متعہ کا قرآن سے غلط استدلال ؟
از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
حرام زدگی کے لئے کوئی اور کام ملے نہ ملے، زنا کا شرعی جواز ڈھونڈنے کے لئے قرآن ہی کو تختہء مشق ٹھہرانے کا مشغلہ شہوت پرستوں یعنی متعہ بازوں کے ہاتھ اچھا لگا ہے۔ ہمارے نزدیک تو بلاعذرِ شرعی ایک سے زائد شادی ہی کا جواز نہیں چہ جائیکہ بے وفاؤں کی تسکینِ ہوس کے لئے نکاح سے ماوراء کوئی شرعی بہانہ تراشا جائے۔
ذاکر حرام زدگئ متعہ پہ ہے مُصر
قرآں سے بے جواز ہر اس کا جواز ہے
(شاعر:ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء )
یعنی وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا اس وقت کُھلتی ہے جب آپ مکمل طور پر قرآنی سیاق وسباق ہی کے پیرائے میں اسے اخذ کریں۔ مگر اس سے قبل ذرا قرآنِ مجید کی پاروں میں تقسیم کو سمجھنا ضروری ہے ۔ جاننے والوں کے نزدیک:
" پاروں کی یہ تقسیم معنیٰ کے اعتبار سے نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات پارہ کا اختتام ادھوری بات پر ہوجاتا ہے"
(دارالافتاء۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی)
’’ پاروں کی تقسیم معنیٰ کے اعتبار سے نہیں، بلکہ بچوں کو پڑھانے کے لیے آسانی کے خیال سے تیس مساوی حصوں پر تقسیم کردیا گیا ہے، چنانچہ بعض اوقات بالکل ادھوری بات پر پارہ ختم ہوجاتا ہے یہ تقسیم عہدِ صحابہ کے بعد تعلیم کی سہولت کے لیے کی گئی ہے‘‘۔ ( ادارۃ المعارف مفتی تقی عثمانی)
" یہ تقسیم اللہ تعالی کی کی ہوئی نہیں ہے بلکہ انسانوں نے اپنی سہولت کے لئے ایسا کیا تھا-پاروں کی ترتیب غالبا الفاظ یا سطریں گن کر کی گئی تھی جس کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے کے لئے اس تقسیم کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ رکوع کی تقسیم میں البتہ کافی حد تک یہ خیال رکھا گیا ہے کہ جہاں ایک بات ختم ہو رہی ہو وہاں رکوع کو ختم کر دیاجائے۔ یہ بالکل درست ہے" (مفتی: محمد شبیر قادری)
"30 پاروں میں یہ تقسیم بندی حجاج بن یوسف ثقفی کے دور میں آغاز ہوئی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ مأمون عباسی نے اس طرح سے تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا" ( ویکی شیعہ)
"پاروں کی یہ تقسیم اسلام کا حکم نہیں ہے، نہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا کیا۔ یہ بعد کے مسلمانوں نے قرآن کے نسخوں کو پڑھنے، مساجد میں لوگوں کے لیے رکھنے اور دیگر سہولیات کی خاطر کیا۔ جس کا کوئی اصول نہیں تھا بس، قرآن کو 30 برابر برابر حصوں میں تقسیم کر دیا گيا۔ اس طرح سورتیں جو بڑی تھیں، ان کا کچھ حصہ ایک پارے میں، کچھ حصہ دوسرے پارے میں آ گیا"
( ویکی پیڈیا)
"معنوی اعتبار سے قرآن ،آیات اور سورتوں پر مشتمل ہے۔قرآن پاک کی اکائی آیت ہے۔ جس کا مطلب ہے نشانی۔ آیتوں سے مل کر سورتیں بنتی ہیں۔ سورت کے معنی فصیل (Boundry Wall) کے ہیں۔ہر آیت، اگلی وپچھلی آیت سے گہرا تعلق بھی رکھتی ہے۔آیات قرآنیہ کی ترتیب توقیفی ہے۔جبریل امین نے جس طرح آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اتاریں اسی ترتیب سے آپ ﷺ نے انہیں اپنی نمازوں اور خطبوں میں پڑھا۔
رکوع کی تقسیم حجاج بن یوسف نے کی۔ جہاں سلسلہ کلام ختم ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ معنی کو بھی مدنظر رکھاگیا۔ لہٰذایہ تقسیم بہت حد تک صحیح ہے۔ اس کا مقصد آیات کی ایسی مقدار کا تعین تھا جو نماز کی ایک رکعت میں پڑھی جاسکے۔ اسی لئے اس کو رکوع کانام دیا گیا کہ وہ مقام جہاں نماز میں قراءت ختم کر کے رکوع کیا جائے۔ پاروں کے اعتبار سے تقسیم ایسی عجیب سی ہے جس میں معنی اورسلسلہ کلام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارہ بالکل ادھوری بات پر ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے یہ تقسیم پسند نہیں کی گئی۔ یہ تقسیم غیر منطقی ہے " (فتویٰ کمیٹی محدث فتویٰ ماخذ:مستند کتب فتاویٰ)
