بچوں کو نماز نہ پڑھنے پر مارنا از جاوید احمد غامدی
بچوں کو نماز نہ پڑھنے پر مارنا
(ایک روایت سے استدلال)
جاوید احمد غامدی
حدیث کی بعض کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ بچے اگر دس سال کی عمر تک نماز ادا نہ کریں تو اُنھیں مارا جائے گا، یہاں تک کہ وہ نماز ادا کرنا شروع کردیں۔
اِس مضمون کی روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘. (سنن ابو داؤد ،رقم ۴۹۵)
’’عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمھاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انھیں مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔“
اِس مضمون میں ہم اِس روایت کو محدثین کے قائم کردہ سند کے معیارات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ذخیرۂ حدیث میں یہ روایت صرف دو صحابہ سے منقول ہے:
۱۔سبرہ بن معبد الجہنی۔ ۲۔عبد اللہ بن عمرو۔
پہلے صحابی ،سبرہ بن معبد الجہنی سے اِس ضمن میں جو بھی روایات نقل ہوئی ہیں، محدثین کے نزدیک وہ سب کی سب ’’ضعیف‘‘ ہیں۔ اِن روایات کے ضعف کی بنیادی وجہ ایک راوی ’’الربيع ا لجہنی‘‘ ہیں ۔ علماے حدیث اس روایت پر جو حکم لگاتے ہیں، وہ یہ ہے:
’إسناد ضعيف، فيه عبد الملك بن الربيع الجهني وهو ضعيف الحديث‘.
اِس سلسلے کی روایات مسند احمد،ابو داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں۔
اِس کے بعد دوسرے صحابی عبد اللہ بن عمرو ہیں۔ اُن کی نسبت سے یہ روایت سب سے پہلے ’’المدونۃ الکبریٰ‘‘، امام مالک میں نقل ہوئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں:
وقال مالك: تؤمر الصبيان بالصلاة إذا أثغروا. قال سحنون، عن ابن وهب، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، وسبرة الجهني أن رسول الله ﷺ قال: ’’مروا الصبيان بالصلاة لسبع سنين، واضربوهم عليها لعشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘.(۱/ ۱۳۲)
’’مالک کہتے ہیں: بچوں کے جب دودھ کے دانت گر جائیں تو انھیں نماز کا حکم دیں،سحنون ابن وھب سے اور وہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص اورسبرہ الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تمھاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انھیں مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔
یہاں اس روایت میں دونوں صحابہ کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے، گویا واقعہ ایک ہی ہے۔ لیکن اِس روایت میں مسئلہ یہ ہے کہ اِسے ایک راوی ’’ابن وھب‘‘ بیان کررہے ہیں جن کی پیدایش ہی ۱۲۵ ھ کی ہے،جب کہ جن صحابہ سے وہ نقل کر رہے ہیں، اُن دونوں کا انتقال ۶۵ ھ سے پہلے ہوچکا تھا۔
گویا یہ بھی ایک منقطع روایت ہے اور سند کے لحاظ سے ناقابل قبول ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام مالک نے اِس روایت کے علم میں ہونے کے باوجود خود بھی اسے اپنی ’’موطا‘‘ کا حصہ نہیں بنایا۔
اِس کے بعدعبداللہ بن عمرو سے سب سے پہلے یہ روایت حدیث کی جس کتاب میں سامنے آئی، وہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ ہے۔اس روایت کے الفاظ یوں ہیں:
عن داود بن سوار، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال نبي الله ﷺ: ’’مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا واضربوهم عليها إذا بلغوا عشرا وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘.(رقم ۳۳۹۴)
’’داؤد بن سوار عمرو بن شعیب سے، وہ والد سے اور وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تمھاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انھیں مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔“
دراصل روایت کا یہی وہ سلسلۂ سند ہے جسے بعد کی کتابوں میں بھی اپنایا گیا اور بعض علما نے اسے ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دے کر قبول کرلیا اور یوں یہ حدیث بہت شہرت پا گئی۔اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قابل اطمینان بات تصور کر لیا گیا۔ علما بالعموم اس روایت کا یہ حکم بیان کرتے ہیں: إسناده حسن في المتابعات والشواهد رجاله ثقات وصدوقيين عدا سوار بن داود المزني.
