوں کو جاری نہ رکھا اور ہمہ وقت و ہمہ حال اللہ کے دھیان میں لگے رہے۔  
آپ کے مطابق مندرجہ ذیل  2 مستند کتابوں کی شہادت یہ ثابت کرنے کے لیےکافی ہے کہ "ڈرامے کے ‏ارطغرل کا تاریخ کے ارطغرل سےکوئی تعلق نہیں"
1۔Cambridge History of Turkey جو ترکی کی تاریخ پر چار ضخیم جلدوں پر مشتمل  ایک بڑا علمی کام ہے ۔اس کے مدووین میں ترکانِ عثمانی کی تاریخ پر سند پروفیسر ثریا فاروقی اور دیگر ترک مؤرخین شامل تھے ۔اس میں ارطغرل کانام صرف ایک جگہ مذکورہے اور ان کے نزدیک ارطغرل کے بارے میں یہ کچھ  بھی پتہ نہیں اور اس کی موجودگی کا پتہ محض اسکے بیٹے عثمان کےایک سکے سےچلتا ہے۔ 
2۔ "دولت ِ عثمانیہ”  از ڈاکٹر محمد عزیر (دیباچہ از سید سلیمان ندوی و شائع کردہ مشہور  ادارہء علم و تحقیق دارالمصنفین، اعظم گڑھ)  کے مطابق سلیمان شاہ (اصل نام گندوز الپ) اور اس کا فرزند ارطغرل غیر مسلم تھے اور قبیلہ کا پہلا شخص جس نےاسلام قبول کیا ارطغرل کا بیٹا عثمان تھا۔ ایک مغربی مؤرخ کی شہادت کے مطابق  ‏بھی یہ غیرمسلم تھے۔بارہویں صدی عیسوی وما بعد سیاحوں کی بکثرت شہادتیں بھی اس امر پر دال ہیں کہ یہ لوگ بت پرست تھے۔ ارطغرل کے بیٹے عثمان اور اس کے قبیلے کے  1290 عیسوی میں قبولِ اسلام سےعثمانی قوم پیداہوئی اور صرف اس کے بعد ہی فاتحانہ سرگرمیاں شروع ہو ئیں۔
اصل میں ارطغرل اور اس کا باپ گندوز الپ محض دیہاتی سردار تھے اور سغوت میں صلح جوئی سےسادہ بسراوقات کرتےتھے۔ تاریخ سے نہ ان کی کوئی جنگ ثابت ہے نہ فتح کا تذکرہ ۔  
   پروفیسر ڈاکٹر فراز انجم  مومنانہ وجاہت کے حامل بظاہر لبرل ازم کا شکار بھی نہیں لگتے ۔لہذا  ارطغرل کے بارے میں آپ کی تحقیق متعصبانہ معلوم نہیں دیتی۔
آپ  کی  اور دیگر (حتی کہ خود ترک مؤرخین کی ) جامع تحقیقات کے مطابق ارتغرل کے بارے میں یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا سوائے اس کے کہ وہ پدرِ عثمان تھا اس لئے مؤرخین بھی محض ان داستانوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں جو عثمانیوں نے ایک صدی بعد جا کر لکھیں جن کی صداقت محلِ نقد و نظر ہے۔ عثمان اول کے دور کے ایک سکے پر جس پر تاریخ بھی درج نہیں یوں رقم ہے : "عثمان بن ارطغرل کا جاری کردہ"ـ ارطغرل کے تاریخی شخصیت ہونے کا یہ محض واحد اولین ثبوت ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے سکے پر یوں درج ہے: "عثمان بن ارطغرل بن گندوز الپ" (جبکہ روایتی طور پر ارطغرل کو سلیمان شاہ کا بیٹا ٹھہرایا جاتا ہے) بعد ازاں (عثمان اول کے تقریبا 200 برس بعد) انوری کے دستورنامہ (1465 عیسوی) اور سرگزشتِ کرامانی محمود پاشا (1480 عیسوی کے قریب) گندوز الپ کی بجائے سلیمان شاہ کو ارطغرل کا باپ ٹھہرا دیا گیا۔ بعد ازاں عثمانی مؤرخ درویش احمد  ابنِ عاشق پاشا زادے (المتوفی 1484 عیسوی) کی سرگزشت میں سلیمان شاہ ہی کو گندوز الپ کی جگہ سرکاری طور پر ارتغرل کا باپ ٹھہرا لیا گیا۔
اس جملہ بحث کا لُبِ لباب یہ ہے کہ 
١ـ ڈرامہ بازی والے ارطغرل کا اصل ارطغرل سے  دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں (اس کا اعتراف خود اس کے ڈرامہ سازوں کو بھی ہے)ـ
٢ـ ارطغرل کا ایک تاریخی شخصیت ہونا محض اپنے بیٹے عثمان اول کے  جاری کردہ ایک سکے سے ہی ثابت ہوتا ہے۔
٣ـ ارطغرل غیرمسلم اور بت پرست تھا۔
٤ـ ارطغرل کے باپ کا نام سلیمان شاہ بعدمیں گھڑا گیا جبکہ ارطغرل کے باپ کا اصل نام گندوز الپ تھا۔
٥۔ ارطغرل جنگجو نہیں تھا اور نہ اس نےمنگوکوں سے کبھی کوئی جنگ کی۔

ارتطغرل کی حقیقت

 


Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