رابعہ بصری اور طارق جمیل از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

.رابعہ بصری اور طارق جمیل

از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
طارق جمیل صاحب سمیت تبلیغی جماعت کے تمام  بڑےبزرگوں کا یہ نکتہء نظر ہے کہ خواہ روایات و واقعات جھوٹ ہی ہوں لیکن اگر لوگوں کو ان سے نیکی کی ترغیب و تحریص ہو تو ایسے واقعات کو بیان کر دینا چاہیے ۔ لوگوں کو بس سنے سنائے واقعات سے دلچسپی ہوتی ہے، کسی تحقیق و تفتیش سے نہیں بقولِ اقبال
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مُریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اُترتا ہے ہے بہت جلد
       بعینہ رابعہ بصری رحمۃاللہ علیھا کا معاملہ بھی ہے  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رابعہ بصری کا زمانہ تقریبا 730 عیسوی بنتا ہے۔جن کی حیاتِ طیبہ کے بارے میں کوئی مستند دستاویز دستیاب نہیں ہے۔ ان کی زندگی کے بارے میں اکثر و بیشتر واقعات کا تنہا ماخذ رابعہ بصریہ کے انتقال کے تقریبا 500 سال بعد فریدالدین عطار ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود عطار کی زندگی بارے بہت کم معلوم ہے۔ ان کے بارے میں صرف ان کے دو ہم عصر حضرات اوافی اور طوسی نے بیان کیا ہے۔
   شیخ فرید الدین عطار کا تعلق نیشا پور  (ایران) سے تھا وہ بھلا شام کے علاقہ بصرہ میں رہنے والی رابعہ کے بارے میں 500 سال بعد کیا درست معلومات فراہم کرتے۔ شیخ فرید الدین عطار  خود اپنی زندگی میں اتنے معروف  نہیں رہے ماسوائے اپنے آبائی علاقے کے اور ان کی تصانیف کو ان کے بعد بھی 300 سال تک یعنی  پندرہویں صدی تک کوئی پزیرائی نہیں ملی۔ یہ طبیب تھے۔ان کے مریض انھیں اپنی مشکلات و مصائب و تکالیف سے آگاہ کرتے، جن کے باعث ان کے ذہن پر اتنے خطرناک اثرات مرتب ہوئے کہ  ان نے اپنا مطب بند کر دیا اور مریضوں کو تکالیف میں چھوڑ کر دور دراز کےعلاقوں مثلا شام و حجاز وخوارزم و ترکستان اور بھارت تک کا سفر کیا اور وہاں صوفیاء سے ملاقاتیں کیں۔ جس کے بعد ان کی سوچ اور نظریات مکمل طور پر صوفی ازم کا شکار ہو گئے۔
ان کی 22 کے قریب تصانیف میں سے نصف سے زائد تصانیف ان کی ہیں ہی نہیں۔
  مفتیوں کی کیا کمی ہے جبکہ ایک مفتی ریاض جمیل بھی ہیں جن کے مطابق رابعہ بصری سے جڑے کراماتی واقعات خود ساختہ اختراعات ہیں۔ پھر مفتی طارق جمیل کیونکر کذب و افتراء کا بازار سجائے بیٹھے ہیں۔
        رابعہ بصری کا زہد و تقوی اپنی جگہ یقینا مسلمہ ہو گا جس کی بنا پر طارق جمیل نے غیر معتبر ذرائع سے خبر پائی ہے کہ  رابعہ بصری شادی خانہ آبادی سے متنفر تھیں مگر بقولِ اقبال راہبانیت کی نفسیات کچھ یوں  ہوتی ہے کہ
اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی
ترس رہی ہے مگر لذتِ گناہ کے لئے
     ایک جگہ یوں بھی منقول ہے ہرچند کہ طارق جمیل کے بیانات ہی کی طرح بے حوالہ و بے سند ہے مگر دروغ بر گردنِ راوی (سید عبدالوہاب شیرازی) اور نقلِ کفر کفر نہ باشد کے مصداق طارق جمیل کے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے دل پر پتھر رکھ کر خود اس کے مصنف ہی کے الفاظ میں بیان کئے دیتے ہیں :
