عبادات بلا عمل

عبادات بلا اعمالِ صالحہ
یہ مضمون کئی مصنفین کی تحریرات کا مجموعہ ہے جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ بقولِ اقبال:
یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہُوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبادات ، تقویٰ و اکلِ حلال از ڈاکٹر اسرار احمد
لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪ (البقرۃ) 
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ‘ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّ طَـیِّبًا‘ وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ‘ فَقَالَ: یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ (المؤمنون:۵۱) وَقَالَ : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ (البقرۃ:۱۷۲) ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ ‘ اَشْعَثَ اَغْبَرَ ‘ یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَائِ : یَا رَبِّ! یَارَبِّ! وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ‘ وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ ‘ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ! (۱) 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 
’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ہے. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو‘‘. اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایاہے: ’’اے ایمان والو! ہم نے جو پاکیزہ چیزیں (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الزکاۃ‘ باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا.تمہیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ‘‘. اس کے بعد آپﷺ نے اس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرے ‘اس کے بال پراگندہ اور جسم غبار آلود ہو‘ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر یارب! یارب! کہے‘ مگر اس کی حالت یہ ہو کہ اس کا کھانا‘ پینا ‘ لباس اور غذا ہر چیز حرام ہو تو اس کی دعا کیونکر قبول کی جائے!‘‘
اس حوالے سے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ ارکانِ اسلام میں سے تیسرا رکن ’’صوم‘‘ اس اعتبار سے بہت ہی نمایاں ہے کہ اس کے جملہ احکام نہایت اختصار کے ساتھ سورۃ البقرۃ کی چھ مسلسل آیات (۱۸۳ تا ۱۸۸) میں موجود ہیں. ان آیات میں روزے کا ابتدائی حکم بھی آ گیا‘ تکمیلی احکام بھی آ گئے‘ صوم کی حکمت بھی آ گئی ‘ صوم کے لیے رمضان المبارک کے انتخاب کا سبب بھی آ گیا‘ اور رمضان المبارک کے حوالے سے قیام اللیل کی جو اضافی عبادت ہے اس کا ذکر بھی ان آیات میں ہو گیا. پھر ان سب کا مجموعی حاصل اور آخری منزل بھی انہی آیات میں بیان ہو گئی. چنانچہ نوٹ کیجیے کہ پہلی آیت ختم ہوتی ہے : ’’لَعَلَّـکُمْ تَـتَّقُوْنَ ‘‘ پر‘یعنی تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ تم سے پہلی اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے. تیسری آیت ختم ہوتی ہے: ’’لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘ پر تاکہ تمہارے اندر قرآن مجید کی عظمت کا صحیح ادراک پیدا ہو جائے اور پھر تم اس کا شکر ادا کرسکو جیسے کہ اس کے شکر کا حق ہے.چوتھی آیت ختم ہوتی ہے : ’’ لَعَلَّـھُمْ یَرْشُدُوْنَ‘‘ پر تاکہ وہ ہدایت کی بلند ترین منزل ’’رشد‘‘ پر فائز ہو جائیں. پانچویں آیت پھر لفظ تقویٰ ’’لَعَلَّـھُمْ یَـتَّـقُوْنَ ‘‘ پر ختم ہوتی ہے. یعنی یہ سارے احکام ہم نے تفصیل سے اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ لوگ تقویٰ اختیار کر سکیں.
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کا معیار اور اس کی کسوٹی کیا ہے؟ یہ لفظ ہمارے ہاں عام استعمال ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بڑا متقی ہے ‘ فلاں بڑا پرہیزگار ہے .اس لحاظ سے تقویٰ کا کوئی نہ کوئی تصور ہر شخص اپنے ذہن میں رکھتا ہے عام طور پر صورت یہ ہے کہ تقویٰ کو صرف عبادات سے متعلق مانا جاتا ہے اور کسی بھی شخص کے متقی ہونے کا فیصلہ اس اعتبار سے کیا جاتا ہے کہ وہ نماز کتنی پابندی اور کتنے خشوع وخضوع سے پڑھتا ہے‘ روزہ کس اہتمام سے رکھتا ہے ‘ زکوٰۃ کے علاوہ اللہ کی راہ میں کتنا کچھ خرچ کرتا ہے اور حج عمرے کتنے کرتا ہے. یہ تمام چیزیں گویا تقویٰ کے معیارات ہیں. بعض لوگ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان کے ظاہر کو بھی تقویٰ کا معیار سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اُس کا لباس ‘وضع قطع اور رہن سہن وغیرہ شریعت کے اصولوں کے کتنے مطابق ہے اور اس سے اتباعِ رسول کا کتنا اظہار ہورہا ہے یہ ساری چیزیں تقویٰ کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں.لیکن اگر تقویٰ کا پیمانہ یہی مانا جائے تو پھرسورۃ البقرۃ کی آیت ۱۸۸ کا بظاہر صوم اور رمضان سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا. اس لیے کہ اس آیت میں ایک علیحدہ مضمون بیان ہوا ہے . فرمایا: وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ ’’اور تم ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ!‘‘
اس حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ اس آیت میں تقویٰ کا معیار ‘اس کی کسوٹی اور اس کا پیمانہ بیان کیا گیاہے. یعنی روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے اور یہ سارے احکام تمہیں اس لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے اور تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ اور معیار ہے: ’’اَکل حلال‘‘. اگریہ نہیں ہے تو پھرکوئی نیکی نیکی نہیں ہے.ظاہر بات ہے کہ دنیا میں ہم زندگی گزارتے ہیں تو ایک دوسرے سے لین دین ہوتا ہے. مثلاً آپ نے کچھ پیسوں کے عوض کوئی چیز خریدی اور بیچنے والے نے اگر اس خرید و فروخت میں کسی بھی قسم کا دھوکہ کیا یا اس شے کا کوئی نقص چھپایا تو جو پیسے اس چیز کے عوض آپ اُسے دے رہے ہیں وہ اس کے لیے حرام ہیں. ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمﷺ مدینہ کی ایک منڈی میں تشریف لے گئے تو وہاں گندم کا ایک ڈھیر دیکھا. آپﷺ نے اس ڈھیر کے اندر اپنا دست مبارک داخل کیا تو معلوم ہوا کہ نیچے نم آلود گندم ہے جبکہ اوپر کی گندم خشک ہے. اس پر نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا (۱) یعنی جس نے اس طرح کی دھوکہ بازی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے. گویا یہ تو سراسر دھوکہ ہے اور کسی شے کا نقص چھپا کر اسے بیچنے سے ایسی کمائی حرام ہو جاتی ہے. اس لیے یہ نوٹ کر لیں کہ تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ معاملات کے اندر ہے ‘ورنہ داڑھیوں کا لمبا ہونا اور پائینچوں کا ٹخنوں یا آدھی پنڈلی تک اونچا ہونا تقویٰ کا معیار نہیں ہے. تقویٰ کا اصل معیار رزقِ ِحلال اوراَکل حلال ہے . اگر یہ نہیں ہے تو پھرنمازوں کے ڈھیر اور نوافل کے انبار بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے. اصل یہی ہے کہ آپ جو کھا رہے ہیں وہ اصلاً حلال بھی ہو اور پھر جائز و حلال طریقے ہی سے حاصل کیا گیا ہو. اب اگر ایک شخص سور کا گوشت کھا رہا ہے تو آپ سب کہیں گے چھی چھی‘ حرام کھا رہا ہے‘ لیکن ایک شخص کھا تو بکری کا گوشت رہا ہے مگر اُس نے وہ گوشتکسی کی جیب کاٹ کر خریدا ہے تو یہ حلال گوشت چونکہ اس نے حرام طریقے سے کمایا ہے تو یہ بھی حرام ہے. اس طریقے سے حرام کا سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے. 
اس حوالے سے آخری بات جو میں کہا کرتا ہوں ‘ذرا کان کھول کر سن لیجیے کہ ایک ایسے ماحول میں جس میں دین حق غالب نہ ہو بلکہ باطل کا نظام رائج ہو ‘ اس میں سانس لینا بھی حرام ہے. اِلا یہ کہ سانس لینے یا غذا کھانے سے جو قوت پیدا ہوتی ہے اگر اس کا اکثر و بیشتر اس نظامِ باطل کو ختم کر کے نظامِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد میں خرچ ہو رہا ہے تو جائز ہے‘ ورنہ سانس لینا بھی حرام ہے ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا!
بہرحال بیع و شراء میں دھوکہ دینا ‘ فریب کرنا‘ اپنے مال کے نقص کو چھپانا حرام ہے اور ان ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب قول النبیﷺمن غشنا فلیس منا. وسنن الترمذی‘ ابواب البیوع‘ باب فی کراھیۃ الغش فی البیوع.
