مذہبی آزادی اور حریتِ فکر از ڈاکٹر ضیاءاللہ

مذہبی آزادی اور حریتِ فکر

تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء۔گوجرہ

بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول اور نہ کسی اور انے والے نے آنا ہے۔ نہ مہدی ، نہ عیسی علیہ السلام اور نہ دجال ۔۔۔۔ یہ سب وضعی روایات اور دقیانوسی خرافات کے تحت تراشے گئے بتانِ عجم کے پجاری ہیں اور وہ چور دروازے ہیں جن کے راستے مرزا ملعون قادیانی جیسا ہر چور داخل ہو کر خود کو مہدی یا مسیحِ موعود بتانا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے لئے تو نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی حرفِ آخر ہیں جن کے بعد کسی کی گنجائش قطعی طور پر نہیں ہے۔

صدشکر ربانی کہ مبدائے فیض کی کرم گستری سے مجھے صاحبِ علم و فضل،
وسیع النظر بلکہ وسیع المشرب والدین کا سایہ نصیب ہوا جن نے علم و تحقیق کو میرا مذہب و مسلک ٹھہرایا، میرے اندر کتاب اللہ سے لگاؤ پیدا کیا اور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت دل میں جاگزیں کی کہ ان کے بعد کوئی اور کبھی نہیں بھایا کہ
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں ، وہی یاسیں وہی طہٰ
اسی مسلکِ تحقیق نے مجھے بارہا اپنے بچپن سے پچپن اور اب پچپن سے اٹھاون تک بارہا اپنے خیالات و افکار پہ نظرِ ثانی پر آمادہ کیا۔ پہلے میں زمانے کا لحاظ کر لیتا تھا مگر اب ایک مدت ہوئی کہ میں نے اپنے عقائد و نظریات کو پوشیدہ رکھنا چھوڑ دیا اور اقبال کے مطابق:
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
   مثلا مجھے نہ ان خبیثوں (یعنی مرزا قادیانی ملعون، اس کے خبیث خلفاء اور اس کے پیروکاروں) کے لعنتی ہونے میں کوئی شک ہے اور نہ ان کے کافر ہونے میں ۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ ان کے غلط عقائید و نظریات سے قطع نظر اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ یہ فکری و علمی اعتبار سے بڑے اعلیٰ پائے کے نابغۂ روزگار لوگ تھے یعنی  انتہائی intellectual خاص طور پر بڑا مرزا ملعون قادیانی۔۔۔ ان کا جرم صرف ان کا پاگل پن اور ختمِ نبوت کا انکار ہیں بصورتِ دیگر یہ علم و فکر میں ہمارے گھسیارے صوفی و ملا سے کہیں آگے ہیں۔  مثلا علامہ اقبال اور علامہ مشرقی کی طرح  یہ بھی عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر نہیں بلکہ وفات شدہ اور (کشمیر میں) مدفون مانتے ہیں،  نیز علامہ اقبال اور علامہ مشرقی ہی کی طرح نظریۂ ارتقاء کے قائل ہیں اور آدم علیہ السلام کو پہلا انسان نہیں بلکہ زمین پر خدا کا پہلا خلیفہ یا نائب مانتے ہیں۔۔۔۔ مگر ان میں اور ہمارے صوفی و ملا میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ یہ بھی کسی آنے والے کے قائل اور ہمارے صوفی و ملا بھی۔۔۔۔ دونوں بے سند، وضعی اور من گھڑت روایات کی آڑ میں اپنا اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہیں ۔ وضعی روایات نے ان کو وجودِ مجدد، ظہورِ مہدی، نزولِ مسیح اور خروجِ دجال جیسی خرافات میں الجھا دیا۔۔۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے صوفی و ملا کے نزدیک مسیح علیہ السلام نے آسمانوں سے اترنا ہے مگر  یہ مرازائی لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہو گئے اب نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں مرزا مسیحِ موعود ہے یعنی وہ مسیح کہ جس کا وعدہ ہے۔۔۔ یعنی دونوں ہی ختمِ نبوت کے بدترین منکر ہیں اس فرق کے ساتھ کہ صوفی و ملا کے نزدیک کسی آنے والے نے ابھی آنا ہے جبکہ مرزائیوں کے نزدیک آنے والا مرزا ملعون قادیانی کی صورت میں مسیحِ موعود بن کر آ گیا ہے۔۔۔ حقیقت یہی ہے کہ دونوں یعنی صوفی و ملا اور مرزائی جو کسی انے والے کا عقیدہ رکھتے ہیں، ختمِ نبوت کے منکر ہیں۔
علامہ اقبال ایسے نظریات رکھنے والوں کو ختمِ نبوت کا منکر سمجھتے ہیں۔ مثلا اقبال کے الفاظ میں:
" مہدی، مسیحیّت اور مجددیّت کے متعلق جو احادیث ہیں وہ ایرانی و عجمی تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ عربی تخیلات اور قرآن کی صحیح سپرٹ سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔‘‘ (کلّیات ِمکاتیب اقبال۔جلد سوم جنوری 1929 تا دسمبر1934۔مرتّبہ سیّد مظفّر حسین برنی۔ناشر اردو اکادمی دہلی۔سنہ اشاعت۱۹۹۳ء) ۔۔"میرے خطبات کا اہم مقصد  اسلام پر سے مجوسیت کے غلاف کواتارپھینکنا ہے  مثلا مسیح کے آنے کا  گمراہ عقیدہ   مجوسی مذہب ہی کا ایک بنیادی تصور ہے۔جسے اسلام پر لاگو کرنا بہت بڑی غلط فہمی اور ختمِ نبوت کے تصور ہی کی نفی ہے۔مسلسل انتظار کی اس مجوسی روش کے برعکس اسلام میں ختمِ نبوت کا مطلب یہ ہے کہ بابِ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے۔مجوسی خیالات کے زیرِ اثر سر اٹھانے والے اس نظریہ ظہورِ مسیح و مہدی  پر  ابن خلدون نے   تنقید کرکے ہمیشہ کے لئے ثابت کر دیا کہ اسلام میں اس کی کوئی جگہ نہیں"۔(تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ۔  اواخرِ خطبہ پنجم۔ تلخیص و مفہوم)۔مسیح اور مہدی کے نزول کا تخیل سراسر غیر اسلامی ہے۔  جب قرآن حکیم میں ان  کی  آمد کا کوئی تذکرہ یا وعدہ نہیں ہے تو لامحالہ ان روایات کو  ناقابل اعتماد قرار دینا پڑے گا۔ مسیح اور مہدی کا انتظار کرتے رہنے کے بجائے خود مسلمانان عالم ہی وہ کام کیوں نہ کریں جو وہ مسیح اور مہدی سے متعلق سمجھتے ہیں"(اقتباس از ملفوظات اقبال یوسف سلیم چشتی)
https://youtu.be/k8WeKuR2vEY?si=fWbdHNGLBvxM3_vb
چاہیئے تو یہ تھا کہ خوابِ اقبال کی تعبیر کے تحت ہمارے ملک کا بچہ بچہ ختمِ نبوت کا یہی تصور رکھتا مگر افسوس کہ اس ملک پر اقبال دشمن صوفی و ملا قابض رہے۔
طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ ملعون مرزائی ہوں یا  ہمارے صوفی و ملا دونوں ختمِ نبوت کے منکرین ہیں یعنی ایک طرف صوفی و ملا تو دوسری طرف قادیانی دراصل وضعی روایات و خرافات کی ایک ہی  تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
