وجود و سجودِ ملائکہ
وجود و سجودِ ملائکہ
از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء۔ گوجرہ
drziaullahzia@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
یہ درست ہے کہ قرآنِ مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس نے ایک ہی آنِ واحد میں عامی و عارف دونوں کو سمجھا دیا۔ قرآنِ مجید بنیادی طور پر ذکر (یاددہانی) کی کتاب ہے اور اس حوالے سے اس کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لئے آسان کر دیا گیا:
لَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ (54:40) بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا ہے قرآن کو ذکر(یاددہانی) کے لئے۔ یعنی جو انسان اس سے خدا کی یاد یا آخرت کی تنبیہ اخذ کرنا چاہے تو اس کے لئے تو یہ قرآن بہت آسان ہے۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔ چونکہ یہ کلامِ ربانی ہے، ہما شما کا کلام نہیں لہذا اس میں تنوع اور تبحر بھی انتہاء کا ہے اور اس کے عنوانات کی بھی کوئی حد نہیں۔اس میں ضمنا زمین و آسمان کی ہر شے کا تذکرہ موجود ہے، جس کو سمجھنا انہی کو زیبا ہے کہ جو ان اشیاء کا علم رکھتے ہیں:
كِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰيٰتُهٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَۙ (41:3) یہ وہ کتاب ہے کہ جس کی آیات کو تفصیل سے کھولا گیا ہے کہ یہ قرآن عربی زبان کا ہے ، ان لوگوں کے لئے کہ جو صاحبانِ علم ہیں۔ هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِيَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالۡحَـقِّۚ يُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ (10:5)
وہی تو ہے کہ جس نے سورج کو ضیاء (خود روشن) بنایا اور چاند کو نور (منعکس روشنی والا) اور اس کی منازل ٹھہرا دیں ٹاکہ تم گنتی کر پاؤ سالوں کی اور حساب لگا سکو۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی نے صرف حق ہی کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔ اللہ تعالی آیات کو کھولتا ہے صاحبانِ علم کے لئے (جو جس حد تک نظامِ کائنات کو سمجھتا ہے، اسی قدر اس پر عقدہ کشائی ہوتی ہے).
اور علم کی کوئی حد بھی نہیں:
نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُؕ وَفَوۡقَ كُلِّ ذِىۡ عِلۡمٍ عَلِيۡمٌ (12:76) ہم درجات میں بڑھاتے ہیں، جسے مناسب سمجھتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے اوپر ایک اور علم والا موجود ہے۔
لہذا ہر کسی نے اپنے اپنے علمی مرتبے کے اعتبار ہی سے قرآن فہمی کرنی ہے۔
اب سجدہ ہی کو لیجیئے۔ ایک سجدہ اصطلاحی معانی میں نماز کا سجدہ ہے اور ایک سجدہ اپنے اصل لغوی مفہوم میں ہے، ہر چند کہ حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری کا اقرار اور اس کے حضور سرِ تسلیم خم کرنا مگر جب یہ سجدہ زمین و آسمان کی طبعی اشیاء کا ہو گا تو اس سے مراد نماز والا سجدہ ہر گز نہیں لیا جائے گا۔ اس سے مراد فرمانبرار ہونا لیا جائے گا۔
وَلِلّٰهِ يَسۡجُدُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ
اور اللہ ہی کے لئے سجدہ ریز ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔مِنۡ دَآبَّةٍ وَّالۡمَلٰۤئِكَةُ
خواہ وہ حرکت کرنے والے جاندار ہوں یا ملائکہ ہوں۔ اور(ان کا سجدہ یہ ہے کہ) هُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ وہ استکبار نہیں کرتے بلکہ