آیت کے اگلے حصہ میں اکل حرام کی ایک خاص صورت بیان کی گئی ہے. فرمایا: وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ ’’تم اپنے مال کو ذریعہ نہ بناؤ حکام تک پہنچنے کا تاکہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ہڑپ کر سکو گناہ کے ساتھ‘‘’’دَلو‘‘ کہتے ہیں ڈول کو اور ڈول کنوئیں میں اتارا جاتا ہے پانی کھینچنے کے لیے. اسی طرح کوئی شخص اپنا مال کسی سرکاری افسر کو اس لیے پیش کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے کسی اور کا مال ہڑپ کر سکے. اسے عام اصطلاح میں ’’رشوت‘‘ کہا جاتا ہے . تو جس طرح پانی تک پہنچنے کے لیے ڈول کو ذریعہ بنایا جاتا ہے اسی طریقے سے لوگوں کی حق تلفی کرنے یا ان کا مال غلط طریقے پر ہڑپ کرنے کے لیے تم نے اپنے مال کو ڈول بنایا حکام تک پہنچنے کا‘ تاکہ اس کے ذریعے سے ان کے ہاتھ میں موجود اختیارات کو تم اپنے حق میں استعمال کر سکو. اسی کا نام رشوت ہے اور ایک حدیث میں صاف طور پرآیا ہے : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ فِی الْحُکْمِ (۱) یعنی رسول اللہﷺ نے مقدمات میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی ہے. رشوت کے ضمن میں ایک حدیث تو بہت مشہور ہے:
اَلرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ فِی النَّارِ (۲) 
’’رشوت دینے والا اور رشوت کھانے والا دونوں جہنمی ہیں.‘‘
ہم ’’راشی‘‘ کا لفظ رشوت خور یعنی رشوت لینے والے کے لیے بولتے ہیں ‘جبکہ عربی زبان اور حدیث کی اصطلاح میں ’’راشی‘‘ رشوت دینے والے کو کہتے ہیں. اگر آپ گہرائی میں تجزیہ (analysis) کریں تو معلوم ہو گا کہ رشوت کی اصل بنیاد رشوت دینا ہے. وہ اس طرح کہ لوگ غلط کام کرانے کے لیے حکام اور سرکاری افسران کو رشوت کی عادت ڈالتے ہیں اوراپنا کام نکلوانے کے لیے اُن کی مٹھیاں گرم کرتے ہیں. جب وہ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الاحکام‘ باب ما جاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم.
(۲) الترغیب والترھیب للمنذری ۳/۱۹۴. ومجمع الزوائد للھیثمی ۴/۲۰۲‘ رجالہ ثقات. رشوت کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر اس کے بغیر وہ کوئی کام کرتے ہی نہیں ہیںاور ایک آسان سے کام کو اتنا پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے.
عام طو رپر لوگ اپنے غلط کام کرانے یاکسی کا حق تلف کرنے کے لیے اپنے مال کو حکام تک پہنچنے کا ذریعہ بنا رہے ہوتے ہیں تاکہ اُن کے اختیارات کے ناجائز استعمال سے کچھ ناجائز آمدنی یا کچھ غیر قانونی مفادات حاصل کر سکیں‘یا سرکاری محصولات (ٹیکس‘ انکم ٹیکس وغیرہ) میں کمی کرا سکیں. آپ نے دیکھا ہو گا اور آپ میں سے بہت سوں کو تو تجربہ بھی ہوا ہو گا کہ جب نئے نوجوان افسر کسی جگہ چارج لیتے ہیں تو اس وقت ان میں کچھ اصول و قواعد کی پابندی نظر آتی ہے اور ان کی نظر میں دیانت داری اور قوم کے ساتھ خلوص و اخلاص بھی کوئی شے ہوتی ہے ‘لیکن اس نظام میں پہلے سے موجود خرانٹ قسم کے افسران اور کرپٹ اہلکار ان نوجوان افسروں کو پٹی پڑھاتے ہیں کہ تم تو ایک غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہو اوراس طرح تو ترقی کے راستے تم پر بند ہو جائیں گے‘ تم آگے بڑھ نہیں سکو گے . جب تک تم اپنے سے اوپر والے حکام کو راضی نہیں رکھو گے تمہاری ترقی کیسے ہو گی؟ دوسرے یہ کہ وہاں موجود حرام خور لوگ انہیں رشوت کے ایسے ایسے طریقے روشناس کراتے ہیں کہ جس سے ان کو رشوت کا چسکا پڑجاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی نہیں چھوڑ سکتے ؏ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!‘‘ 
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا 
آیت کے آخر میں فرمایا گیا: وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۸﴾٪ ’’اور تم (یہ سب) جانتے بوجھتے کر رہے ہو‘‘.
 یعنی اگر جان بوجھ کر یہ سب کرو گے تو اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کے مستحق ہو جائو گے. البتہ اگر کبھی غلط فہمی اور لاعلمی کی بنا پر ایسا ہو جائے تو وہ قابل گرفت نہیں ہے ‘مثلاً کوئی شخص غلط فہمی میں نادانستہ طور پر کوئی لقمہ ٔحرام کھا لے یا کوئی اسے دھوکہ سے سور کا گوشت بکری کا گوشت کہہ کر کھلا دے تو ان صورتوں میں وہ مجرم نہیں ہو گا. اس لیے کہ غلط فہمی اور لاعلمی میں اگر کوئی حرکت ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاںقابل مؤاخذہ نہیں اس حوالے سے سورۃ البقرۃ کی آخری آیت بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں یہ دعا موجود ہے : رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ ’’اے ہمارے رب ! ہم سے مواخذہ نہ فرما اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے ‘‘ لیکن جانتے بوجھتے اگر حرام خوری کا کوئی بھی کام کرو گے تو یہ جان لو کہ تم سے تقویٰ کی نفی ہوجائے گی اور تم عذابِ الٰہی کے مستحق ہو گے. 
اب ’’اربعین ِنووی‘‘ کی اس حدیث کی طرف آتے ہیں جو موضوع کی مناسبت سے میں نے شروع میں بیان کی تھی.اس حدیث میں اکل حلال کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ بیان ہو رہا ہے. اس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ مسلم شریف کی روایت ہے. رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ‘ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّ طَـیِّبًا ’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے‘‘ چنانچہ اگر کسی نے عید الاضحی کے موقع پر بیس‘ تیس ہزار کا دنبہ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ‘لیکن وہ تھاحرام کی کمائی سے‘ تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘اس لیے کہ اللہ خود بھی پاک ہے اور وہ سوائے پاک اور حلال چیز کے اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا . ارشادِ باری تعالیٰ ہے: لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ (الحج:۳۷) ’’ہرگز نہیں پہنچتا اللہ تک ان قربانیوں کا گوشت اور نہ خون لیکن پہنچتا ہے اُس تک تمہارا تقویٰ‘‘ اوراگر کسی نے اپنی جائز کمائی سے کوئی چھوٹا سا جانور خرید کر بھی اللہ کی راہ میں ذبح کیا تو اس کے ایک ایک بال پر بھی اجر ہے. اس حوا لے سے ایک بہت پیاری حدیث ہے.
حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض اصحاب نے عرض کیا:یا رسول اللہ!ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟آپؐ نے فرمایا:’’یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘. صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ!ہمارے لیے ان قربانیوں کا کیا اجر ہے؟آپؐ نے فرمایا:’’قربانی کے جانور کے ہر ہربال کے عوض نیکی ہے‘‘.صحابہ نے پوچھا:یارسول اللہ! کیا اُون کا بھی یہی حساب ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ہاںاون (والے جانور )کے ہر بال کے عوض نیکی ہے.‘‘ (۱) (۱) سنن ابن ماجہ‘کتاب الاضاحی‘ باب ثواب الاضحیۃ.
اس حوالے سے یہ بھی نوٹ کر لیں کہ قربانی کی عدمِ قبولیت ہی نوع انسانی کے پہلے قتل کا سبب تھی. سورۃ المائدۃ کے نوویں رکوع میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے: 
وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ (آیت ۲۷) 
’’اور (اے نبیﷺ !) ان کو پڑھ کر بتایئے آدم کے دو بیٹوں کا قصہ حق کے ساتھ ‘جبکہ ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی.‘‘
آدم کے یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے. ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کاشت کار تھا. ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی دی. ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے‘ جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا. ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی اُس زمانے میںقربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ نیچے اُترتا تھا اور وہ قربانی کی چیز کو جلا کر بھسم کر دیتا تھا . اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے قربانی کو قبول فرما لیا قابیل کواپنی قربانی کی عدمِ قبولیت پر شدید غصہ آیا اور اس نے طیش میں آ کر ہابیل سے کہا : لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ ’’میں تمہیں قتل کر کے رہوں گا‘‘.اس پر ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول اور رد کرنا تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے‘ اس میں میرا کیا قصور! البتہ یہ یادرکھو کہ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲۷﴾ ’’اللہ تعالیٰ قربانی قبول نہیں کرتا مگر متقیوں سے‘‘.یعنی مجھ پر غصہ ہونے کے بجائے تم اپنے گریبان میں جھانکو کہ تمہاری قربانی اللہ نے کیوں رد (reject) کی ہے!اور یہ بھی یاد رکھو کہ: 
لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۸﴾اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ ’’اگر تم اپنا ہاتھ اٹھائو گے مجھے قتل کرنے کے لیے (تب بھی) میں اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گاتمہیں قتل کرنے کے لیے. مجھے تو اللہ کا خوف ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے. بلکہ میں تو یہ چاہوں گا کہ میرا اور اپنا گناہ تم ہی اپنے سر لے لو…‘‘ 
یعنی اگر تم مجھے بغیر کسی جواز کے قتل کرو گے تو اپنے گناہوں کا بوجھ تو تم نے اٹھانا ہی ہے اس کے ساتھ میرے گناہوں کا بوجھ بھی تم ہی اٹھائو گے .اس طرح میرا توکوئی نقصان نہیں ہے (I stand to lose nothing). بہرحال نوع انسانی کے پہلے قتل کے پس منظر میں یہی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف متقیوں ہی سے قبول کرتا ہے. غرضیکہ تمام قولی‘ بدنی اور مالی عبادات اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّـیِّـبَاتُ اگر تقویٰ کے ساتھ ہیں تو اللہ کے ہاں قابل قبول ہیں ‘ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں. 
آگے نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ ’’اوراللہ نے اہل ایمان کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اُس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے‘‘. اب یہاں دیکھئے کہ حضور اکرمﷺ سورۃ المو ٔمنون کی آیت ۵۱ کا حوالہ دے رہے ہیں: یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھائو اور نیک عمل کرو‘‘. یعنی پہلے اکل حلال کا اہتمام کرو‘ پھر تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول ہو ں گے. اس کے ساتھ آپﷺ نے سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۲ بھی تلاوت فرمائی : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ’’اے ایمان والو! کھائو ان پاک چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں دی ہیں.‘‘
حدیث کا اگلا حصہ تو لرزہ طاری کر دینے والا ہے: ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ ‘ اَشْعَثَ اَغْبَرَ ’’پھر آپﷺ نے تذکرہ فرمایا ایسے شخص کا جس نے لمبا سفر طے کیا ہے‘اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم غبار آلود ہے‘‘ . حدیث میں تو صراحت نہیں ہے‘ لیکن گمان یہ ہے کہ اس سفر سے حج کا سفر مراد ہے. کوئی شخص مدینہ منورہ سے حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جاتا تھا تو اونٹ پر اُسے سات دن مکہ پہنچنے میں لگتے تھے. پھر حالت احرام میں احرام کی پابندیاں بھی اس پر لازم ہیں.وہ نہاتا بھی نہیںکہ مبادا کوئی بال ٹوٹ جائے اور اس پر دَم لازم آجائے. آپ غور کیجیے کہ ان سات دنوں کے مسلسل سفر میں اس کا احرام میلا اور بوسیدہ ہو گیا ہو گا‘ بال پراگندہ ہو گئے ہوں گے. اس لیے کہ بالوں میں نہ تو اس نے کوئی تیل ڈالاہوگا‘ نہ خوشبوڈالی ہوگی اور نہ ہی انہیں دھویا گیا. اُس کا اپنا حال یہ ہوگا کہ وہ مکمل طو رپر غبار آلود ہو چکا ہوگا ‘اس لیے کہ وہ تو سارے کا سارا میدانی اور صحرائی علاقہ ہے اورظاہر بات ہے کہ اونٹوں کا قافلہ جب چلتا ہے تو اگلا اونٹ جو خاک اڑاتا ہے وہ پچھلے اونٹ کی سواری پرآتی ہے. اسی طرح گھوڑے جب دوڑتے ہیں تو ان کے سموں سے اڑنے والی خاک بھی سواروں پر ہی آتی ہے. 
آگے آپﷺ نے فرمایا: یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَائِ ‘ یَا رَبِّ! یَارَبِّ! ’’وہ شخص اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے: ’’اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار!‘‘ اس حوالے سے میرے سامنے جبل رحمت کا نقشہ آتا ہے . جبل رحمت ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر جانے کے لیے لوگ بڑی محنت کرتے ہیںاور بہت مشقتیں اٹھاتے ہیں فرض کیجیے کہ وہ شخص اس کی سب سے اونچی چوٹی پر پہنچ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کھڑا یاربّ یاربّ پکار رہا ہے یا مسجد الحرام میں بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے پروردگار کو پکار رہا ہے . وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ‘ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ‘ وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ ’’اورحال یہ ہے کہ اس کا کھانا ‘ پینا‘ لباس اور غذا ہر چیز حرام ہے‘‘ . فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ! ’’تو اس شخص کی دعا کیونکر قبول ہو گی؟‘‘
حدیث کے اس آخری حصے کا ماحصل یہ ہے کہ قبولیت ِدعا کے اندر سب سے بڑی رکاوٹ اکل حرام ہے. ایسی صورت میں آپ دعا کرتے رہیں‘ اللہ تعالیٰ سنے گا ہی نہیں. اس اعتبار سے آپ خود ہی اپنی دُعا کی قبولیت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں. آپ کو چاہیے کہ اپنی آمدن کا جائزہ لیںکہ اس میں کوئی حرام تو شامل نہیں ہے‘ کوئی ناجائز طریقہ تو شامل نہیں ہے‘ کوئی براہِ راست سود کا عنصر تو نہیں ہے. جبکہ بالواسطہ سود سے تو نہ میں بچا ہوا ہوں اور نہ آپ بچے ہوئے ہیں‘کیونکہ ہمارا پورا معاشی نظام سود پر مبنی ہے .گندم کا ایک دانہ جو ہم کھاتے ہیں ‘اس میں بھی سود شامل ہے. اسلیے کہ سودی قرضے پر ہی گندم کا بیج خریدا گیا‘ ٹریکٹر خریدا گیا‘ کھاد خریدی گئی ‘الغرض ہر چیز سود پر لی گئی ہے . اس طرح اس کے ایک ایک دانے میں سودشامل ہے اور وہ سود لامحالہ میرے اندر بھی جا رہا ہے ‘اس لیے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے.
رسول اللہﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اگر کوئی شخص سود سے بچ بھی جائے گا تو سود کے غبار اور دھوئیں سے نہیں بچ سکے گا. فرض کیجیے کہ فضا کے اندر گرد و غبار معلق (dust suspension) ہے تو آپ لامحالہ اسے inhale کریں گے. ظاہر بات ہے کہ سانس تو آپ کو لینا ہے‘ سانس لینا تونہیں چھوڑ سکتے ‘ورنہ تو آپ مر جائیں گے. اب جب سانس لیں گے تو اس کے ساتھ گرد و غبار لازماً اندر جائے گا‘ آپ کے پاس اس کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں. یا یوں سمجھ لیں کہ ہوٹل کی چودھویں منزل پر آگ لگ گئی ہے اور کمروں کے اندر دھواں بھر گیا ہے. اب آپ کہاں جائیں گے ؟ چودھویں منزل سے چھلانگ لگائیں گے توآپ کی ہڈیاں چورا چورا ہو جائیں گی. اس حال میں بھی آپ سانس لینے پر مجبور ہیں اور وہ دھواں سانسوں کے ذریعے آپ کے پھیپھڑوں میں پہنچ کر رہے گا. بالکل اسی طرح بالواسطہ (indirect) سود سے تو آج کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے‘ البتہ بلاواسطہ (direct) سود آپ کی اپنی مرضی سے ہے‘ اس لیے کہ آپ نے اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے برضا و رغبت سودی قرضہ لیا ہے . میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ لوگوں کو چاہیے کہ جتنی جمع پونجی ہے اس سے کاروبار کر لیں .اگر بہت تھوڑی پونجی ہے توپھلوں کی چھابڑی یاکوئی ریڑھی لگا لیں‘ اس سے زیادہ پونجی ہے تو کوئی کھوکھا یابڑی دوکان بنا لیں‘ اور اگر اس سے بھی زیادہ ہے تو پھر امپورٹ ایکسپورٹ کرلیں‘ لیکن رہیں اپنی چادرکے اندر ہی اور اس سے باہر پاؤں نہ پھیلائیں.اسی طرح اگر آپ کے پاس چھوٹا سا مکان ہے تو اُسے بڑی عالی شان کوٹھی میں تبدیل کرنے کے لیے سودی قرضہ لینے کی کیا ضرورتہے ؟ زندگی گزارنے کے لیے سر کے اوپر چھت میسر ہو‘ اتنا ہی کافی ہے . آپ نے یہاں ہمیشہ تو نہیں رہنا. ایک وقت آئے گا جب آپ کویہاں سے نکل کر قبر کے اندر جانا پڑے گا.اس حوالے سے یہ یادرکھیں کہ اگر آپ نے اپنے کاروبار یا گھر کو وسعت دینے کے لیے سودی قرضہ لیا ہے تو یہ آپ کا اپنا فیصلہ اورآپ کی اپنی choice ہے‘او رآپ کو اس پر کسی نے مجبور نہیں کیا‘لہٰذا اس پر آپ کی پکڑہوگی اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ ربّ العزت کی پکڑ بہت سخت ہے. 

آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ سود لینے کو اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہیں.مثلاًریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو گریجویٹی ملتی ہے تو وہ اسے ان خطرات کے پیش نظر بینک میں رکھوا دیتا ہے کہ اگر کاروبار کے لیے کسی اور کو رقم دوں گا تو وہ کھا جائے گا اور اگر اپنے گھر میں رکھوں گا تو وہ ختم ہو جائے گی اور رفتہ رفتہ اس کی قیمت بھی کم ہو جائے گی. لہٰذا اپنے آپ کو مجبور ظاہر کرکے وہ یہ رقم بینک میں رکھوا دیتا اورپھر گھر بیٹھا سود کھاتا رہتا ہے. یہ یاد رکھیں کہ حرام کے لیے قطعاً کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے. اس ریٹائر شخص کو چاہیے کہ قطعاً ایسا مت کرے ‘اس لیے کہ اس کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اس رقم کے ختم ہونے سے پہلے نہیں مرے گا. اُسے چاہیے کہ اس رقم سے اگر کوئی بڑا کاروبار نہیں کر سکتا تو اپنے مکان کی بیٹھک میں کوئی چھوٹی سی کریانے کی دوکان لگا کر بیٹھ جائے. اس سے گزارے کے مطابق مل جائے گا. اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اس کو چاہیے کہ جو کچھ بھی اس کے پاس جمع پونجی ہے اس سے کھائے اور اللہ پر توکل رکھے. اس لیے کہ رزق اللہ کے ذمے ہے ‘کیا پتا اس کی جمع پونجی کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی موت آ جائے اوراسے اکل حرام کی طرف نہ جانا پڑے. سود سے بچنا توبہرصورت ضروری ہے ‘اس لیے کہ براہ راست سود کی کوئی بھی شکل کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے. 
حرام کے لیے ویسے تو کوئی عذر قابل قبول نہیں‘ البتہ اگر آدمی کی جان پر بن گئی ہو‘ وہ مر رہا ہو اور سوائے کسی حرام شے کے کھانے کو کچھ میسر نہ ہو تو صرف جان بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت ہے. سورۃ البقرۃ میں اس حوالے سے قانون موجود ہے : فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ (آیت۱۷۳) ’’پھر جو کوئی مجبور ہو جائے اور وہ خواہش مند اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘.یعنی اضطرار کی کیفیت اور انتہائی مجبوری کے عالم میں دو شرطوں کی موجودگی میں جان بچانے کی حد تک حرام کھانا جائز ہے. اوّلاً یہ کہ حرام کی طرف کوئی دلی تمنا نہ ہو اور دوسرے یہ کہ جان بچانے کے لیے جو کم سے کم مقدار ضروری ہے اس سے آگے نہ بڑھے.ان دو شرطوں کے ساتھ جان بچانے کے لیے حرام چیز بھی کھائی جا سکتی ہے‘ لیکن عام حالت میں اگر آپ اپنے کاروبار ‘ پیشے اور معاش میں حرام کا کوئی عنصر مستقل طور پر قائم کر لیتے ہیں تو پھر ہماری آج کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اس صورت میں تقویٰ کی نفی (negation) ہوجائے گی . 
جیسے میں نے پہلے بیان کیا کہ تقویٰ کا معیار اور اس کی کسوٹی اکل حلال ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو پھر کوئی عبادت ‘کوئی نیکی ‘کوئی خدمت اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے.اس تناظر میں روزے کے ضمن میں بیان کردہ نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان یاد رکھیں: 
مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ (۱) 
’’جس شخص نے (روزے کی حالت میں)جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے .‘‘
اگر ایک شخص روزے کی حالت میں سودی کاروبار کر رہا ہے‘ رشوت لے رہا ہے‘ جھوٹ بول رہا ہے یا لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے تو یہ روزہ نہیں ‘ صرف فاقہ کشی ہے. اسی لیے نبی اکرمﷺنے فرمایا: کَمْ مِنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلاَّ الْجُوْعُ ’’کتنے ہی روزہ رکھنے والے ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘.یعنی ان کے لیے کوئی اجر و ثواب ہے ہی نہیں. اس لیے کہ روزے میں تو اصلاًحلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں ‘جبکہ ایسے لوگ تو مستقلاً حرام چیزوں مثلاً جھوٹ بولنا‘ رشوت لینا‘ دھوکہ دہی‘ سودی لین دین اور اس طرح کے باقی (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘ باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم. کاموں کو عین روزے کی حالت میں بھی جاری رکھے ہوئے ہوں تو ظاہر بات ہے کہ یہ روزہ نہیں ہے‘صرف فاقہ کشی ہے روزے کے ایک لازمی جزو ’’قیام اللیل‘‘ کے حوالے سے مندرجہ بالا حدیث کے اگلے حصہ میں آپﷺ نے فرمایا: وَکَمْ مِنْ قَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلاَّ السَّھَرُ (۱) ’’اورکتنے ہی راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو رات کے قیام سے سوائے رت جگے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘ اس اعتبار سے تقویٰ درحقیقت مالی معاملات ‘مثلاًبیع و شراء کاروبار اورآمدنی وغیرہ میں ہوتا ہے. جب تک یہ معاملات حلال و جائز طریقے سے نہ ہوں گے اس وقت تک ظاہر بات ہے تقویٰ نہیں ہوگا. 
تقویٰ کی تعریف کے حوالے سے میں آپ کو ایک بہت پیارا واقعہ سنائے دیتا ہوں. ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ میں یہ بات زیر بحث آ گئی کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں اور تقویٰ کی جامع اور مانع تعریف کیا ہو گی. اس پر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی آراء کا اظہار کیا‘ لیکن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے رہے یہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایاکہ میرے صحابہ میں قرآن کا سب سے بڑا عالم اور قاری اُبی بن کعب ہے تو حضرت عمرؓ نے کہا: اُبی! آپ نے کچھ نہیں کہا‘ آپ بتائیں تقویٰ کسے کہتے ہیں. اس پر انہوں نے تقویٰ کی وضاحت جس انداز میں فرمائی اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :امیر المؤمنین! اگر کسی شخص کو کسی گھنے جنگل میں سے گزرنا پڑے اور وہاں نہ کوئی پگڈنڈی ہو‘ نہ کوئی راستہ ہو ‘ بلکہ اوپر کانٹے دار جھاڑیاں اور درخت ہوں اور نیچے اونچی اونچی گھاس ہو .ایسے میں انسان بہت چوکنا ہو کر پھونک پھونک کر قدم رکھے گاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو یا کسی اور موذی جانور کا بل یا بھٹ ہو اور وہاں پاؤں پڑ جائے آپ کو (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الصیام‘ باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم. ومسند احمد‘ ح۹۳۰۸‘راوی:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ. معلوم ہے کہ ایمیزون یا کانگو جیسے گھنے جنگلات میں تو درختوں سے لٹکے ہوئے سانپ بھی موجود ہوتے ہیں. ان جنگلات میں سے اگر کسی کو گزرنا ہو تو وہ کس طرح چوکنا ہوکر اور احتیاط کے ساتھ وہاں پاؤں رکھے گادرحقیقت انسان کا اپنی پوری زندگی معصیت الٰہی سے بچنا‘ گناہوں سے بچنا‘ اللہ کی نافرمانی سے بچنا‘ حدودِشریعت تجاوز کرنے سے بچنا اور تمام خرافات ‘ رسومات و بدعات سے بچنا تقویٰ کہلاتا ہے. 