دوسرا  رہا معاملہ انسانی آزادی کا تو کتاب و سنت میں ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے کہ جو کسی بھی مذہب یا عقیدے کے لوگوں کو آزادئ اظہار سے محروم کر دے، یہ توہین وغیرہ کے مسائل فقہی مو شگافیاں تو ہو سکتی ہیں مگر کتاب و سنت کے احکام نہیں کہ کوئی فرد یا گروہ اٹھ کھڑا ہو اور دوسرے انسانوں سے حقِ آزادئ اظہار سلب کر لے۔ ایک طرف اقلیت قرار دلوائے تو دوسری طرف عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر اقلیتوں کے حقوق ہی سلب کرنے پر تل جائے۔۔۔ ہم اتنے کمزور نہیں کہ مرزا ملعون کے ماننے والے خبیث لوگ اپنی تبلیغ سے ہمارے ایمان کے پرخچے اڑا کر رکھ دیں گے۔ کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سے کسی بھی شخص سے حقِ آزادئ اظہار یا حقِ تبلیغ چھیننے کا مجاز کیسے ہو گیا جبکہ کتاب و سنت میں ایسی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔ بقولِ سیدنا عمرِ فاروق رض :
تم نے لوگوں کو غلام کب سے بنا لیا جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا
ہر ایک کو اپنی بات شائستگی سے کہنے اور کرنے کا حق ہے۔ آپ اپنی تبلیغ کریں اور دوسروں کو اپنی تبلیغ کرنے دیں۔آپ مباحثہ کریں، جواب دیں مگر لوگوں کو خدارا آزاد چھوڑیں ۔۔  ضروری نہیں کہ لوگ میری، تمہاری یا ہماری بات مانیں۔۔۔ اللہ ہی نے انسانوں کو پیدا کیا اور پھر
عَلَّمَهُ الۡبَيَانَ (55:4) ، اس کو بیان کا علم دیا۔۔۔ ہم خدا کا دیا ہوا علم اور بیان کا حق کسی سے کیسے چھین سکتے ہیں۔ صدیقِ اکبر رض نے مدعیانِ نبوت کے خلاف جو جہاد و قتال کیا تھا وہ صرف جزیرہ نمائے عرب ہی میں کیا تھا پوری دنیا کے ہر خطے میں یہ جہاد برپا نہیں کیا تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم براہِ راست عربوں ہی کی طرف مبعوث ہوئے تھے لہذا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا تقاضا تھا کہ ان کے خلیفہ جزیرۂ نمائے عرب سے مدعیانِ نبوت کا صفایا فرما دیں۔۔۔ دنیا بھر کے مدعیانِ نبوت کے بارے میں کوئی حکم کتاب و سنت یا آثارِ صحابہ رض میں ہو تو میری بھی راہنمائی اور اصلاح فرما دیں کہ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا، خاکِ مدینہ و نجف
استغفراللہ کہ کتاب و سنت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ آپ یا ہم کسی توہین مثلا توہینِ رسالت پر فساد یا قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں ؟؟؟  کیا پورے قرآن یا ذخیرۂ روایات میں کوئی ایک بھی ایسی مستند تعلیم ہے؟ کیا  ایذا رسانیوں کے مقابلے میں صبر و تحمل کی تاکید ہے یا فسادی اقدامات کی ؟؟؟؟ میری راہنمائی وضعی روایات سے نہیں اور نہ علماء کے بیانات سے فرمائیے۔۔۔ کتاب و سنت سے میری اصلاح فرمائیے۔ اس سلسلے میں وحیدالدین خان کا ایک مضمون پیشِ خدمت ہے:

