روایات و خرافات از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

روایات و خرافات

 تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

drziaullahzia@gmail.com

تمدن تصوف شریعت کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی صرف ایک ہی مستند و باعتبار دستاویز ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب قرآنِ مجید۔۔۔ بس یہی حقیقت ہے۔۔۔ باقی سب کچھ زیادہ تر عجمی روایات و خرافات ہیں۔۔۔ شبلی نعمانی کی تحقیق یہ ہے کہ فضائل خاص طور پر سورتوں کے فضائل پر مبنی تمام روایات ہی بے اصل یعنی من گھڑت ہیں۔ نیز یہ جان لیجیئے کہ حدیث کو کوئی ایک محدث بھی قولِ رسول نہیں کہتا بلکہ احادیث خواہ مرفوع بھی ہوں پھر بھی وہ قولِ رسول نہیں بلکہ قولِ راوی ہیں اور وہ بھی زیادہ تر 5 یا زائد واسطوں یعنی نسلوں بعد بغیر کسی تحریری ذریعہ کے سنی سنائی اور سینہ بہ سینہ چلے ہوئے واسطے ہیں۔ حدیث جملہ محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی ہے ۔۔۔ روایت باللفظ نہیں۔۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں روایات کی بجائے صرف اور صرف قرآن پر چلنے کی توفیق دے۔ جو روایت اس کے مطابق ہے اور روایتاً و درایتاً مجروح نہیں تو وہ اپنے سیاق و سباق کے 
اعتبار سے لائقِ عمل ہے۔۔ دیگر سب کچھ مسترد ہے۔

ان معروضات پر میرے ایک عزیز نے جرح کی کہ احادیث کے سلسلے محفوظ ہیں۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ تعجب ہے کہ جو امت نے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو محفوظ نہ کر سکی اور اسے کربلا میں ذبح کر دیا، جو امت نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غیر و مسلمِ اول صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے نواسے اور غارِ ثور میں بوقتِ ہجرت کھانا پہنچانے کی خدمت انجام دینے والی سیدہ اسمآءبنتِ ابی بکر رض اور حوارئ رسول زبیر بن العوام رض کے فرزند سیدنا عبداللہ بن زبیر رض کو محفوظ نہ رکھ پائی اور حجاج بن یوسف نے انہیں ذبح کرکے لاش چوک میں لٹکا دی۔ جو امت  عشرہ مبشرہ رض کو محفوظ نہ رکھ سکی اور 10 میں سے 4 کو تو خود مسلمانوں نے ذبح کر دیا۔۔۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس امت نے روایات کا سلسلہء دراز کیسے محفوظ کر لیا۔
ایک اور نقد میرے عزیز نے یوں کیا کہ جب درسِ حدیث دیا جاتا ہے تو محمد
صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرمدرس استاذ تک پورا سلسلہءروایت اپنے طلبہ کو پڑھاتا ہے۔
مجھے کب اس رطب و یابس سے انکار ہے کہ جہاں بہت سے سلسلے مقطوع بھی ہوتے ہیں۔ جعفریہ کے سلسلے اور، حنفیہ کے اور ، وہابیہ کے اور، بریلویہ کے اور، دیوبندیہ کے اور۔۔۔۔ ایک کے نزدیک سلسلہ درست دوسرے کے نزدیک غلط۔۔۔ چلیئے ہم کسی سلسلے کو مان بھی لیں مگر اصل سوال تو پھر وہی ہے کہ احادیث کی تمام موجود بڑی اور مستند سمجھی جانے والی کتب کے تمام مصنفین عجمی ( یعنی ایرانی و ترکستانی) تھے۔ کیا کسی عرب کو یہ جرات نہیں ہوئی۔ ان سلسلوں کے بھی کیا کہنے کہ  تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ کسی ایک بھی حدیث کے اصل الفاظ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ہی نہیں بلکہ راوی کے الفاظ ہیں اور اس نے اپنے الفاظ میں جو مفہوم سمجھا وہ اپنی سمجھ کے مطابق اکثر سیاق و سباق کے بغیر بیان کر دیا اور پھر سینہ گزٹ تیار ہوا اور وہ بھی صرف 5 روایتیں ہیں جو 3 واسطوں سے ہیں، باقی تمام روایات کم از کم 5 واسطوں سے ہیں۔ یعنی جب روایت مصنف نے اپنی کتاب میں درج کی تو اصل راوی اور اس کے درمیان کم و بیش 5 نسلوں کا فاصلہ تھا یعنی اگر میں 3 نسلیں بھی لوں اور اپنی ماں سے ، پھر نانی سے اور پھر اصل راوی
یعنی اپنی نانی کے والد چودھری مراد بخش (1866 تا 1929) سے کوئی روایت لوں سرسید احمد خان (المتوفیٰ 1899) کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ بھی سینہ بہ سینہ تو سلسلہ غیرمنقطع ہونے کے باوجود اور راویوں کے ثقہ ہونے کے باوجود اس روایت کی کیا حیثیت ہو گی۔
احادیث کسی تحریری ذریعہ سے مرتب نہیں ہوئیں۔
آخر میں میرے عزیز نے جب یہ فرمایا کہ احادیث کے بغیر اکثر لوگ تمام قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔
سب سے پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو لیا ہے مگر نہ زمانے کی حفاظت کا، نہ احادیث کی حفاظت کا اور نہ شانِ نزول کی حفاظت کا۔ جب مجھ جیسا ناچیز، ہیچمقدار و ننگِ اسلاف بغیر روایات کے قرآن کو عربی زبان سیکھ کر اور بار بار پڑھ کر خود قرآن ہی سے سمجھ سکتا ہےتوپھر باقی لوگوں کو کیا مضائقہ ہے کہ وہ دنیا کے لئے انگریزی کے لتے تو لے سکتے ہیں مگر قرآن کی زبان سیکھتے ان کو موت پڑتی ہے۔
قرآن کی بہترین تفسیر وہی ہے جو خود قرآن سے کی جائے ۔۔ تمام مفسرین کا اجماعی قول ہے کہ یفسر بعضہ بعض اس کے بعض حصے بعض کی خود ہی تفسیرکرتے ہیں۔
جہاں تک تفسیری روایات کا تعلق ہے، شبلی نعمانی کے نزدیک ان کی کوئی اصل ہے ہی نہیں۔
غالباصاحبِ تدبرِ قرآن امین احسن اصلاحی ہی نے ایک مقام پر تو شانِ نزول کو بیڑیاں پہنا کر قرآن کی وسعتِ معانی کو قید کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
(اقبال)
جہاں تک نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع بذریعہ سنت و روایات و اقدار اور سبیل المؤمنین (یعنی آثارِ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین و تبع تابعین رحمھم اللہ علیھم کے اجماعی تعامل) کی اتباع کا تعلق ہے تو میں اسے بھی قرآنِ مجید کی رو سے فرض اور لازم جانتا ہوں اور حتی المقدور اس اطاعت و اتباع کی سعی کرتا ہوں بشرطیکہ وہ اجماعاً و کاملا مصدقہ، مستند، متفقہ و متحققہ ہو ، نہ روایتاً مجروح ہو، نہ درایتاً اور قرآنِ مجید کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔

احادیث کے بارے میں مزید تفصیلات اور شرحِ صدر اگر کسی کو درکار ہو تو وہ نیٹ سے pdf  میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب دو اسلام یا علامہ پرویز کی کتاب مقامِ حدیث ڈاؤنلوڈ کر لیں۔
1.دواسلام  از غلام جیلانی برق پی ایچ ڈی
دو اسلام از ڈاکٹر غلام جیلانی برق
2. مقامِ حدیث از غلام احمد پرویز
مقامِ حدیث از علامہ پرویز

جہاں تک اسمِ اعظم کا تعلق ہے اس بارے میں اگر روایات باعتبارِ صحت عقیدہء جمہور کے تحت درست بھی ہوں پھر بھی ان سے جو مفہوم اخذ کیا جاتا ہےوہ کتاب و سنت کی صریح تعلیمات سے متعارض  ہے۔ ایک تو اسے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسرے اس سے غلط جامہ پہنایا جاتا ہے۔
 جہاں تک قرآنِ مجید کا تعلق ہے تو اسمِ اعظم کی اصطلاح اتنی اہم ہے کہ الحمد سے والناس تک کسی ایک جگہ بھی اس کی طرف اشارہ کنایہ تک نہ ہوا جبکہ قرآن کہتا ہے  کہ اس قرآن میں ہر شے کا تفصیلی فیصلہ موجود ہے پھر اسمِ اعظم کی روایتی اہمیت کے برعکس اسمِ اعظم کا ذکر تک نہ کیا جانا کوئی معنوی اہمیت ضرور رکھتا ہے کہ اتنی اہم بات کو قرآن نے کیوں اہمیت نہ دی۔ ہماری قوم یوں بے معرکہ جینے اور ایسے سہل الحصول نسخے تلاش کرنے کی کیوں عادی ہے؟ کیا کبھی ابوبکر و عمر و عثمان و طلحہ وزبیر وغیرھم رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ایسے اوراد و وظائف سے حظ اٹھایا یا انہیں حرزِ جان کیا ؟
وہ تو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لئے
اور مرتے تھے اسی رب کی ہی عظمت کے لئے
ان کےاسماء الحسنیٰ  کا ورد عملی طور پر ہوتا تھا
نہ مسجد میں، نہ بیت اللہ کی دیواروں کی چھاؤں میں
نمازِ عشق وہ پڑھتے تھے تلواروں کی چھاؤں میں
مگر جب سے یہ گھُس بیٹھیئے (صوفی و ملا) برآمد ہوئے ہیں، قرآن کی تفسیریں، سنت کی تعبیریں اور عمل کی تدبیریں ہی بدل گئی ہیں۔ ثھنڈے ثھنڈے جنت میں جانے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے جنتر منتر سے کام چلانے پرتلے بیٹھے ہیں۔ حکیم الامت اقبال کہ ہمارے قائدِِاعظم نے جن کے بارے میں کہا تھا کہ فی زمانہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے نہیں سمجھا اور پاکستان  انہی کے افکار پر قائم ہوگا  یہ اسی اقبال نے انہی گھس بیٹھیوں کے بارے میں تو کہا تھا کہ خلائی سائینسدانوں کی طرح
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا  خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
یہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
وہ مذہبِ مُلا و نباتات و جمادات
اور اقبال نے انہی جنتر منتر ملاؤں اور ڈبہ پیروں سے کہا تھا
اے شیخِ حرم رسم و رہِ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا
تیرے دین و ادب سے آ رہی ہے  بُوئے راہبانی
 (راہبانیت کی بدبُو)
یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالمِ پیری
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شُعلۂ نم خوردہ سے ٹُوٹے گا شرَر کیا
بہرطور
یہ معاملے ہیں نازک جو تیری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