اس پہلو سے درحقیقت یہ زندگی ایک سفر ہے . چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 
کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ (۱) 
’’دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم اجنبی ہو یاراستے سے گزرنے والے( مسافر) .‘‘ 
اس حدیث میں دنیا کی زندگی میں دو انداز اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے‘ ایک اجنبی کا اور دوسرے مسافر کا. اور یہ دونوں انداز بہت قابل غور ہیں.اصل میں ہم دیکھتے ہیں کہ عام لوگوں کی دلچسپیاں کیا ہیں‘ لوگ کدھر دوڑے جا رہے ہیں. ہر ایک کو دنیا کی پڑی ہوئی ہے ‘ ہر کوئی بہتر سے بہتر مکان‘ عالی شان محل‘ نئی ماڈل کی کار‘ الغرض دنیوی لحاظ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تر کی تلاش و جستجو میں ہے. اس صورتحال میں ایک آدمی اگر ایسا ہو جو حق پر چلنے والا ہو اور جس نے اپنے آپ کو دین اسلام کے لیے وقف کر دیا ہو‘ ظاہری بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان دنیاداروں کے ماحول میں اجنبی پائے گا. 
دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ یا پھر اس دنیا میں ایسے رہو کہ جس طرح راستہ گزرنے والا ہوتا ہے .ایسے شخص کو راستے سے قطعاً کوئی پیار نہیں ہوتا‘اس لیے کہ اس کی نظر میں اصل چیز منزل ہے جہاں اسے پہنچنا ہے اور راستہ تو بس اس منزل تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺایک چٹائی پر آرام فرماتھے. جب آپؐ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبی ﷺ کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل. وسنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی قصر الامل. ؐ اُٹھ کر کھڑے ہوئے تو آپؐ کے پہلو مبارک پرچٹائی کے نشانات تھے.ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولؐ ! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا تیار کرادیں؟ اس پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: 
مَالِیْ وَمَا لِلدُّنْیَا ‘ مَا اَنَا اِلاَّ فِی الدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا (۱) 
’’مجھے اس دنیا سے کیا سرورکار! میں تو دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے ایک سوار کسی درخت کے سائے میں تھوڑی دیر کے لیے رکتا ہے ‘ پھر وہ ذرا آرام کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر چل دیتا ہے.‘‘
یہ درخت نہ تو اس سوار کا ٹھکانہ ہے اور نہ ہی اسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے . یہی حیثیت ہمارے لیے دنیا کی ہے ‘بایں صورت کہ ہماری منزل دنیا نہیں کچھ اور ہے. اس لیے دنیا میں تو عام چھت کے سائے کو بھی بہت غنیمت سمجھو اور عالی شان محلات کی آرزوئیں دماغ سے نکال دو‘ دنیا کی چیزوں کی طلب دل سے باہر کر دو. سمندر میں کشتی پانی پر چلتی ہے ‘ لیکن اگر یہ پانی کشتی میں آ جائے تووہ ڈوب جاتی ہے. اسی طرح دنیا کو بھی سمندر سمجھوجس میں تمہاری کشتی چلتی ہے‘ لیکن اس کی محبت‘ اس کی آرزو‘ اس کی تمنا تمہارے دل میں نہ آنے پائے‘ ورنہ تم ڈوب جاؤ گے. 
اسی حوالے سے ایک اور اہم حدیث ملاحظہ ہو. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا (۲) ’’اسلام کا جب آغاز ہوا تو وہ غریب (اجنبی) تھا ‘‘.ظاہر بات ہے کہ اس وقت آپﷺ تنہا تھے اور معدودے چند ساتھی تھے‘ تو اسلام اس وقت غریب تھا. اس کے بعد ایک وقت آیا کہ اسلام کو اللہ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘باب ما جاء فی اخذ المال بحقہ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب مثل الدنیا.
(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام غریباً وسیعود غریبا … وسنن الترمذی‘ کتاب الایمان‘ باب ما جاء ان الاسلام بدأ غریبا وسیعود غریبا. نے طاقت دی : اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ (النصر) ’’جب اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح آ گئی اور آپؐ نے دیکھا کہ لوگ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں‘‘.آگے آپﷺنے ایک پیشین گوئی فرمائی : وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْبًا ’’عنقریب اسلام پھر اجنبی ہوجائے گا جیسا کہ وہ پہلے اجنبی تھا‘‘ عربی زبان میں فعل مضارع مستقبل اور حال دونوں کے لیے آتا ہے ‘ لیکن جب فعل مضارع پر ’’سَ‘‘ یا ’’سَوْفَ‘‘ آجائے تو س سے فعل مضارع صرف مستقبل کے لیے خاص ہو جاتا ہے ‘جیسے : سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ ’’عنقریب کہیں گے لوگوں میں سے یہ نادان لوگ کہ کس چیز نے انہیں پھیر دیا ان کے قبلے سے جس پر وہ تھے‘‘.اس آیت میں تحویل قبلہ کا حکم آیاہے اور یہاں فعل مضارع پر ’’سَ‘‘ آنے کی وجہ سے زمانہ مستقبل قریب مراد ہو گا یہاں بھی فرمایاگیا: وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ غَرِیْبًا کہ عنقریب اسلام پھر غریب ہو جائے گا جیسا کہ پہلے تھا‘ تو یہ بھیزمانہ مستقبل قریب کی بات ہے.
