تلاشِ گم شدہ از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

 

تلاشِ گمشدہ از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

   ہمارے شعبہ کے ایک روحِ رواں جو سرتاپا مجسم تصویرِ محبت و کسرِ نفسی ہیں اور بے لوثی و بے غرضی سے سرشار ہو کر انتظامیہ سے لے کر ہم جیسے ہیچمقداروں تک سب کے کام آنا اپنا خلقی و وصفی و پیدائشی فریضہ سمجھتے ہیں لا پتہ ہیں۔ آخری بار بروز ہفتہ مؤرخہ 25 جون 2022 کو جب ساڑھے دس بجے کا عمل تھا انہیں ہمارے شعبہ کے تدریسی و مجلسی کمرے میں ایک عدد بستہ اور ڈھیروں دستاویزات کے ہمراہ حالتِ اضطراب میں پایا گیا تو دریافت پر معلوم ہوا کہ میر مدرس کے ہاں کسی اجلاس کے سلسلہ میں انہیں جامعہء طبیہ کے مرکزی مرکزی دفتر میں 11 بجے سے قبل پہنچنا ہے۔ چنانچہ ہماری سنی ان سنی کرکے وہ کنی کترا کر بستہ بغل میں دبائے عازمِ جامعہ ہوئے اور ہم منہ تکتے رہ گئے۔ ان سے ملاقات پر معلوم ہوا کہ ان کی اس وقتی بے رُخی کی طرح ان کا فون بھی عارضی طور پر داغِ مفارقت دے چکا ہے نیز یہ کہ انہیں اثنائے راہ میں کچھ امورِ خانہ داری سے بھی سابقہ ہے اور کچھ آٹے دال کا بھاؤ بھی معلوم کرنا ہے، نیز اپنے بال بچوں کو بھی منزلِ مقصود پر پہنچانا ہے۔ ہم نے ان سے بہت کہا کہ جناب آخر ہم بھی تو کسی کے بچے ہیں:

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے

غیر سے تجھ کو محبت ہی سہی

مگر وہ فرمانے لگے کہ شیخ صاحب کا فرمان ہے کہ جلدی اجلاس میں پہنچا جائے چنانچہ ان نے مزید بات کرنے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ

میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی 

شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی

 پھر ہم میں بھی مجالِ انکار کہاں تھی کہ شیخ صاحب ہمارے بھی تو محترم ہیں کہ آخر کو اب خلافت کا بارِ گراں ان کے دوشِ ناتواں پر پڑا ہی چاہتا ہے اور موصوف سمیت ہم سب کو اس بار کو بار بار اٹھانے میں ان کا ممد و معاون ہونا ہے۔

بہرحال بات ہو رہی تھی موصوف کی جو 

چل دیئے وہ بھی ہمیں چھوڑ کے تنہا آخر

ساتھ چلتے تو پھر ہم جیسے ہیں ویسے ہوتے

اب تو ہم ایسے ضیاء ہیں کہ نہ پوچھیں ہم سے

وہ اگر ساتھ کبھی ہوتے تو کیسے ہوتے

بہرطور ان سے کہا تھا کہ جب 3 بجے دوپہر کا عمل ہو تو ہماری آواز کو صدا بہ صحرا نہ ہونے دیجیئے گا اور فون پر کان دھریئے گا ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ وہ وقت اور آج کا یہ سماں کہ تقریبا 48 گھنٹے ہونے کو آئے، موصوف کا کچھ علم نہیں کہ کہاں ہیں۔ فون پر اتنی گھنٹیاں بجا بیٹھے جتنی ہمارے فون پر کبھی قسم لینے کو بھی نہیں بجتیں ۔ یعنی موصوف کم یاب ہی نہیں اب تو نایاب ہو چکے ہیں۔۔ ویسے ایسے نایاب اور پرسوز لوگ اس دورِبے جنوں میں اب ملتے ہی کہاں ہیں۔ خیال تھا کہ میاں نصیر ان کو ڈھونڈ نکالیں گے کہ آخر کو وہ بھی انہی کے محلے میں رہائش رکھتے ہیں مگر خود جناب نصیر صاحب ہی  کسی کی نصرت پر ایسے مامور ہیں کہ انہیں دوست احباب کے لئے فرصت ہی نہیں، ان نے بھی فون نہ اٹھایا۔ ہمیں کسی عابدِ شب زندہ دار نے پہلے ہی سے آگاہ کر رکھا تھا کہ اس قبیل کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے سب سے پہلے ان کے اہلِ خانہ سے پروانہءملاقات حاصل کرنا ضروری ہے مگر ہم نے اس تنبیہ الغافلین کو نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ نصیر ملا اور نہ موصوف خاں صاحب۔۔۔ اب آدھی رات ہو چکی مگر موصوف کا کچھ پتہ نہیں کہ کہاں ہیں۔۔ خاں صاحب اگر اس اشتہار کو خود پڑھیں تو فورا اپنے محلِ وقوع اور حدودِ اربعہ کو باعتبارِ طول بلد و عرض بلد مفصل لکھ بھیجیں۔ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور تمام مندرجات صیغہء راز میں رکھے جائیں گے۔ اگر کسی صاحب کو ان کے بارے میں معلوم ہو تو ان کی خیریت سے مطلع فرمائیں کہ ان کی عدمِ دستیابی سے کافی کام معرضِ التواء میں پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کا دماغی توازن بالکل بلکہ ہم جیسوں سے کہیں زیادہ درست ہے اور وہ ہمیشہ باقائمِ ہوش و حواس رہ کر ہم سمیت سب کے ہوش بلکہ ہاتھوں کے طوطے اڑائے رکھتے ہیں۔ کبھی ہمیں کسی کمیشن سے ڈراتے ہیں تو کبھی کسی مشن سے ۔ لہذا ان پر جو بھی ہاتھ ڈالے سوچ سمجھ کر ڈالے اور سمجھا بجھا کر کل اپنی جائے کار پر واپس لے آئے کہ بہت سے اہم مشورے کرنے ہیں۔ اگر خود  پڑھیں تو واپس آ جائیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ کچھ ان سے سنا جائے گا کچھ انہیں سنایا جائے گا کہ شریفوں کی حکومت میں گھر گھر یہی حال ہو چکا ہے:

کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانہء محبت

میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے

 بہرحال پس از تلاشِ بسیار اب کہیں جا کے معلوم ہوا ہے کہ موصوف مصروف تھے اور گم شدگی خودساختہ تھی اور مخلوقِ خدا سے اعراض امورِ خانہ داری کے سبب تھا کہ زمینی پانی کو کھینچ نکالنے سے پمپ انکاری تھا لہذا نیا سوراخ کرنا اور اچھی بھلی زمین میں اس امید پر چھید ڈالنا ضروری ہو گیا تھا کہ شاید اس دورِ زیاں کار میں پانی کی جگہ تیل نکل آئے اور ہمارا ملکِ زبوں حال مالامال ہو اور ہمارا حال بھی اس دور کے عربوں کا سا حال ہو کہ جنہیں دیکھ کر      بحضورِباری انسان شکوہ کناں ہوتا ہے کہ

نہ خود بیں، نے خدا بیں نے جہاں بیں

یہی شاہکار ہے تیرے ہُنر کا ؟

کیونکہ جتنے سوچنے والے اعلی دماغ ہیں وہ اس دور میں زیادہ تر برصغیر میں پیدا ہوئے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ یہاں طارق جمیل جیسے یا طاہر اشرفی جیسے یا کوکب نورانی اوکاڑوی جیسے یا طالب جوہری جیسے عربوں  اور ایرانیوں ہی کی طرح کے روایت زدہ دماغ بھی ہیں مگر داد دیجیئے کہ ذہنِ ہندی کے کمالات نے بفضلِ باری اس خطہء برصغیر میں وہ اعلی و ارفع نابغہ ہائے روزگار شخصیات کو جنم دیا ہے کہ اب تک ساری دنیا میں جن کے تبحرِ علمی و تعمقِ فکر کو اس دور میں بلکہ گزشتہ کئی صدیوں میں بھی کوئی نہیں پہنچ سکا اور جن کے فیوض و برکات کے اثرات جس شخص پر مرتب ہو جائیں وہ مدرسہ و خانقاہ اور مکتب و مسجد  کی ابلہی سے بیزار ہو اقبال کی طرح  نمناک وغمناک اٹھتا ہے۔ میری مراد سرسید احمد خان، علامہ عنایت اللہ خان المشرقی،علامہ اقبال، عبیداللہ سندھی، سید مودودی، غلام احمد پرویز، حمیدالدین فراہی، شبلی نعمانی، امین احسن اصلاحی ، ڈاکٹر خالد ظہیر اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگوں سے ہے۔ اگر آپ صرف علامہ مشرقی کی تذکرہ جلد اول اور علامہ اقبال کی

Reconstruction

 ہی پڑھ لیں تو آپ کبھی بھی کسی پیر و ملا کا وعظ سن سکیں گے اور نہ مسجد کا خطبہ۔ بہرحال قصہ مختصر کہ موصوف خاں صاحب مل چکے مگر ہم معلوم نہیں کہاں کھو گئے مگر یقین مانیئے کہ ان لوگوں سے استفادہ کے بعد رفتہ رفتہ بچپن سے پچپن تک کےتمام دینی و مذہبی رجحانات و تصورات کی یکسرکایاکلپ ہو گئی اور ہم کیا سے کیا ہو گئے۔ اب ہم بھی گویا گمشدہ ماضی ہیں جبکہ ہمارا حال کچھ سے کچھ ہو چکا ہے ۔: 

عمر ہا در کعبہ و بتخانہ می نالد حیات

تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں

بصورتِ دیگر ہم بھی یا عمران خان اور شہباز شریف کی طرح عربوں کے چرنوں میں بیٹھے ہوتے یا کسی فرقے کی تبلیغی جماعت میں بھرتی ہوئے ہوتے۔







    






Comments

  1. ڈاکٹرطاہر احمد خانJune 28, 2022 at 7:04 PM

    مین جناب ضیاء اللہ صاحب کا مشکور ہوں کہ انھوں نے مجھ نا چیز کو تلاش کرنےاور مجھے ڈھونڈ نکالنے میں کوئی داقیقه فروگزا شت نہ کرنے
    کا ماجرا اعلی ادبی پیرا ے میں ادبی ذوق لطیف میں بیان کیا۔۔۔ڈاکٹر طاہر احمد خان طبیب ایلو پتھک طریقہ علاج ۔۔۔سینئر میڈیکل افسر سول ہاسپیٹل فیصل آباد پاکستان

    ReplyDelete
    Replies
    1. ڈاکٹر طاہر احمد خان ۔۔۔June 28, 2022 at 7:21 PM

      املا ی درستگی ۔۔میں ۔۔۔دقیقہ ۔۔

      Delete
    2. پسند فرمودگی کا شکریہ۔ مگر آپ کی اطلاع و اصلاح کے لئے عرض ہے کہ dale کی فارماکالوجی کے مطابق دیگر قدیم طریقہ ہائے علاج کی طرح ایلوپیتھی بھی کب کی مر چکی۔ اب صرف ایک ہی طریقہء علاج رائج ہے اور یہی مسلمہ ہے جس کا نام ہے سائینسی طریقہء علاج
      Scientific medicine
      لہذا ہم اور آپ میڈیکل سائینٹسٹ ہیں۔

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