شتم رسول کا مسئلہ


قرآن، اسلام کی سب سے زیاده مستند کتاب( source book) ہے- قرآن میں کچهہ ایسے جرائم کا ذکر ہے جو قرآن کے نزدیک، قابل سزا جرم کی حیثیت رکهتے ہیں- قرآن میں جہاں اس قسم کے جرائم کا ذکر ہے، وہیں واضح الفاظ میں ان کی سزا کا بهی ذکر ہے-


اس کی مثال وه جرم ہے جس کو اسلام میں، قذف، کہا جاتا ہے- اس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیت یہ ہے : یعنی جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پهر چار گواه نہ لائیں، تو ان کو اسی کوڑے مارو-(24:4)


قرآن کی اس آیت سے معلوم هوتا ہے کہ ایک پاک دامن عورت کی عصمت پر کوئی شخص بے ثبوت الزام لگائے تو وه قرآن کی نظر میں ایک ایسا مجرم بن جاتا ہے جس کو عدالتی کارروائی کے بعد جسمانی سزا دی جائے- اس معاملے میں قرآن نے جب جرم کا ذکر کیا تو اسی وقت اس کی متعین سزا کا بهی ذکر کر دیا-


اب دوسرے پہلو سے غور کیجئے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پچهلے زمانوں میں اللہ تعالی نے ہر قوم اور ہر بستی میں لگاتار پیغمبر بهیجے (23:44)- قرآن مزید یہ بتاتا ہے کہ ان تمام پیغمبروں کے ساتهہ ان کے معاصرین نے وہی منفی روش شدید تر انداز میں اختیار کی جس کا ذکر قرآن کی مزکوره آیت میں پاک دامن خواتین کی نسبت سے کیا گیا ہے- مثلا قرآن میں فرمایا کہ : یعنی بندوں پر افسوس ہے، جو رسول بهی ان کے پاس آیا، وه اس کا مزاق ہی اڑاتے رہے-(36:30)


قرآن میں دوسو سے زیاده ایسی آیتیں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کے معاصرین نے مسلسل طور پر وہی فعل کیا جس کو آج کل " اہانت رسول " کہا جاتا ہے- کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو کذاب (40:24) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو مجنون (15:6) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کو مفتری (16:101) کہا، کسی نے اپنے پیغمبر کو سفیہ (7:66) کہا، کسی نے اپنے زمانے کے پیغمبر کا استہزا کیا (36:30)، وغیره- قرآن میں کثرت سے اس قسم کے توہین آمیز کلمات کا ذکر ہے، لیکن قرآن میں کہیں بهی یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسے لوگوں کو کوڑے مارو یا ان کو قتل کر دو، قرآن میں ایسی کسی سزا کا مطلق ذکر موجود نہیں-


اس سے معلوم هوا کہ پیغمبر کی توہین سزا کا موضوع نہیں ہے، بلکہ دعوت کا موضوع ہے، یعنی جو شخص " توہین رسالت " کا ارتکاب کرے، اس کو جسمانی سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ دلیل کی زبان میں اس سے ایسی بات کہی جائے گی جس سے اس کا ذہن ایڈریس هو- دوسرے لفظوں میں یہ کہ " توہین رسالت " کا ارتکاب کرنے والوں کو دلیل کی زبان میں خطاب کر کے ان کی اصلاح کی کوشس کی جائے گی، نہ کہ ان کو قتل کرنا یا کوڑے مارنا-


اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : یعنی ان کے دلوں میں جو کچهہ ہے، اللہ اس سے خوب واقف ہے- پس تم ان سے اعراض کرو اور ان کو نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے-(4:63) 


اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے خلاف جو لوگ منفی روش اختیار کرتے ہیں، ان کو سزا دینا اللہ کا کام ہے، جو ان کے دلوں کے حال کو جانتا ہے- تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم ان کی ایذا رسانی کو نظر انداز کرتے هوئے ان سے درد مندانہ نصیحت کا معاملہ کرو، تم ان کو ایسے موثر انداز میں نصیحت کرو جو ان کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی هو-


اس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سوره الغاشیہ ہے- اس کی متعلق آیتوں کا ترجمہ یہ ہے : " کیا وه اونٹ کو نہیں دیکهتے کہ وه کیسے پیدا کیا گیا، اور زمین کو کہ کس طرح بچهائی گئی- پس تم یاد دہانی کرو، تم صرف یاد دہانی کرنے والے هو، تم ان پر داروغہ نہیں- مگر جس نے رو گردانی کی اور انکار کیا، تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا- ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے، پهر ہمارے ذمے ہے ان کا حساب لینا "-(26-17)-


قرآن کی ان آیتوں سے معلوم هوتا ہے کہ قرآن کا وه اسلوب کیا ہے جس کی تلقین پیغمبر کو کی گئی تهی- وه اسلوب یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل کے ذریعے خطاب کیا جائے- دین کی صداقت پر ان کو عقلی طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے- مخاطب کے منفی ردعمل کے باوجود دعوت کا یہی مثبت اسلوب آخر وقت تک جاری رہے گا- داعی کا یہ کام نہیں کہ وه ان کے اوپر داروغہ بن کر ان کو سزا دینے لگے- اس کے بعد جہاں تک سزا وجزا کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ سے ہے- قیامت میں اللہ ہر ایک کو اکهٹا کرے گا اور پهر ہر ایک کے عمل کے مطابق، اس کے لیے جزا یا سزا کا فیصلہ فرمائے گا-(الرسالہ، مئی 2014 -وحیدالدین خان)

 ()

Comments

Popular posts from this blog

عمران خان اور قائداعظم۔۔۔۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