اب جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان غریب نہیں رہے بلکہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے ‘ لیکن اسلام خلافت راشدہ کے خاتمے کے ساتھ ہی غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا.یہ ایک بہت بڑا تضاد معلوم ہوتا ہے . دورِ بنو اُمیہ اور دورِبنو عباس میں مسلمانوں کو بہت عروج حاصل ہوا. تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ مسلمان اس دور میں ترقی پر ہیں‘ ان کی شان و شوکت ہے‘ اس وقت کی دنیا کی عظیم ترین سلطنت مسلمانوں کی ہے‘ لیکن دین اسلام غریب ہونا شروع ہو گیا. اس کی پہلی تہہ یعنی خلافت ختم ہوئی تو ریاست اور سیاست کا معاملہ سب سے پہلے ختم ہوا. اس کا اسلام سے تعلق نہیں رہا ‘بلکہ اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہو گیا. یعنی اب مشاورت سے طے نہیں ہوگا کہ کون اہل ترین آدمی ہے‘ کون سب سے زیادہ متقی ہے‘ کون سب سے زیادہ اللہ کو جاننے اور پہچاننے والا ہے‘ بلکہ جس کے پاس قوت ہے اسی کی حکومت ہوگی. اس طرح آہستہ آہستہ اسلام غریب ہونا شروع ہو گیا اور پھر حال یہ ہو گیا کہ مسلمان بادشاہوں کے دور میں کم از کم جو قاضی ہوتے تھے اور مقدموں کا فیصلہ جوشریعت کے مطابق ہوتا تھا‘وہ بھی مغربی استعمار کے آنے سے ختم ہو گیا. قاضی کے بجائے مجسٹریٹ آ گئے اور شریعت کے بجائے انگریز کا بنایا ہوا فوجداری اور دیوانی قانون آگیا‘البتہ انہوں نے ایک بڑی رعایت یہ کی تھی کہ ہمارے عائلی قوانین اور نماز روزے کی ہمیں اجازت دے رکھی تھی‘ لیکن باقی تو پورے کا پورا نظام ان کا تھا. تو اس طریقے سے ہوتے ہوتے اسلام غریب سے غریب تر ہو گیا.
مندرجہ بالا حدیث کا آخری جملہ بہت غور طلب ہے. آپﷺ نے آخر میں فرمایا: فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ ’’پس مبارک باد ہے غریبوں( اجنبیوں) کے لیے ‘‘ .اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اسلام اپنے اجنبیت کے دور میں چلا جائے گا‘ تب دو راستے ہوں گے. یا تو آپ اسلام کا دامن چھوڑدیں اور معاشرے میں جس چیز سے عزت و مقام ملتا ہے وہی حاصل کریں اور اسی کے لیے کوشش کریں .اور جو راستہ اونچائی کی طرف جاتا ہے آپ بھی اسی پرچل پڑیں ؏ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘. یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس سب کو چھوڑو اور اسلام کے دامن سے چمٹے رہو. اسلام اگر غریب ہو گیا ہے تو تم بھی غریب ہو جاؤ. تمہارے جاننے پہچاننے والے ‘ملنے ملانے والے بھی پھر نہیں رہیں گے اور تم سے کوئی رشتہ داری کرنا بھی پسندنہیں کرے گا. ظاہر بات ہے کہ پھر تم اس معاشرے کے اندر اجنبی ہو گے ‘لیکن ایسے اجنبی لوگوں کے لیے نبی آخر الزماںﷺ کی زبان مبارک سے مبارک باد کے کلمات کہے گئے ہیں: فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاِء ’’پس مبارک باد ہے ایسے غرباء کے لیے‘‘اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرمﷺ کی اس تہنیت اور مبارک باد کا مستحق بنائے. آمین یا ربّ العالمین! 
بے روح قیام و سجود از ابو یحیٰ۔ ادارہ انذار
اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری نماز ہمیں گناہ سے نہیں روکتی۔ حالانکہ قرآن پاک کی سورہ عنکبوت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم نے گناہوں کی تین نمایاں اقسام بیان کی ہیں۔
۱) فحاشی، عریانی اور جنسی بے راہروی پر مبنی گناہ
۲) حق تلفی کی نوعیت کے وہ گناہ جنھیں سب انسان برا سمجھتے ہیں
۳) خدا کی سرکشی اور بغاوت کی نوعیت کے گناہ
ایک شخص انہی تین بنیادوں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ نماز ان تمام اقسام کے گناہوں سے انسان کو بچاتی ہے۔ تاہم سورہ عنکبوت کی آیت میں صرف فحش اور منکر یعنی پہلی اور دوسری قسم کے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا شخص جیسے ہی نماز میں رب کے حضور سر جھکاتا ہے وہ تیسری قسم کے گناہ یعنی رب سے سرکشی اور بغاوت سے دور ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے جرائم کو اس آیت میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔
اس کے بعد پہلی اور دوسری قسم کے گناہ رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ نماز ان دونوں اقسام کے گناہوں یعنی فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ہماری نماز ہمیں ان دونوں اقسام کے گناہوں سے نہیں روک پاتی تو اس کے لیے پوری آیت کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت کا ابتدائی حصہ تو ہم نے اوپر نقل کر دیا ہے باقی حصہ اس طرح ہے جو عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا اور نہ اس پر توجہ کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہیں وہ بات بیان ہوئی ہے جو اہم ہے۔ فرمایا:
’’بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘
یہ ہے وہ پوری بات جو اللہ تعالیٰ نے کہی ہے۔ مطلب اس بات کا یہ ہے کہ نماز اصل میں اللہ کی یاد کا نام ہے۔ یہ انسانوں میں رہتے ہوئے خدا میں جینے کا نام ہے۔ یہ غیب میں رہتے ہوئے خدا کی عظمت کو تسلیم کر لینے کا نام ہے۔ یہ خدا کی پکڑ میں آنے سے پہلے خود کو رب کے حوالے کر دینے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یاد کی یہ کیفیت، یہ احساس بہت بڑی چیز ہے۔ اتنی بڑی کہ انسان ہر لمحہ خود کو رب کی نگرانی میں پاتا ہے اور پھر اس کا کوئی قدم خدا کی نافرمانی میں نہیں اٹھ سکتا۔ اس کا نفس تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی لگام اس کے اندر سے اٹھنے والے حیوانی جذبوں کے حوالے کر دے، مگر خدا کی یاد اسے آتی ہے اور اس کے نفس کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیتی ہے۔ اس کے جبلی تقاضے سر اٹھاتے ہیں اور اس کے جذبات کو بے قابو اور قلب و نظر کو بے ایمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خدا کی یہی یاد آتی ہے اور ہر بہکی نظر اور امڈتے جذبے کو حدود آشنا بنا دیتی ہے۔
اس کے مفادات اسے حلال و حرام سے بے نیاز ہونے کی تلقین کرتے ہیں، اس کی خواہشات اسے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری سے روکتی ہیں، اس کے تعصبات اسے حق کی پیروی سے باز رکھنا چاہتے ہیں، بیوی بچوں کی محبت اسے حدود پامال کرنے پر اکساتی ہے، دنیا کی محبت اسے عارضی فائدوں کے پیچھے بھگاتی ہے، مال و مقام کی محبت اسے ظلم و عصیان پر آمادہ کرتی ہے مگر ہر ہر موقع پر یہ زندہ نماز، یہ خدا کی یاد والی نماز ایک چٹان بن کر اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر اگر وہ جذبات سے مغلوب اور حالات سے مجبور ہو بھی جائے تو کبھی اس کا معاملہ ایک سرکش انسان کا نہیں بنتا بلکہ اگلی نماز میں اسے احساس ہوجاتا ہے کہ خدا زندہ اور اس پر نگران ہے۔ چنانچہ وہ رب کی طرف پلٹتا اور توبہ کرتا ہے۔
اس طرح نماز زندگی کے ہر موڑ پر انسان کو گناہوں سے دور رکھتی ہے۔ کیونکہ نماز جب ٹھیک طرح پڑھی جاتی ہے تو انسان کو ہمیشہ خدا یاد رہتا ہے اور یادآ جاتا ہے۔ یہی وہ یاد ہے جو انسان کو گناہ سے بچاتی ہے نہ کہ بے روح قیام و سجود۔