یہی کچھ ہوا سورۃ النسآء کے چوتھے رکوع سے جہاں ایک ہی موضوع زیرِ بحث تھا اور اس رکوع کی آیات بھی پچھلے رکوع سے مربوط و منسلک ہیں ، جُدا نہیں اور مرکزی خیال "نکاح" ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ وَلَا تَنۡكِحُوۡا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقۡتًا ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا۔ (اور نکاح مت کرو ان سے جن سے تمہارے آباء نکاح کر چُکے ہیں بجز اس کے کہ جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا. بے شک ایسا کرنا بے حیائی اور نفرت کی بات ہے اور بہت بُری راہ ہے)۔(4:22 رکوع نمبر 3)۔ اس سے اگلا رکوع نمبر 4 ہے۔نکاح کا سلسلہء کلام اس اگلے رکوع میں بھی جاری ہے جس میں بتایا جا رہا کہ کون سی عورتیں تم پر حرام ہیں اور ان سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ ہوا یوں کہ سورۃالنسآء کی جس أیت نمبر 24 کے "فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ" سے شہوت پرست گمراہ ہوئے وہ "والمحصنت" سے شروع ضرور ہوتی ہے مگر وہ پچھلی آیت نمبر 23 ہی کا تسلسل ہے۔ دونوں آیات باہم دگر مربوط ہیں۔اتنا تو حُمقاء کو بھی معلوم ہو گا کہ ایک رکوع کسی ایک مخصوص موضوع سے متعلق ہوتا ہے۔ ہوا یوں کہ سورۃ النسآء کے رکوع نمبر 4 کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا اور معاملہ نکاح کا زیرِ بحث تھا کہ کن عورتوں سے نکاح ہو سکتا ہے اور کن سے نہیں کہ اچانک اس رکوع نمبر 4 کو دو پاروں نے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ پورا رکوع اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ نکاح کے لئے حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمۡ (حرام ٹھہرا دی گئیں تم پر) اُمَّهٰتُكُمۡ وَبَنٰتُكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ وَعَمّٰتُكُمۡ وَخٰلٰتُكُمۡ وَ (تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں۔۔۔۔۔۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَحَلَاۤئِلُ اَبۡنَآئِكُمُ (اور بیویاں تمہارے اُن بیٹوں کی) الَّذِيۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِكُمۡۙ (جو تمہاری پشت سے ہیں) وَاَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَيۡنَ الۡاُخۡتَيۡنِ (اور یہ بھی ممنوع ہے کہ اکھٹی دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرو) اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَؕ (بجز اس کے کہ جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا) اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۙ (درایں صورت یقینا اللہ تعالی مغفرت کرنے والا مہربان ہے)....وَّالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡۚ (اور حرام وہ عورتیں بھی ہیں کہ جو محصنات یعنی نکاح بندھی ہوں یعنی کسی اور کے نکاح میں ہوں یعنی دوسروں کی بیویاں ہوں بجز ان لونڈیوں کے جو تمہارے ہاں ہیں۔ یعنی ان لونڈیوں سے نکاح حرام نہیں ہے)كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡۚ (یہ احکامات لکھے ہیں اللہ کے تم پر۔۔ یعنی ان کی تعمیل تم پر لازم ہے) وَاُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰ لِكُمۡ (ان مذکورہ ممنوعہ مستورات کے سوا باقی تمام عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں کہ ان سے تمہارا نکاح ہو سکتا ہے) اَنۡ تَبۡتَـغُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ (کہ اپنے اموال یعنی حق مہر وغیرہ کے ساتھ انہیں چاہو)
مُّحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ ؕ (قلعہ بند ہو جاتے ہوئے یعنی خانہ آبادی کرتے ہوئے نہ کہ خواہ مخواہ شہوت رانی کرنے کو) فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِهٖ مِنۡهُنَّ (پس ان جائز مستورات میں سے جس سے تم فائدہ اٹھا چکو یعنی ہمبستری کر چکو)فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ فَرِيۡضَةً ؕ
(اُن کو ادا کر دو ان کے حق مہر کہ یہ فریضہء زوجیت لازم ہے) وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ (اور کچھ حرج نہیں تم پر) فِيۡمَا تَرٰضَيۡـتُمۡ بِهٖ (کہ اس ضمن میں تم باہمی رضامندی سے طے کرلو) مِنۡۢ بَعۡدِ الۡـفَرِيۡضَةِ ؕ ( طے شدہ حق مہر ٹھہرانے کے بعد بھی)......وَمَنۡ لَّمۡ يَسۡتَطِعۡ مِنۡكُمۡ طَوۡلًا (اور تم میں سے جو مالی سکت نہیں رکھتا) اَنۡ يَّنۡكِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ
الۡمُؤۡمِنٰتِ (کہ وہ نکاح کرے آزاد مومنہ عورتوں سے) فَمِنۡ مَّا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ مِّنۡ فَتَيٰـتِكُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ (تو درایں صورت وہ تمہاری مملوکہ مومنہ لونڈیوں سے نکاح کر سکتا ہے) ...فَانْكِحُوۡهُنَّ بِاِذۡنِ اَهۡلِهِنَّ (پس ان سے نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے) وَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (اور ان کے حقوقِ مہر مروجہ و شائستہ طریقے سے انہیں ادا کر دو) مُحۡصَنٰتٍ غَيۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ؕ ( قلعہ بند ہو کر خانہ آبادی کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے)
....۔يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُبَيِّنَ لَـكُمۡ (ان احکامات کی تنفیذ سے اللہ کا ارادہ تم پر راہ واضح کر دینا ہے) وَيَهۡدِيَكُمۡ سُنَنَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ (اور تم کو ہدایت دینا ہے اگلے نیک لوگوں کے طریقے کی ) ۔۔۔۔وَاللّٰهُ يُرِيۡدُ اَنۡ يَّتُوۡبَ عَلَيۡكُمۡ
(یوں اللہ تم پر نظرِ عنایت کرنا چاہتا ہے) وَيُرِيۡدُ الَّذِيۡنَ يَتَّبِعُوۡنَ الشَّهَوٰتِ اَنۡ تَمِيۡلُوۡا مَيۡلًا عَظِيۡمًا (جبکہ جو لوگ شہوتوں یعنی مزوں کے پیچھے چلتے ہیں ان کا ارادہ یہ ہے کہ تم بھی شہوت رانیوں میں پڑ کر راہِ راست سے میلوں دُور جا پڑو)
(4 النساء۔ رکوع نمبر 4 آیات 22 تا 27 )
واضح ہو گیا کہ جس استمتعتم سے عقل کے اندھے متعہ مراد لیتے ہیں، وہ سیاق و سباق کے آئینے میں اس پورے مضمونِ نکاح پر غور کریں تو انہیں اس کا مطلب بیویوں سے فائدہ اٹھانا، برتا لینا یا ہمبستری کر لینا ہے نہ کہ شہوت رانی کرنا اور اجورھن جو جگہ جگہ پہلی اور بعد کی کئی آیات میں ظاہر ہوا ہے اس سے مراد اپنی بیویوں کو حقِ مہر کی ادائیگی ہے نہ کہ ادھر ادھر کی رنڈیوں کو مال و متاع سے نوازنا۔
ذیل میں مفتئ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع مرحوم کی تفسیر سے اس بارے میں اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضة ، یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے استمتاع کر لو تو ان کے مہر دیدو ، یہ دینا تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے۔ استمتاع سے بیویوں سے ہمبستر ہونا اور وطی کرنا مراد ہے، اگر محض نکاح ہو جائے اور رخصتی نہ ہو اور شوہر کو استمتاع کا موقع نہ ملے، بلکہ وہ اس سے پہلے ہی طلاق دیدے تو آدھا مہر واجب ہوتا ہے اور اگر استمتاع کا موقع مل جائے تو پورا مہر واجب ہو جاتا ہے، اس آیت میں خصوصی توجہ دلائی ہے کہ جب کسی عورت سے استمتاع کر لیا تو اس کا مہر دینا ہر طرح سے واجب ہو گیا، اس میں کوتاہی کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ۔