روایات و خرافات از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
روایات و خرافات
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
drziaullahzia@gmail.com
ان معروضات پر میرے ایک عزیز نے جرح کی کہ احادیث کے سلسلے محفوظ ہیں۔
سب سے پہلے تو مجھے یہ تعجب ہے کہ جو امت نے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو محفوظ نہ کر سکی اور اسے کربلا میں ذبح کر دیا، جو امت نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غیر و مسلمِ اول صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے نواسے اور غارِ ثور میں بوقتِ ہجرت کھانا پہنچانے کی خدمت انجام دینے والی سیدہ اسمآءبنتِ ابی بکر رض اور حوارئ رسول زبیر بن العوام رض کے فرزند سیدنا عبداللہ بن زبیر رض کو محفوظ نہ رکھ پائی اور حجاج بن یوسف نے انہیں ذبح کرکے لاش چوک میں لٹکا دی۔ جو امت عشرہ مبشرہ رض کو محفوظ نہ رکھ سکی اور 10 میں سے 4 کو تو خود مسلمانوں نے ذبح کر دیا۔۔۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس امت نے روایات کا سلسلہء دراز کیسے محفوظ کر لیا۔
ایک اور نقد میرے عزیز نے یوں کیا کہ جب درسِ حدیث دیا جاتا ہے تو محمد
صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرمدرس استاذ تک پورا سلسلہءروایت اپنے طلبہ کو پڑھاتا ہے۔
مجھے کب اس رطب و یابس سے انکار ہے کہ جہاں بہت سے سلسلے مقطوع بھی ہوتے ہیں۔ جعفریہ کے سلسلے اور، حنفیہ کے اور ، وہابیہ کے اور، بریلویہ کے اور، دیوبندیہ کے اور۔۔۔۔ ایک کے نزدیک سلسلہ درست دوسرے کے نزدیک غلط۔۔۔ چلیئے ہم کسی سلسلے کو مان بھی لیں مگر اصل سوال تو پھر وہی ہے کہ احادیث کی تمام موجود بڑی اور مستند سمجھی جانے والی کتب کے تمام مصنفین عجمی ( یعنی ایرانی و ترکستانی) تھے۔ کیا کسی عرب کو یہ جرات نہیں ہوئی۔ ان سلسلوں کے بھی کیا کہنے کہ تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ کسی ایک بھی حدیث کے اصل الفاظ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ہی نہیں بلکہ راوی کے الفاظ ہیں اور اس نے اپنے الفاظ میں جو مفہوم سمجھا وہ اپنی سمجھ کے مطابق اکثر سیاق و سباق کے بغیر بیان کر دیا اور پھر سینہ گزٹ تیار ہوا اور وہ بھی صرف 5 روایتیں ہیں جو 3 واسطوں سے ہیں، باقی تمام روایات کم از کم 5 واسطوں سے ہیں۔ یعنی جب روایت مصنف نے اپنی کتاب میں درج کی تو اصل راوی اور اس کے درمیان کم و بیش 5 نسلوں کا فاصلہ تھا یعنی اگر میں 3 نسلیں بھی لوں اور اپنی ماں سے ، پھر نانی سے اور پھر اصل راوی
یعنی اپنی نانی کے والد چودھری مراد بخش (1866 تا 1929) سے کوئی روایت لوں سرسید احمد خان (المتوفیٰ 1899) کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ بھی سینہ بہ سینہ تو سلسلہ غیرمنقطع ہونے کے باوجود اور راویوں کے ثقہ ہونے کے باوجود اس روایت کی کیا حیثیت ہو گی۔
احادیث کسی تحریری ذریعہ سے مرتب نہیں ہوئیں۔
آخر میں میرے عزیز نے جب یہ فرمایا کہ احادیث کے بغیر اکثر لوگ تمام قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔
سب سے پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو لیا ہے مگر نہ زمانے کی حفاظت کا، نہ احادیث کی حفاظت کا اور نہ شانِ نزول کی حفاظت کا۔ جب مجھ جیسا ناچیز، ہیچمقدار و ننگِ اسلاف بغیر روایات کے قرآن کو عربی زبان سیکھ کر اور بار بار پڑھ کر خود قرآن ہی سے سمجھ سکتا ہےتوپھر باقی لوگوں کو کیا مضائقہ ہے کہ وہ دنیا کے لئے انگریزی کے لتے تو لے سکتے ہیں مگر قرآن کی زبان سیکھتے ان کو موت پڑتی ہے۔
قرآن کی بہترین تفسیر وہی ہے جو خود قرآن سے کی جائے ۔۔ تمام مفسرین کا اجماعی قول ہے کہ یفسر بعضہ بعض اس کے بعض حصے بعض کی خود ہی تفسیرکرتے ہیں۔
جہاں تک تفسیری روایات کا تعلق ہے، شبلی نعمانی کے نزدیک ان کی کوئی اصل ہے ہی نہیں۔
غالباصاحبِ تدبرِ قرآن امین احسن اصلاحی ہی نے ایک مقام پر تو شانِ نزول کو بیڑیاں پہنا کر قرآن کی وسعتِ معانی کو قید کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
(اقبال)
جہاں تک نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع بذریعہ سنت و روایات و اقدار اور سبیل المؤمنین (یعنی آثارِ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین و تبع تابعین رحمھم اللہ علیھم کے اجماعی تعامل) کی اتباع کا تعلق ہے تو میں اسے بھی قرآنِ مجید کی رو سے فرض اور لازم جانتا ہوں اور حتی المقدور اس اطاعت و اتباع کی سعی کرتا ہوں بشرطیکہ وہ اجماعاً و کاملا مصدقہ، مستند، متفقہ و متحققہ ہو ، نہ روایتاً مجروح ہو، نہ درایتاً اور قرآنِ مجید کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔
احادیث کے بارے میں مزید تفصیلات اور شرحِ صدر اگر کسی کو درکار ہو تو وہ نیٹ سے pdf میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب دو اسلام یا علامہ پرویز کی کتاب مقامِ حدیث ڈاؤنلوڈ کر لیں۔
1.دواسلام از غلام جیلانی برق پی ایچ ڈی
دو اسلام از ڈاکٹر غلام جیلانی برق
2. مقامِ حدیث از غلام احمد پرویز
مقامِ حدیث از علامہ پرویز
Comments
Post a Comment