حفاظتِ سُنت و آثار
حفاظتِ سنت و آثار
تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء
یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن تو محفوظ ہو مگر جس پر قرآن اترا، اس کی سیرت کو خدا نے محفوظ نہ کیا ہو۔ وہ قرآنِ ناطق ﷺ جو مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں قرآن کی عملی تشریح کرتا چلا جاتا تھا، اس کا ایک ایک حُسنِ ادا لازما محفوظ ہے۔
ہمیں کیا معلوم تھا کہ خدا کیا ہے، قرآن کیا ہے؟ ہم نے خود تو کبھی جبرئیلِ امیں کو وحئ الہی لے کر قلبِ مطہرِ حضور پر اترتے نہیں دیکھا۔ یہ غیرمرئی اطلاعات تو ہمیں حضور ﷺ نے ہی بہم پہنچائی ہیں، ورنہ ہماری کیا اوقات کہ ہم سدرۃ المنتہی اور کرسی و عرش سے آگاہ ہوتے۔ ہمارا تو ایمان ہی آنحضرت ﷺ کے دم قدم سے ہے۔
یہ درست ہے کہ بہت کچھ رطب و یابس حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے سر جڑ دیا گیا مگر یہ بھی درست ہے کہ آپ ﷺ اور آپ کی مقدس جماعت کے نقوشِ سیرت کی کوئی ایک ادا بھی ضائع نہیں ہوئی۔
جمالِ تبسم، جُنبشِ لب، اندازِ نشست و برخاست، حُسنِ گفتار، نقوشِ سیرت و کردار غرضیکہ کچھ بھی تو ضائع نہیں ہو پایا۔عشاق نے ایک ایک جلوہ بڑی محنتِ شاقہ و عرق ریزی سے محفوظ کیا۔
اب یہ ہم پر لازم آتا ہے کہ ہم جو درست ہے اس پر دل و جان سے حرف بہ حرف اور قدم بہ قدم عمل پیرا ہوں اور جو غلط طور پر در آیا ہے اس کو یکسر مسترد کر دیں۔ اس رد و قبول کا حتمی معیار قرآنِ مجید ہے اور اس کے بعد علمِ اسماءالرجال اور اصولِ روایت و درایت ہیں کہ جن کی بنیاد پر ہم صحیح کو اختیار اور غلط کو رد کر سکتے ہیں۔
قرآنِ مجید کے مطابق اللہ کا کہا ماننا اور قرآن کی پیروی کرنا فرض ہے، مگر صرف اتنا ہی فرض نہیں بلکہ قرآن کی رُو سے رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع بھی فرض ہے اور سبیل المومنین کی پیروی بھی لازم ہے یعنی وہ راہ کہ جس پر اصحابِ رسول عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان چلتے رہے اور جس کو تبع و تابعین علیہم الرحمۃ نے اختیار کئے رکھا۔
جب یہ اتنی اہم بات تھی تو لازم آتا ہے کہ متقدمین نے ہم متأخرین کے لئے اسے نہ صرف روایتاً محفوظ بنایا ہو اور ضبطِ تحریر میں لائے ہوں بلکہ عملی تواتر و توارث سے آنے والی نسلوں تک کو یہ روحِ اسلام عنایت کر گئے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے ہمیشہ جلد یا بدیر ہر اس ہستی اور فکر کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جو سیرت وسنت و آثار سے متصادم تھی جیسے آبِ رواں خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے،بعینہٖ ہر تعفن کا وجود ہی مٹتا چلا گیا۔
Comments
Post a Comment