آخر حرج ہی کیا ہے ؟ تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
آخر حرج ہی کیا ہے ؟
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں میں یہ کج فہمی یا غلط فہمی کیوں ہے کہ بس نماز روزہ کر لیا پھر جو جی چاہو کرو ؟ محض پوجا پاٹ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی و منشاء کے مطابق کر لو مگر باقی زندگی کے شب و روز بڑی ہی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق گزارو۔
قرآن میں آیا ہے تو نعوذباللہ آتا رہے کہ نماز فحشآء (بے حیائی و بے شرمی) و منکر (ہر قسم کےغلط یا ناشائستہ کام) سے روکتی ہے۔نماز تو ہم پڑھیں گے مگر ہمارا فحشآء و منکر سے رکنا ضروری تو نہیں۔
روزہ کا مقصد تقوی شعاری ہے۔ یعنی اپنے باطن میں (اپنے اندر) ایسی شخصیت پیدا کرنا کہ جو اللہ کے خوف سے لرزاں رہے اور خواہشات سے بچ کر قدم قدم اللہ اور رسول کے احکام و تعلیمات کے مطابق پھونک پھونک کر رکھے اور معصیت ( ہر قسم کے گناہ اور خدا اور رسول کی نافرمانی) سے باز رہنے کی حتی المقدور سعی کرے مگر تُف ہے ان پر جو سمجھتے ہیں کہ زحمتِ روزہ گوارا کرنا محض کھانا پینا چھوڑنے کی مشقت ہے باقی زندگی مزے سے بے خوف و بے خطر گزارو اور جو جی میں آئے کرتے پھرو۔
یعنی کلمے پڑھ پڑھ کے چاہے مسلمان ہوتے پھرو اور پوجا پاٹ یعنی نماز و روزہ کا ڈھونگ رچاؤ یا زکوۃ و قربانی وحج کا سوانگ بھرو مگر زندگی جو خدا کی امانت ہے وہ اپنی مرضی سے گزارو۔ عیاشی و فحاشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناؤ۔ نقل اتارو،نقل لگاؤ،نقل کرو، اشارے توڑو، غیرحاضربھی ہو تو رجسٹر پر حاضر لکھو اور لکھواؤ، بس نماز روزہ اس کی مرضی کا کرو مگر لباس اپنی مرضی کا پہنو۔ جب جی چاہے اذانوں کے وقت سروں پر نمائشی جھنڈے چڑھاؤ اور اذان بند ہوتے ہی دنیا داری کے لئے سربرہنہ ہو جاؤ، ننگے سر پھرو، آخر کو ترقی کی یہی ایک علامت تو رہ گئی ہے۔ سر میں دماغ ہو نہ ہو،کھوپڑی بھیجےسےخالی ہو، عقلِ سلیم چُھو کر نہ گزری ہو مگر دنیادار کہلانے اور سماج میں چل چلاؤ کے لئےننگے سر رہنے کی بے شرمی و بے حیائی بہت ضروری ہے خواہ قرآن کی تعلیم یہی ہو کہ جو خمر (موٹی چادریں) عورتیں اپنے سر پر اوڑھتی ہیں ان سے اپنے گریبان بھی چھپا کر رکھیں اور جب باہر نکلیں تو اپنے اوپر اپنے جلباب (برقعہ نما لمبی چادریں) لٹکا کر نکلیں۔ مگرخدا کچھ بھی قرآن میں کہتا رہے، ہم نے تونعوذباللہ خدا سےبھی بڑی بڑی ڈگریاں لے رکھی ہیں، اسی لئے ہمارا جامے میں پھولے نہ سمانا، آپے اور سراپے سےباہر ہونا بہت ضروری ہے۔ آخر لوگ کیا کہیں گے ؟ زمانہ کیا کہے گا کہ ہم اپنے قدوقامت میں معاذاللہ خدا سے، رسول سے، کتاب وسنت سے زیادہ قدآور شخصیت ہو گئے ہیں مگر پھر بھی انہی پرانے خیالوں اور پرانے حکموں پر چل رہے ہیں۔ آخر کو تنگ پاجامے پہننا ہی ترقی کی علامت ہے نا ؟ جب تک ستر کے تمام بہتر، تہتر اور چوہتر اعضاء نمایاں نہ ہو بھلا کیسی ترقی ؟ خواہ دماغوں میں وہی دقیانوسی ایصالِ ثواب کے بے سروپاخیالات کا بُھس بھرا ہو۔خواہ وہی بے سوچے سمجھے قرآن پڑھ پڑھ کر کسی نادیدہ ثواب کی آرزو یا مردوں کو بخشوانے کی تدبیر دل میں گھر کئے ہو۔