"جب  رابعہ بصری کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی شاگرد خواتین ان کے اردگرد بیٹھی تھی ، ان نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ نصیحت کریں تو رابعہ بصری نے فرمایا کہ کبھی بھی بغیر نکاح کے نہ رہو اور پھر اپنا واقعہ سنایا کہ میں جب آدھی رات کو مصلے پر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرتی تھی اس وقت گلیوں میں پھرنے والا چوکیدار جب میرے گھر کے سامنے سے گزرتا تھا تو میرے دل میں بُرے بُرے وسوسے آتے تھے کہ اس وقت سارے لوگ سوئے ہوئے ہیں کوئی بھی نہیں دیکھ رہا ۔ یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ اس نے مجھے زنا سے محفوظ رکھا"
(سید عبدالوہاب شیرازی)
       جب رابعہ بصری کے بارے میں مستند معلومات ہی نہیں تو یہ کیسے کہا جائے کہ ان نے شادی سے انکار کیا یا شادی کی بھی یا نہیں مگر اس سے قبل کہ یہ بیان کیا جائے کہ رابعہ بصری نے بالفرض راہبانیت اختیار کی بھی تھی تو ان کا یہ فعل از روئے کتاب و سنت درست تھا یا نہیں، ذرا اس ماحول کا جائزہ لے لیا جائے جو رابعہ بصری کے گرد و پیش تھا اور جس نے ان پر یہ اثرات مرتب کئے۔ ایک اقتباس کی تلخیص اس سلسلے میں پیشِ خدمت ہے:
          "بصرہ پر ایسا رَنگ چڑھ گیا جو  وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ مختلف قبائل و اقوام کے افراد جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے، جوق دَر جوق تحصیل علم کی غرض سے آنے لگے۔اس طرح یہ شہر ایک نئے رجحانِ عقلی اور ایک عمومی مذہب ادبی و اجتماعی کا گہوارہ بن گیا۔ اِس دَور اور اس کے بعد والے دَور میں بلادِ عربیہ کے درمیان کچھ مادی و سیاسی اختلافات تھے۔ چنانچہ بصری عموماً عثمانی تھے۔ کوفی علوی، شامی، اُموری اور جزائری ,خارجی، یہ متضاد موجیں ایک دوسری سے ٹکراتیں اور قوم کی حیاتِ فکری و اجتماعی کو متاثر کرتیں۔ اس دور میں گروہ بندی بہت زیادہ پھیل گئی تھی۔ کچھ لوگ سنی تھے، کچھ شیعہ، کچھ زہری، کچھ اُموی، اور کچھ خارجی، حتیٰ کہ یہ جماعتیں ایک دوسری سے ٹکرائیں اور تاریخ عرب کو ہولناکیوں سے بھر دیا۔ اہل بصرہ نے اہل کوفہ سے کچھ مختلف رائیں قائم کیں جن کی وجہ سے بصری اور کوفی سکولوں نے بہت سے مسائل وضع کئے۔یہ اثرات، جو چند اوہام و مزاعم باطلہ سے مرکب تھے، ایسے وقت ظاہر ہوئے جب نومسلم، مسلمانوں میں جذب ہو کر زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ گویا اوہام و مزاعم باطلہ بعض معاشروں میں گھر کر چکے تھے۔کوئی بھی اس طوفان کے سامنے نہ ٹھہر سکا کیونکہ عجمیوں نے ایسے فتنے اُٹھا دیئے تھے جن سے اہل عرب آشنا ہی نہ تھے۔رابعہ ؒ کے زمانے میں بصرہ مختلف قسم کی ثقافتوں کا مرکز تھا۔ ایک طرف علماء و فقہاء کی مجالس تو دوسری طرف عیاش طبع گروہ کی گرم بازاری۔ بصرہ میں ایسے صاحب جاہ توانگر بھی تھے جو دادِ عیش دے رہے تھے اور ایسے فقراء بھی جو سد رمق پر گزارہ کر کے بغض و حسد کی نگاہوں سے یہ نمایاں طبقاتی تفاوت دیکھ رہے تھے۔بصرہ میں چاروں طرف سے آنے والوں کی اس قدر کثرت تھی کہ شہر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہاں کے باشندے ایک دوسرے سے مختلف تھے ۔ حکومت کی سیاست ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھی کیونکہ ان اجانب و معالی کو، جو اسلام میں داخل ہوئے تھے یہ بات سخت گراں گزرتی تھی کہ انہیں حقیر سمجھا جاتا ہے۔ اُن کے غصب کردہ حقوق واپس نہیں دیئے جاتے اور قرین انصاف و اسلام معاملہ نہیں کیا جاتا۔ اس آرزو کے پورا کرنے کے لئے انہوں نے دیکھا کہ علم سے بہتر کوئی چیز نہیں جو لوگوں کی نظروں میں اُن کی عزت بڑھا سکے۔ اس لئے اسی میں کمال پیدا کیا۔ اِس دَور میں جن علوم کا رواج تھا وہ یہ تھے: فقہ، حدیث، قرآن، تفسیر، روایت، تاریخ، مغازی، تاریخ خلفاء، قصص الانبیاء، اصولِ فقہ اور افتاء۔یہ علم کی وہ شاخیں تھیں جو رابعہ ؒکے دور میں رواج پذیر تھیں اور جن میں موالی نے کمال پیدا کیا تھا  چنانچہ اموی دورِ حکومت میں بھی قیادتِ فکریہ انہی لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔ گو یہ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے  لیکن ان کے مکدر قلوب کینہ و مکر سے خالی نہ تھے، نہ یہ لوگ اپنے موروثی مراسم بالکل چھوڑ چکے تھے۔ اس لئے اُن کی بیشتر رسوم دین اسلام میں داخل ہو گئیں اور انہوں نے اسلامی روپ دھار لیا۔اسلام ان سے بالکل بری ہے کیونکہ یہ رسوم پرانے مذہب مثلاً برہمنیت و صائبیت سے آئی ہیں۔ اِن خیالات سے مذہبی فرقے پیدا ہو گئے۔ یہ فرقے عجیب و غریب نحیف خیالات کے موید تھے۔ مثلاً حلول، تناسخ، وراثت امامت وغیرہ قسم کی بدعتیں جو تمام کی تمام موالی کی زہر افشانی اور جذبہء انتقام و حسد پر مبنی تھیں۔ حتیٰ کہ خلیفہ ء عادل عمر بن عبدالعزیزؓ کا دور آیا جنہوں نے موالی کی طرف خاص طور پر نظر التفات کی۔ صرف اُن کے دور میں ان لوگوں نے آزادی کا سانس لیا اور جس مساوات کے وہ خواہاں تھے اُس سے پوری طرح بہرہ ور ہوئے۔ خلیفہ نے قضا و فتویٰ کا کام اُن کے سپرد کیا اور خود زہد و تقشف میں مصروف ہو گیا۔ اس لئے وہ اُس سے پوری طرح مطمئن ہو گئے۔ ان موالی علماء میں حسن بصریؒ تھے۔ انہیں مسلمانوں کی پرفساد زندگی کا بڑا دُکھ تھا۔ اس لئے تقشف و زہد کی طرف مائل ہو کر  ہمہ تن مصروف ہو گئے۔حسنؒ اپنے دور میں زاہدوں کے امام تھے۔رابعہ ؒ نے ان تابعین کے حلقہ درس و ذکر میں شرکت کی اور ان کی ثقافت میں بیش از بیش حصہ لینے لگیں، حتیٰ کہ بڑی ماہر ہو گئیں۔ وہ اپنے معاصرین سے زہد میں سبقت لے گئیں۔ اُنہوں نے افتادِ طبع کے مطابق ایک روحانی مذہب ایجاد کیا تاکہ انسان سے خلاصی حاصل کرے اور صرف اللہ کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جائے کیونکہ انسان سے ناکامی، غبن، غلامی ا ور اغراض کے لئے دُنیا کو تسخیر کرنے کی ہوس کے سوا اُس نے کچھ نہ دیکھا تھا۔ البتہ صرف اس جانب اس نے پورا پورا سکون محسوس کیا۔ اس دور میں عصبیت، اختلافِ رائے و مذہب اور حکومت و مناصب کے بارے میں شدید رسن کشی تھی، اس لئے بغض و کینہ اور گروہ بندی حد سے زیادہ تھی" ( ماخوذ از رابعہ بصری کا عہد از ودادالکساکینی: مترجم عبدالصمد صارم)
       یہ صوفیوں کا ابتدائی دور  تھا جس میں عجمی روایات و خرافات کے تحت سرزمینِ اسلام میں توہمات کا بیج بویا گیا اور بہت کچھ خلط ملط ہو کر رہ گیا۔ اس کے بہت بعد جب محدثین کا دور آیا تو ان نے ان توہمات و تعصبات و روایات و خرافات پر کچھ نقد و نظر کی جس سے پتہ چلا کہ صوفیاء کا مذہب ہی جھوٹ پر مبنی ہے  مثلا محدثین کے ذیل کے اقتباسات کو دیکھیئے:
"میرے والد کے نزدیک اہلِ  خیر صالحین (صوفیاء) سے زیادہ کسی کو بھی حدیث کے معاملے میں جھوٹ بولنے والا نہیں دیکھا" (محمد بن یحیی بن سعید القطان)
"جھوٹ ان (صوفیاء) کی زبانوں پر بے ساختہ و بلاارادہ جاری ہو جاتا ہے" (امام مسلم)  (مقدمہ صحیح مسلم بحوالہ تصوف کی حقیقت)
