روح جسم اور موت

 

روح، جسم اور موت
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ)
روح صرف اور صرف 3 یا چار اشیاء کے بارے میں ہی قرآن میں آیا ہے۔ قرآن میں فرشتوں کو روح کہا گیا، وحی کو روح کہا گیا اور روح کو رب کے امر میں سے کچھ کہا گیا ہے  اور رب کے امر کے بارے میں قرآن ہی نے بتا دیا ہے کہ یہ رب کے ارادے کا نام ہے جو ہمیں سمجھانے کے لئے یوں ہے کہ اس کا امر کچھ یوں ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کن (ہوجا) تو واقع ہو جاتی ہے ۔ دوسری جگہ یفعل ما یرید کہ کر واضح کردیا کہ اس کا ارادہ دراصل اس کے فعل ہی سے عبارت ہے جو اس کا ارادہ ہوتا ہے وہ فعل(کام) میں ڈھل جاتا ہے یعنی وہ جو ارادہ کرتا ہے اسے عمل میں لے آتا ہے۔
امرِ ربی [(رب کا امر یعنی حکم یا ارادہ = رب کا فعل)] ⬅روح
⬅روح میں سے کچھ ⬅انسان میں نفخ
چوتھی شے نفخِ روح (روح پھوکنا) ہے اور یاد رہے کہ انسان میں اللہ نے اپنی روح نہیں پھونکی کہ اس کی بنیاد پر روحانیات یا تصوف کا کوئی کاروبار چمکا لیا جائے بلکہ اپنی روح میں سے کچھ پھونکا ہے۔ظاہر ہے  فرشتے کو تو انسان میں پھونکا نہیں جا سکتا اور اللہ تعالی نے نفخِ روح (روح پھوکنے) کے عمل میں یا تو وحی کو انسان میں ڈالا یا اپنے امر (ارادے) کو۔ اس نے قرآن میں امر اور خلق کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کر واضح کر دیا کہ خلق اور شے ہے امراور شے ہے۔خلق مادی ہے اور امر غیرمادی ۔ اللہ نے اپنی روح (امر یا ارادے ) میں سے کچھ پھونکا۔
انسان جو عالمِ خلق یعنی مادی دنیا میں ایک حیوانی وجود کے طور پر پرورش پا رہا تھا اور ایک حیوانی زندگی زمین پر گزارتا تھا ۔ اس میں جب اللہ تعالی نے اپنی روح یعنی اپنے امر (ارادے) میں سے کچھ پھونکا تو یہ حیوانی وجود بتدریج سمیع و بصیر ہوتا گیا۔ یعنی پہلے یہ صرف جانوروں کی طرح دیکھ سکتا تھا مگر اب اس دیکھنے میں بصیرت (سمجھ بوجھ) پیدا ہو گئی، پہلے یہ صرف آوازوں کو سن سکتا تھا مگر اب ان آوازوں سے وہ مطلب اور وضاحتیں بھی نکالنے لگا۔
انسان میں کوئی روح وغیرہ نہیں ہوتی جو کہیں نکل جاتی ہے بلکہ روح (خدا کے امر اور ارادے کی توانائی) اور جسم کے حیوانی تقاضوں کے باہمی تعامل (interaction) سے انسانی نفس (ذات یا اصل شخصیت) پیدا ہوتی ہے۔
انسان اصلا ایک باطنی وجود (نفس) ہے جو اس ظاہری جسم کے اندر رہتا ہے۔ جسم محض مادی دنیا سے صرف رابطے کا ذریعہ ہے وگرنہ نہ میرے جسم کا نام ضیاءاللہ ہے اور نہ آپ کے جسم کا نام  شکیلہ ہے۔ ہم ان جسموں کو صرف استعمال کرتے ہیں۔ جسم کی زندگی جانور یا پودے کی زندگی کی طرح محدود ہے۔ یہ کل ختم ہو یا آج مگر انسان کی موت جسم کی موت سے واقع نہیں ہوتی۔ جسم مر جاتا ہے مگر نفسِ انسانیپ یعنی اندر کی اصل شخصیت یا ذات زندہ رہتی ہے۔ یہ جسم گلنے سڑنے والی شے اور کیڑوں کی خوراک ہے۔۔۔ یہ جسم ختم ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالی چاہے تو کسی نشانی کے طور پر جسم کو محفوظ رکھ سکتا ہے جیسے فرعون کی لاش کو محفوظ کرنے اور اسے عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ اللہ تعالی نے قرآن میں بیان کیا۔ اسی طرح کسی نیک بندے مثلا رسولِ اکرم ﷺ  یا صحابی کے جسدِ مبارک کو اللہ تعالی اپنی نشانی کے طور پر محفوظ فرمانا چاہے تو اللہ کی مرضی اور مشیت ہے مگر یہ جسم زندہ بہرحال نہیں ہوتے خواہ ان میں سے خون ہی رس رہا ہو۔ جسم کی موت کے بعد اصل انسان کو فوت (پورے کا پورا بھر) کرکے کہیں اور لے جایاجاتا ہے۔ نیک لوگوں کو علیین یا علیون میں اور برے لوگوں کو سجین میں ۔ قبر چونکہ آخری شے ہے جسے ہم دیکھتے ہیں اسی لئے عذابِ برزخ کو عذابِ قبر کہا جاتا ہے۔ وگرنہ قرآن کے مطابق آل فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے مگر فرعون کا جسم مصر کے عجائب گھر میں پڑا ہے۔ اسی طرح  مردہ جسموں کو تلف کرنے کے مختلف طریقے مختلف تمدنوں میں رائج ہیں کوئی جلا دیتا ہے، کوئی چرندپرند کو کھلا دیتا ہے تو کوئی دفنا دیتا ہے۔ جسم فانی ہے نفسِ انسانی (انسانی ذات) باقی ہے۔
جو لوگ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کے اور موجودہ دنیا کے درمیان تمام رابطے اس طرح منقطع ہو جاتے ہیں کہ قیامت تک اس دنیا اور اس دنیا کے درمیان ایک برزخ(اوٹ یا پردے یا آڑ) کا ہونا بھی ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس دنیا کا کوئی بھی انسان اس دنیا کے لوگوں یعنی مردوں کو کچھ بھی نہیں سنا سکتااور نہ کوئی انسان اس دنیا کی صداؤں کو سن سکتا ہے۔ برزخ کی وضاحت خود قرآن میں ہے کہ دو دریا باہم ملتے چلے ہیں ایک کڑوا کسیلا دوسرا میٹھا مگر دونوں کے درمیان ایک برزخ حائل ہے وہ ایک دوسرے سے تجاوز نہیں کر پاتے ۔ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔
البتہ قرآن سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ نیک انسانی نفوس کو جیسے شہداء ہیں دنیا میں رہ جانے والے ان کے ساتھیوں کے بارے میں بشارتیں ملتی رہتی ہیں۔ مگر یہ صرف فرشتے انہیں اللہ کے اذن (اجازت) سے صرف اسی قدر دیتے ہیں جس قدر اللہ چاہے۔

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