کئی ناعاقبت اندیش ملاؤں اور ملانیوں کو دیکھا جو داڑھیاں رکھ رکھ کر یا پردے کر کے بھی ڈرامے بازیوں کو کوئی عار نہیں سمجھتے۔ وہی مرد و زن کا بے جا و بلا جواز اختلاط ،وہی ایک دوجے کی تصویر کشی اور پھر انہی نامحرموں کی تصاویر اور ویڈیوز بلاعذرِ شرعی دیکھنے دکھانے، بھیجنے اور بھجوانے کا
Share اہتمام یعنی وہ گناہِ کبیرہ جسے یہ شیئر
کرنے کا نام دیتے ہیں ۔پھر۔۔۔۔۔ اسی پر اکتفاء نہیں۔۔۔۔۔ یہ بے شرم و بدلحاظ اپنی ان حرکتوں پر اللہ کا نام بھی لیتے ہیں۔۔۔۔ ماشآءاللہ کہتے ہیں۔۔۔۔ ماشآءاللہ لکھتے ہیں۔۔۔ بڑی ڈھٹائی سے یہ کارِ خیر سرانجام دیتے ہیں۔ میں ان کو کوئی اور نام نہ بھی دوں تو کم از کم بے وقوف کہنے کی اجازت تو دیجیئے کہ جن کو نامِ خدا کا پاس نہیں، ہمیں ان کا پاس کیوں ہو ؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
(اقبال)
ایک بڑے شہر کی ایک بڑی نجی یونیورسٹی کی یہی اوقات ہے کہ جس میں امیروں کی بگڑی ہوئی نالائق اولاد پڑھتی ہے جس کو میرٹ پر کہیں داخلہ نہیں ملتا۔ ان کے لچھن ہی یہی ہیں کہ خود نت نئے فیشن کرکے کنجروں اور کنجریوں کی سیوا کریں کہ ان نے کسی ڈرامے والوں کو اپنی یونیورسٹی میں پزیرائی بخشی ہے۔
میں تو مدت ہوئی ڈرامے بازیوں سے توبہ کئے بیٹھا ہوں مگر شرم نہیں آتی داڑھی والوں کو بھی کہ ڈراموں اور فلموں جیسے منکرات کو پروان چڑھاتے ہیں کہ جہاں نامحرم مرد و زن ایک دوسرے کے رو برو بلا عذرِ شرعی آتے ہیں۔ لعنتی کردار ہیں سب کتاب و سنت کی نافرمانی کرنے والے۔کبھی کتاب اللہ کی تلاوت پر تو ان کے آنسو جاری نہیں ہوتے مگر کنجروں اور کنجریوں کی باتوں پر آنسو جاری ہوتے ہیں۔ یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
ایسے ہی ایک بڈھے ڈرامہ باز کو میں نے کہا کہ اے بابوں کی توہین۔۔۔ قبر میں تیری ٹانگیں ہیں۔ کچھ اپنی داڑھی ہی کی شرم کرلے کیوں کنجروں اور کنجریوں میں جا پڑا ہے۔
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگارِ دیر میں، خونِ جگر نہ کر تلف
(علامہ اقبال)
اس نے ایک ترغیبی ویڈیوبھی جاری کر رکھی ہے کہ اداکار بنیئے تو میں نے کہا کہ الو کے پٹھے کیوں خود بھی شو بزنس یعنی کنجر بزنس میں جا گھسا ہے اور دوسروں کو بھی گھسانا چاہتا ہے۔ میں شرط دیتا ہوں کہ یا تو تُو بے نمازی ہے یا نماز وقت پر نہیں قضا کرکے پڑھتا ہے کیونکہ کتاب اللہ کا یہی فیصلہ ہے کہ
الذین اضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشھوات
کہ جن لوگوں نے اپنی نمازوں کو ضائع کیا اور پیروی کی اپنی شہوتوں کی۔
باز آجا خود گٹر میں گر پڑا ہے تو نکلنے کی کوشش کر۔۔۔۔ دوسروں کو تو اس گندی دلدل میں نہ گھسیٹ۔
(جاری ہے ۔۔۔ ان شآءاللہ)
Comments
Post a Comment