يَخَافُوۡنَ رَبَّهُمۡ مِّنۡ فَوۡقِهِمۡ خوف کھاتے ہیں اپنے رب کا اپنے اوپر سے (اور ان کا سجدہ یہ ہے کہ)يَفۡعَلُوۡنَ وہ کام سرانجام دیتے ہیں مَا يُؤۡمَرُوۡنَ جو بھی انہیں سونپا جاتا ہے۔ (50-16:49)
اس کی دوسری وضاحت یہ ہے کہ
لَهٗۤ اَسۡلَمَ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّكَرۡهًا (3:83) اسی کے حضور فرمانبرداری میں سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے خواہ خوشی سے ، خواہ زبردستی۔ اسی کو سجدہ کہا گیا ہے کہ لِلّٰهِ يَسۡجُدُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّكَرۡهًا (13:15) اللہ ہی کے آگے جھکا ہوا ہے جو بھی کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں ، خواہ خوشی سے ہو یا مجبوری سے۔
اب اگر کوئی کہے کہ ملائکہ تو ذی شعور مخلوق ہیں ۔ ان نے باقاعدہ اللہ تعالی سے خلافتِ آدم کے سلسلہ میں بحث کی تو پھر جب زمین و آسماں کو خدا سے شرفِ ہمکلامی ملا تو کیا ان نے عربی، فارسی، عبرانی یا سریانی میں گفتگو کی تھی۔ وہ بے جان مخلوق ہیں اور خدا کی اصطلاحی اعتبار سے کوئی زبان ہے ہی نہیں بلکہ خالق کا کسی بھی مخلوق سے اسلوبِ گفتگو دراصل اس مخلوق سے خالق کے رابطے یعنی
communication
کا اسلوب ہے نہ کہ کسی مخصوص انسانی زبان کا پیرایہء اظہار۔ بعینہ بروزِ قیامت جب ہاتھ پیر بولیں گے تو انسان کو تعجب ہو گا اور وہ اپنی ہی جلد یعنی کھال سے پوچھیں گے
لِمَ شَهِدْتُّمۡ عَلَيۡنَا ؕ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰهُ وہ کہیں گے کہ نطق (بولنا) تو ہمیں اللہ نے عطا کیا ہے الَّذِىۡۤ اَنۡطَقَ كُلَّ شَىۡءٍ جس نے ہر شے کو نطق بخشا ہے (41:21)۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس نطق سے مراد بولنا نہیں بلکہ لِمَ شَهِدْتُّمۡ عَلَيۡنَا (تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی )کے مصداق زبان سے نہیں بلکہ زبانِ حال سے شہادت (گواہی) ہے۔
بعینہ زمین و آسمان کو بھی گویائی عطا ہوئی ہے اور فرشتوں کی بحث کی طرح اس غیر عاقل اور بے جان مخلوق نے بھی خدا سے باقاعدہ بذریعہ قیل و قال کلام کیا۔
ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ پھر وہ آسمان کی طرف استوٰی (متوجہ) ہوا جبکہ وہ ابھی دھواں دھواں تھافَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ پھر اس نے اس (آسمان) سے کہا اور زمین سے بھی کہ تم دونوں آؤ بخوشی یا زبردستی قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآئِعِيۡنَ دونوں نے کہا کہ ہم بخوشی آتے ہیں (41:11)
اب آپ ہی بتائیے کہ جب یہ قیل و قال کسی زبان اور اس کے قواعد سے ماوراء تھی تو کیا آغازِ آفرینش پر فرشتوں کا بولنا ۔۔۔ ہم اور آپ کا بولنا تھا ؟ اور اگر تھا تو کس زبان میں یہ گفتگو ہوئی؟
اقبال کہ بقولِ قائداعظم اسلام کو جن سے بہتر کسی نے بھی ان کے ہم عصر لوگوں میں سے نہیں سمجھا اپنی کتاب
Reconstruction of Religious thoughts in Islam
یعنی تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ میں اسی ضمن میں فرماتے ہیں کہ
"The object of the Qur' an in dealing with these legends is seldom historical; it nearly always aims at giving them a universal moral or philosophical import".