نماز و فواحش و منکرات از مفتی محمد شفیع (صاحبِ معارف القرآن)

 جو شخص نماز کی اقامت کرلے تو نماز اس کو فحشاء اور منکر سے روک دیتی ہے۔ فحشاء ہر ایسے برے فعل یا قول کو کہا جاتا ہے جس کی برائی کھلی ہوئی اور ایسی واضح ہو کہ ہر عقل والا مومن ہو یا کافر اس کو برا سمجھے، جیسے زنا، قتل ناحق، چوری ڈاکہ وغیرہ اور منکر وہ قول و فعل ہے جس کے حرام و ناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو، اس لئے ائمہ فقہاء کے اجتہادی اختلافات میں کسی جانب کو منکر نہیں کہا جاسکتا۔

فحشاء اور منکر کے دو لفظوں میں تمام جرائم اور ظاہر و باطنی گناہ آگئے، جو خود بھی فساد ہی فساد ہیں اور اعمال صالحہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔

نماز کا تمام گناہوں سے روکنے کا مطلب

متعدد مستند احادیث کی رو سے یہ مطلب ہے کہ اقامت صلوة میں بالخاصہ تاثیر ہے کہ جو اس کو ادا کرتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں بشرطیکہ صرف نماز پڑھنا نہ ہو، بلکہ الفاظ قرآن کے مطابق اقامت صلوة ہو۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں، جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو۔ اس لئے اقامت صلوة کا مفہوم یہ ہوا کہ نماز کے تمام ظاہری اور باطنی آداب اس طرح ادا کرے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عملی طور پر ادا کر کے بتلایا اور عمر بھر ان کی زبانی تلقین بھی فرماتے رہے کہ بدن اور کپڑے اور جائے نماز کی مکمل طہارت بھی ہو، پھر نماز جماعت کا پورا اہتمام بھی اور نماز کے تمام اعمال کو سنت کے مطابق بنانا بھی، یہ تو ظاہری آداب ہوئے۔ باطنی یہ کہ مکمل خشوع خضوع سے اس طرح اللہ کے سامنے کھڑا ہو کہ گویا وہ حق تعالیٰ سے عرض و معروض کر رہا ہے۔ اس طرح اقامت صلوة کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمال صالحہ کی بھی ہوتی ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی اور جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لے کہ اس کی نماز ہی میں قصور ہے۔ جیسا کہ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشآء والمنکر فلا صلوة لہ (رواہ ابن ابی حاتم بسندہ عن عمران بن حصین والطبرانی من حدیث ابی معاویة) یعنی جس شخص کو اس کی نماز نے فحشاء اور منکر سے نہ روکا اس کی نماز کچھ نہیں۔

اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا صلوة لمن لم یطع الصلوة (رواہ ابن جریر بسندہ) یعنی اس شخص کی نماز ہی نہیں جس نے اپنی نماز کی اطاعت نہ کی اور نماز کی اطاعت یہی ہے کہ فحشاء اور منکر سے باز آجائے۔

اور حضرت ابن عباس نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ جس شخص کی نماز نے اس کو اعمال صالحہ پر عمل اور منکرات سے پرہیز پر آمادہ نہیں کیا تو ایسی نماز اس کو اللہ سے اور زیادہ دور کردیتی ہے۔

ابن کثیر نے ان تینوں روایتوں کو نقل کر کے ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ احادیث مرفوعہ نہیں، بلکہ عمران بن حصین اور عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس ؓ کے اقوال ہیں جو ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمائے ہیں۔

اور حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تہجد پڑھتا ہے اور جب صبح ہوجاتی ہے تو چوری کرتا ہے، آپ نے فرمایا کہ عنقریب نماز اس کو چوری سے روک دے گی۔ (ابن کثیر)

بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے بعد وہ اپنے گناہ سے تائب ہوگیا۔

ایک شبہ کا جواب

یہاں بعض لوگ یہ شبہ کیا کرتے ہیں کہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ نماز کے پابند ہونے کے باوجود بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں جو بظاہر اس آیت کے ارشاد کے خلاف ہے۔

اس کے جواب میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نماز نمازی کو گناہوں سے منع کرتی ہے، لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ جس کو کسی کام سے منع کیا جائے وہ اس سے باز بھی آجائے۔ آخر قرآن و حدیث سب لوگوں کو گناہ سے منع کرتے ہیں، مگر بہت سے لوگ اس منع کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اور گناہ سے باز نہیں آتے۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں یہی توجیہ لی گئی ہے۔

مگر اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ نماز کے منع کرنے کا مفہوم صرف حکم دینا نہیں بلکہ نماز میں بالخاصہ یہ اثر بھی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جس کو توفیق نہ ہو تو غور کرنے سے ثابت ہوجائے گا کہ اس کی نماز میں کوئی خلل تھا اور اقامت صلوة کا حق اس نے ادا نہیں کیا، احادیث مذکورہ سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے۔

وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ، یعنی اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے، اور وہ تمہارے سب اعمال کو خوب جانتا ہے، یہاں ذکر اللہ کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ بندے جب اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے ذاکر بندوں کا ذکر فرشتوں کے مجمع میں کرتے ہیں (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ) اور یہ عبادت گزار بندوں کو اللہ کا یاد کرنا سب سے بڑی نعمت ہے۔ بہت سے صحابہ وتابعین سے اس جگہ ذکر اللہ کا یہی دوسرا مفہوم منقول ہے، ابن جریر اور ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ نماز پڑھنے میں گناہوں سے نجات کا اصل سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کا ذکر فرشتوں میں کرتے ہیں اور اس کی برکت سے اس کو گناہوں سے نجات مل جاتی ہے

ہماری نمازیں بے نتیجہ کیوں ہیں؟​ از عبدالجبار

نماز اسلام کا بنیادی رکن اور ستون ہے۔ نماز کی بنیاد پر ہی باقی اعمال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

“ نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق ہے “​

اِس سے ظاہر ہوا کہ نماز ہی مسلمان کو مومن بناتی ہے اور دوسرں سے امتیازی حیثیت میں لا کھڑا کرتی ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے۔

“ نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے۔“​

اس رو سے نماز ایسی دوا ہے جس کے ذریعے ہر معاشرتی بیماری کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر معاشرتی بُرائی بے حیائی ہی سے شروع ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ نماز پڑھنے والے معاشرے میں ہی ہر طرح کی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ بے نمازوں کی بات تو چھوڑیں کیا پانچ وقت کے نمازیوں کو بھی نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے نہیں روکتی؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آج کی نئی نسل مغرب کی اندھی تقلید میں اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہے۔ حد تو یہ ہےکہ پانچ وقت کے نمازی نوجوان بھی آپس کی گفتگو میں اخلاقیات کے پَرخچے اُڑا رہے ہوتے ہیں۔

بقول اقبال:::

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات​

نماز کے بے نتیجہ ہونے کے بارے میں ہم اگر جاننا چاہیں تو سورہ الماعون ہمارا مقصد پورا کرتی نظر آتی ہے، اگر ہم سورہ الماعون کے ترجمے کو سامنے رکھیں۔

ترجمہ ::: کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے، وہ جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پس بربادی ہے ایسے نمازیوں کے لئے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور برتنے کی چیزیں عاریتاً نہیں دیتے۔

یعنی بربادی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ یہاں پر پس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس آیت کا پچھلی آیتوں کے ساتھ تعلق جوڑا گیا ہے۔ پہلی آیات میں دین کو جھٹلانے یتیموں کو دھکے دینے اور مساکین کو کھانا کھلانے کا ذکر ہواہے اور اچانک یہ کہا گیا ہے کہ اسی لئے ان کی نماز ان کے لئے بربادی ہے۔ وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن نماز کی روح سے غافل ہیں۔ یعنی یہ کہ نماز انہیں جو کرنے کا درس دیتی ہے۔ وہ اس سے غافل ہیں۔

ان آیات سے ظاہر ہوا کہ دین کو جھٹلانا، یتیموں کو دھکے دینا، مسکینوں کو کھانا کھلانا، ریاکاری کرنا، برتنے کی چیزیں نہ دینا، حقوق العباد پر پورا نہ اُترنا دراصل نمازیوں کی نماز ہی کی غفلت سے ہیں۔ یعنی کہ نماز پڑھتے بھی ہیں لیکن اس کی روح سے غافل ہیں۔ آج ہم نماز میں کہتے ہیں کہ

“ ہم کو سیدھے رستے پر چلا “۔ “ ہم کو سیدھے رستے پر چلا “​

اور اپنا راستہ بھی نہیں بدل رہے، طوطوں کی طرح سیدھے رستے کی رَٹ تو لگاتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے، اسی لئے قرآن میں نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ نماز قائم کرنے کا ذکر آیا ہے۔

سورہ الماعون کے مطابق نماز عمل کا نام ہے اور مسجد ہی اس عمل کی تربیت گاہ ہے۔ جب ہم مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو سیدھے رستے پر چلنے کی دُعا مانگتے ہیں مگر نماز پورے آداب اور توجہ سے نہیں پڑھتے تو پھر ہم نمازیوں کو قرآن کے مطابق بربادی کیوں نہ ہو؟ کیوں نہ ہماری نمازیں بے نتیجہ ہوں؟؟

جب ہم پورے آدب اور توجہ کے ساتھ یہ سوچ کر نماز پڑھیں گے (یعنی عمل کرنے کی نیت سے) تو ہر بربادی سے بچیں گے، ہماری محفلیں پاک ہوں گی، اور ایک اسلامی معاشرہ تشکیل پائے گا، اور اگر نماز اور طرزِ عمل کو الگ الگ رکھا تو نتیجہ یقیناً بربادی ہو گا اور یہ بربادی قانون مکافات عمل کے مطابق انجام پائے گی جس کے مطابق کوئی ذی روح اپنے اعمال کے نتائج سے نہیں بچ سکتا۔ اور جب اعمال کے نتائج کا خوف دل میں آجائے تو دنیا کی ہر برائی سے بچت ہو جائے گی۔

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