لیکن ہماری راے میں اس سلسلے کی روایات پر دقت نظر سے غور کیا جائے تو سند کے معیارات کی روشنی میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں: پہلا یہ کہ ان تمام روایات میں ’سوار بن داود ‘ موجود ہیں جن کے بارے میں متعدد علماے جرح و تعدیل مطمئن نہیں ہیں۔مثلاً حافظ ذہبی نے ان پر ’’ضعف‘‘ کا حکم لگایا ہے۔اسی طرح ’’تقریب التہذیب‘‘ کے مصنف کی راے میں بھی قابل اعتماد نہیں ہیں۔ان کے بقول:
’ضعيف يعتبر به ، ولم يحسن الرأي فيه سوى أحمد‘.لہٰذا تنہا صرف اسی ایک راوی کی بنا پر عبد اللہ بن عمرو سے مروی اس سلسلے کی تمام روایات ’’ضعیف‘‘ قرار دی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاصر علماے حدیث نے بھی اس روایت کو سنداً قبول نہیں کیا۔ دوسرا سوال اس سلسلے کی روایات میں یہ اٹھتا ہے کہ ’’عمرو بن شعیب‘‘ اپنے والد کی نسبت سے خود اپنے ہی دادا سے روایت کررہے ہیں یا اُن کے والد اپنے دادا سے روایت کر رہے ہیں (عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده)،روایت میں اس کی کوئی صراحت نقل نہیں ہوئی۔چنانچہ اگر پہلی صورت ہے تو روایت میں ارسال ہوگا اور دوسری ہے تو انقطاع ہوگا۔تیسری بات یہ کہ خود ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘،جہاں یہ روایت سب سے پہلے نقل ہوئی، وہیں ابن ابی شیبہ نے اِس پوری بات کو ایک تابعی کے قول کے طور پر الگ سے بھی نقل کیا ہے،جس سے اِس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سرے سے حدیث تھی ہی نہیں، بلکہ ایک تابعی کا قول تھا ــــــ چنانچہ ’’مصنف‘‘ ہی میں ہے: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن أبي رجاء، عن مكحول، قال: ’’يؤمر الصبي بها إذا بلغ السبع ويضرب عليها إذا بلغ عشرا‘‘.(رقم۳۴۰۲) ’’وکیع کہتے ہیں کہ سفیان نے ابی رجا سے اور انھوں نے مکحول سے سنا کہ جب تمھاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انھیں مارو۔‘‘
لہٰذا سند میں ضعف اور درجہ بالا علل، دونوں ہی کی بنا پر یہ روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
یہ غالباً کسی صحابی کا اثر یا تابعی کی اجتہادی راے تھی ، جو ایسے نقل ہوگئی ہے۔اِس بات کی تائید ’’مسند بزار‘‘ کی ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے،علم حدیث کے ایک بڑے عالم امام شوکانی نے اپنی کتاب ’’نیل الاوطار‘‘ میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا کہ ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ یہ پوری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک کاغذ پر لکھی ہوئی ملی تھی جس میں رسول اللہ کی نسبت کے بغیر ہی کسی شخص کے الفاظ لکھے تھے کہ اس کے بقول غالباً نو سال کی عمر میں مارا جا سکتا ہے۔
روایت یہ ہے:
عن عبيد الله بن أبي رافع، عن أبيه رضي الله عنه، قال: وجدنا صحيفة في قراب سيف رسول الله ﷺ بعد وفاته فيها مكتوب: ’’بسم الله الرحمٰن الرحيم، فرقوا بين مضاجع الإخوة والأخوات لسبعِ سنين، واضربوا أبناءكم على الصلاة إذا بلغوا أظنه تسعا‘‘.(رقم ۳۳۳۲)
’’عبید اللہ بن ابی رافع اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ کی وفات کے بعد تلوار کے پاس ایک کاغذ لکھا ملا تھا جس پر لکھا تھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،بہن بھائیوں کے بستر سات سال کی عمر میں الگ کردواور بچوں کو میرے خیال کے مطابق نو سال کی عمر میں نماز ادا نہ کرنے پر مارو۔‘‘
اِس روایت کو قبول کر کے بعض علما نماز نہ پڑھنے پر مارنے کو محض تربیتی تادیب کے معنی میں مراد لیتے ہیں، لیکن ہماری طالب علمانہ راے میں اس روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی اور یہ ایک ’’ضعیف‘‘ روایت ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بخاری اور مسلم تک نے اپنے انتخاب میں اس حدیث کو قبول نہیں کیا۔اس روایت کی سند پر کلام کے ساتھ ساتھ یہ روایت علم و عقل کے مسلمات اور دین کے مجموعی مزاج سے بھی بظاہر متصادم نظر آتی ہے۔جب شریعت میں نماز کا مکلف ہی بالغ فرد ہے تو دس سال کی عمر میں نماز ادا نہ کرنے پر مارنا ناقابل فہم ہے۔اِس کے ساتھ ساتھ نفسیات کے ماہرین بھی یہ بتا سکتے ہیں کہ بچپن کی یہ سختی کیسے انسانوں کے مزاج اور مذہب سے تعلق پر اثر انداز ہوتی ہے،جب کہ دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی کریم النفس شخصیت، جنھوں نے پوری زندگی دین کو نرمی، ملائمت اور استدلال سے سمجھایا، وہ کیسے علی الاطلاق ایسی ہدایت کر سکتے ہیں جو جسمانی مار، نفسیاتی دباؤ اور عبادت جیسے شعوری عمل کو زبردستی ادا کرانے کی ترغیب بن جائے۔واللہ اعلم ۔
Comments
Post a Comment