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق حسن بصری 642ء میں پیدا ہوئے اور جب 728ء میں ان کی وفات ہوئی تووہ 86 سال کے تھے۔  نیو ورلڈ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق رابعہ بصری 717 عیسوی میں پیدا ہوئیں اور 801ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ یعنی جب حسن بصری کی وفات ہوئی تو رابعہ بصری صرف 11 سال کی تھیں ۔ ظاہر ہے حسن بصری نے عین وفات کے وقت تو پیغامِ نکاح نہیں بھجوایا ہو گا اور وہ بھی ایک 11 برس کی بچی کو:
ایں خیال است و محال است و جنوں
صرف اور صرف ان امور پر ہی غور کرنے سے طارق جمیل کے کذب و افتراء کی عمارت دھڑام سے گر پڑتی ہے۔
   چلیئے ہم آپ حضرات کے مولانا کو ان کے ممدوح عمران خان کی طرح صادق و امین مان بھی لیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شادی نہ کرا کے راہبانیت اختیار کرنا کیا کتاب و سنت کی رو سے مستحسن ہے ؟ ترکِ دنیا یا راہبانیت کی تو اسلام جا بجا حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
طارق جمیل تو نکاح کی حوصلہ شکنی کرکے رہبانیت پر ابھار رہا ہے جبکہ  قرآن نکاح کا حکم دے رہا ہے:
وَاَنۡكِحُوا الۡاَيَامٰى مِنۡكُمۡ وَالصّٰلِحِيۡنَ مِنۡ عِبَادِكُمۡ وَاِمَآئِكُمۡ‌ ؕ اِنۡ يَّكُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ يُغۡنِهِمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ وَلۡيَسۡتَعۡفِفِ الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغۡنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ (33-24:32)
اور اپنی بیواؤں کا، رنڈوؤں کا اور ذی صلاحیت غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرو۔ اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ بڑی سمائی رکھنے والا اور علم والا ہےاور جو لوگ نکاح کرنے کی مقدرت نہیں پا رہے وہ اپنے کو ضبط میں رکھیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے ۔
قرآن رہبانیت کو دین میں بدعت (نیا کام) قرار دیتا ہے:
وَرَهۡبَانِيَّةَ اۨبۡتَدَعُوۡهَا مَا كَتَبۡنٰهَا عَلَيۡهِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوۡهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا‌ ۚ
(57:27)
اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کی۔ ہم نے ان کے اوپر یہ قطعا فرض نہیں کی تھی مگر اللہ کی رضا جوئی درکار تھی۔ پس انہوں نے اس کی بھی رعایت اس طرح نہیں کی جس طرح اس کو واقعی نبھانا تھا۔
خود طارق جمیل کا دیوبندی مکتبہ فکر اس بارے میں کیا کہتا ہے یہ دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے میں لکھا ہے:
"رہبانیت ،گوشہ نشینی اور رہبانیت اختیار کرنا۔ جس کا حاصل نکاح ، جائز لذتوں اور لوگوں سے اختلاط کا چھوڑنا ہے۔ اس کو موجب اجر وثواب سمجھ کر اختیار کرنا اسلام میں جائز نہیں، لا رہبانیة في الإسلام میں اسی کی نفی کی گئی ہے، لیکن علامہ ابن حجر نے فرمایا کہ : یہ حدیث مجھے ان لفظوں سے نہیں ملی، البتہ ابن عباس سے مرفوعاً منقول ہے: ”لا صَرورةَ في الإسلام“ ۔ أخرجہ أحمد و أبوداوٴد وصححہ الحاکم (فتح الباری: ۹/۱۱۱، دارالمعرفة بیروت) ۔اسلام میں رہبانیت مطلوب ہی نہیں ہے؛ بلکہ تقوی مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی جھوٹ ، غیبت، بہتان، چوری، زنا اور تمام صغائر و کبائر سے بچے (معارف القرآن: ۸/ ۳۲۲-۳۲۳، نعیمیہ 
     (دیوبند)

ہمیں کتاب و سنت کی اتباع کرنی چاہیئے نہ کہ ادھر ادھر کے رطب و یابس اور بے سروپا قصے کہانیوں کی.درست کہا تھا اقبال نے کہ
تمدن، تصوف ، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پُجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