"ان قصوں کے بیان سے قرآن کا مقصود اکثر تاریخی نہیں ہوتا، اس کا مطمعء نظر تو ہمیشہ ایک عالمگیر اخلاقی یا فلسفیانہ اہم نکتے کو سمجھانا ہوتا ہے"۔
ملائکہ کو جو لوگ ملکہ، ملک وغیرہ سے ماخوذ کرکے از قسم ذی شعور و فرماں بردار توانائی ( Energy
مانتے ہیں ، وہ ملائکہ کے وجود سے انکاری نہیں کیونکہ ملائکہ کی شکل و شباہت کہیں بھی استناد کے ساتھ بیان میں نہیں آئی ماسوائے اس کے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہےکہ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِىۡۤ اَجۡنِحَةٍ مَّثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ؕ يَزِيۡدُ فِى الۡخَـلۡقِ مَا يَشَآءُ (35:1) وہ ملائکہ کو پیغام رساں بناتا ہے جو اَجۡنِحَةٍ والے ہیں، دو دو، تین تین اور چار چار، زیادہ بھی کرتا ہے وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے۔ "اَجۡنِحَةٍ" کا واحد جناح ہے جس کا مطلب پر بھی ہے، بازو بھی ہے اور بال و پر
کے حوالے سے طاقت بھی ہے ، آپ اسے توانائی کی
frequency
بھی کہ سکتے ہیں
اور
wavelength
بھی۔ آپ نے ملائکہ اور اَجۡنِحَةٍ کو اپنے اپنے علم کے مطابق سمجھنا ہے۔ اگر کسی کا علم اسے پروں تک پہنچاتا ہے تو پھر بھی وہ ملائکہ پر ایمان رکھتا ہے اور جس کا علم اسے
Frequency یا wavelength
تک پہنچاتا ہے تو وہ بھی ملائکہ پر ایمان رکھتا ہے۔
فرشتے نظر نہیں آ سکتے لہذا ہم کچھ کہ بھی نہیں سکتے۔ فرشتے جب بھی نظر آتے ہیں تو اپنی اصل شکل میں عموما نہیں آتے ۔۔ مثال کے طور پر جو فرشتہ اللہ تعالی نے مریم علیہ السلام کی طرف بھیجا تھا تو اس بارے میں بھی فرمایا ۖفَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهَا رُوۡحَنَا (پھر ہم نے بھیجا اس کی طرف اپنا ایک "روح" فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا پھر وہ متمثل ہوا اس کے لئے بصورتِ بشر مکمل
(19:17)
نبئ اکرم ﷺ کا جبرئیل کو دیکھنا از روئے قرآن ثابت تو ہے مثلا سورۃ النجم اور سورۃ التکویر میں۔۔۔۔مگر کس شکل میں دیکھا اس بارے میں احادیث متنوع، مختلف بلکہ بہت سی مستند بھی نہیں۔ اگر استناد سے ثابت ہو بھی جائے تو کیا وہ اصلی صورت تھی یا کہ مریم علیھا السلام کی طرح تمثیلی شکل تھی؟ واللہ اعلم بالصواب
لہذا بات جھگڑے کی نہیں۔ ایمان کے لئے ملائکہ کے وجود کو، ان کی قرآن میں بیان کردہ صفات کو ماننا ضروری ہے، خواہ اسے کچھ لوگ ذی شعور و تابع فرمان توانائی کی صورت میں مانیں ، خواہ روایتی و رسمی طور پر مسلمہ فرشتوں کی صورت میں۔۔۔ باتیں دونوں درست ہیں ۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔
یاد رہے کہ فرشتے ہوں، یا جنت ، جہنم یہ سب عالمِ غیب کے امور سے ہونے کے سبب متشابہات کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی کا علم خواہ کتنا ہی توپ ہو اسے متشابہات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیئے کیونکہ
مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ قرآن مجید میں کچھ آیات محکمات ہیں وہی اصل کتاب ہیں وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ اور دوسری شبہ والی ہیں فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ پھر جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ان کے درپے ہوتے ہیں جو ان میں سے شبہ والی ہیں فتنہ پسندی کے لئے وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ اور اس کی تاویل کے لئے وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ جبکہ اس کی تاویل تو اللہ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ اور وہ جو راسخ ہیں علم میں يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو بس اس پر ایمان لاتے ہیں كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا سب کچھ تو ہمارے رب ہی کے پاس ہے وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ اور اس بات کو وہی یاد رکھتے ہیں کہ جو صاحبانِ فہم و فراست
ہیں (3:7)
لہذا ہمیں اس ضمن میں اسی پر اکتفاء کرنا چاہیئے جو قرآن نے ہمیں بتا دیا۔ متشابہات کے ضمن میں اپنے علم و فکر کے نتیجے میں ہم جہاں تک پہنچے ہیں اس کو صرف اپنی سمجھ تک محدود رکھنا ہی بہتر ہے کیونکہ ملائکہ عالمِ متشابہات سے ہیں لہذا اس ضمن میں احتیاط ہی واجب ہے۔
Comments
Post a Comment