مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم


مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء۔ گوجرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب اسلم عارفی صاحب نے ایک خوبصورت و لائقِ صد تحسین و آفریں نعتیہ شعر عطا فرمایا ہے کہ
" آپ کے راستے پہ چل کے ملی
دین و دنیا کی کامیابی حضور"
(اسلم عارفی)
اور اس پر ناچیز و ننگِ اسلاف کی رائے طلب کی ہے۔
محاسنِ شعر و سخن سے تو عارفی صاحب خود آگاہ ہیں، چنانچہ اس بارے میں تو ہما شما کا اظہارِ رائے داخلِ شوخ چشمی و بے ادبی ہے۔ جہاں تک طلسمِ گنجینہء مفہوم و معانئ بین السطور کا تعلق ہے تو عرضِ خدمت ہے کہ
بمصطفیٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است
(علامہ اقبال)
ہمارا دین سب کا سب نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات و بابرکات سے ہی شروع ہوتا ہے اور آپ ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔ دین تمام کا تمام بجز ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ہے ہی کیا۔ جو آپ کی دہلیز  تک "اپڑ" (پہنچ) گیا تو دین اسی کا درست ہے، دماغ اسی کا درست ہے، زاویہء نگاہ اسی کا ٹھیک ہے۔ اگر یہ نہیں تو سب کچھ کفر ہے،  بولہبی ہے۔
نکتہ ہائے نظر ، تعبیر و تشریح اور تاویلِ معانی میں اختلاف ہو تو ہو مگر یہ بات طے ہے کہ مندرجہ بالا امر پر بحثیتِ مجموعی اجماعِ اُمت موجود ہے ۔سرسید احمد خان ہوں یا قاسم نانوتوی یا احمد رضا خان بریلوی، سید مودودی ہوں یا پرویز و مشرقی، اقبال ہوں یا قائدِاعظم سبھی اسی زُلف ِ واللیل سے بندھے ہیں کہ اصلا دین اسی کا نام ہے:
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں ،وہی یٰس ، وہی طٰہٰ
وہ دانائے سبل، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادئ سینا
(علامہ اقبال)
بجز نغمہء تارِ عہدِ الست ہمارے پاس اور تھا ہی کیا کہ ہم خدا کو پاتے۔ ہمیں خدا ملا تو درِ مصطفی سے اور قرآن ملا تو اسی ذاتِ والا صفات سے۔
نہ ہوتا کملی والا گر ہمارا ہم کہاں جاتے
ہم روزانہ پنجگانہ خدا سے صراطِ مستقیم ہی کے تو طالب ہوتے ہیں جبکہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اس صراطِ مستقیم کی ہدایت دے دی تھی:
قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ (6:161)
آپ فرما دیجیئے لوگوں سے کہ یقینی طور پر مجھے ہدایت دے دی ہے میرے پروردگار نے صراطِ مستقیم کی طرف کہ یہ دین ہے قائم ، طریقہ و سلیقہ ہے ابراہیم کا جو (اپنے ہر فکر و عمل میں، توجہات و رجحانات و میلانات میں، جملہ ادعیہ و عبادات میں) حنیف (یکسو و یک جہت) ہو گیا تھا صرف اور صرف ایک ہی خدائے واحد کی طرف
اِنَّ رَبِّىۡ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ (11:56)
( ان سے یہ فرما دیجیئے کہ) بے شک میرا رب صراطِ مستقیم پر ہی ہے
يٰسٓ وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ (4 -36:1)
اس آیت میں تو خود قرآن کی قسم دے کر اللہ تعالی نے اس امر کی توثیق فرما دی کہ اس میں کسی ادنیٰ شائبہ کی بھی گنجائش نہیں کہ آپ بھی یکے از قبیلہء مرسلین ہیں اور بنا بر ایں صراطِ مستقیم پر ہیں۔
چونکہ حقیقی کامیابی یہی صراطِ مستقیم ہے جو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا رستہ ہے لہذا یہی دین و دنیا کی جملہ کامیابیوں کا جادہ ہے۔ لہذا آپ کا شعر مکمل طور پر حرف بہ حرف درست ہے کہ جس سے مجالِ انکار محاورۃً کسی کافر کو بھی روا نہیں۔البتہ صرف دو امور اس ضمن میں ملحوظِ خاطر رہنے چاہئیں:
1
۔ اس راہ کی دریافت کیونکر ہو گی کہ یہ راہ گزر نبئ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے بھی یا نہیں ۔۔۔ یعنی یہ راہ معلوم کرنے کا باوثوق ذریعہ کون سا ہے ؟
2-
نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے تعین کے ضمن میں افراط و تفریط نہ ہو۔ یعنی نہ اس قدر افراط ہو کہ بات استمداد و شرک و بدعات تک جا پہنچے اور نہ اس قدر تفریط ہو کہ گستاخی کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ ہی موجود ہو۔
ان دو امور کو کسی اگلی نشست کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ راقم الحروف کے نزدیک نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی صرف اور صرف ایک ہی کتاب یقینی طور محفوظ و مامون و مستند طور پر موجود ہے کہ جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے اٹھایا ہے یعنی اللہ کی کتاب۔۔۔ قرآنِ مجید
۔۔۔۔ سوائے اس ایک کتاب کے۔۔۔۔۔ کسی شے پر مکمل اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہء عمل جاننے کا بھی سب سے مصدقہ اور واحد ذریعہ صرف اور صرف قرآنِ مجید ہی ہے ۔۔۔ اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔ قطعی طور پر نہیں۔ جو کچھ روایات میں آیا ہے اگر وہ قرآن کے عین مطابق ہے تو درست ہے۔۔۔ بصورتِ دیگر اس کی نسبت نبئ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں کیونکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآنِ مجید ہی کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا اور آپ کا ہر عمل قرآن کے عین مطابق تھا۔


Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