لفظ استمتاع کا مادہ، م ، ت ، ع ہے، جس کے معنی کسی فائدہ کے حاصل ہونے کے ہیں، کسی شخص سے یا مال سے کوئی فائدہ حاصل کیا تو اس کو استمتاع کہتے ہیں، عربی قواعد کی رو سے کسی کلمہ کے مادہ میں است کا اضافہ کر دینے سے طلب و حصول کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں اس لغوی تحقیق کی بنیاد پر فما استعتم کا سیدھا مطلب پوری امت کے نزدیک خلفاً عن سلف وہی ہے، جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے، لیکن ایک فرقہ کا کہنا ہے کہ اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے اور ان لوگوں کے نزدیک یہ آیت متعہ حلال ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ متعہ جس کو کہتے ہیں اس کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ محصنین غیر مسافحین سے ہو رہی ہے۔ متعہ اصطلاحی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، محض مادہ اشتقاق کو دیکھ کر یہ فرقہ مدعی ہے کہ آیت سے حلت متعہ کا ثبوت ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے محرمات کا ذکر فرما کر یوں فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ اس اصول کے ذریعے حلال عورتیں تلاش کرو، اس حال میں کہ پانی بہانے والے نہ ہوں یعنی محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ محصنین کی بھی قید لگائی ہے، یعنی یہ کہ عفت کا دھیان رکھنے والے ہوں ........ متعہ چونکہ مخصوص وقت کے لئے کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں نہ حصول اولاد مقصود ہوتا ہے، نہ گھر بار بسانا اور نہ عفت و عصمت اور اسی لیےجس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا اور اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا ........ اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے، اس لئے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فرمان باری تعالی شانہ :
والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین.
...
(جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا لونڈیوں کے پس انہی پر کچھ ملامت نہیں جو اس کے سوا اور راہ چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں)
یہ ایسا واضح ارشاد ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں، اس سے حرمت متعہ صاف ظاہر ہے، اس کے مقابل ہمیں بعض شاذ قراءتوں کا سہارا لینا قطعاً غلط ہے۔ استمتعتم سے متعہ اصطلاحی مراد ہونے کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے۔ نکاح متعہ کی طرح نکاح موقت بھی حرام اور باطل ہے، نکاح موقت یہ ہے کہ ایک مقررہ مدت کے لئے نکاح کیا جائے ........ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں لفظ متعہ بولا جاتا ہے اور نکاح موقت لفظ نکاح سے ہوتا ہے۔ولا جناح علیکم فیماتراضیتم بہ من بعد الفریضة آیت کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ باہمی مہر مقرر کرنے کے بعد مہر مقررہ کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی کہ اس میں کمی بیشی درست نہ ہو، بلکہ شوہر مقرر مہر پر اپنی طرف سے اضافہ بھی کر سکتا ہے اور بیوی اگر چاہے تو اپنی خوش دلی سے تھوڑا یا پورا مہر معاف کر سکتی ہے، الفاظ کے عموم سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مہر معجل طے کر کے تاجیل کر لے، یعنی بعد میں لینے کو منظور کر لے تو یہ بھی درست ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ۔‘‘۔(معارف القرآن)
Comments
Post a Comment