Posts

Showing posts from July, 2018

سماجی ذرائع ابلاغ: ایک عمومی رجحان کا جائزہ

سماجی ذرائع ابلاغ ایک عمومی رجحان کا جائزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ) drziaullahzia@gmail.com ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والا مواد  مختلف افراد کی داخلی کیفیات اور سماجی مصروفیات کا عکاس ہوتا ہے۔ مثلا ایسا معلوم دیتا ہے کہ جو بھی شخص دین و مذہب سے جس قدر بیگانہ اور جس قدر رندِ خرابات ہے وہ اسی قدر مذہبی نوعیت کے امور میں سرگرمِ عمل نظر آتا ہے کبھی جمعہ مبارک تو کبھی رمضان مبارک کبھی مغفرت کی دعائیں تو کبھی کتاب و سنت سے اقتباسات۔فیس بک ہو یا وٹزہیپ شب و روز  بس یہی سلسلے زور و شور سے جاری رہتے ہیں۔ روزہ ہے تو شاز شاز نماز ہے تو نظرانداز مسجد ہے تو اس سے بھی اعراض قرآن کا مطالعہ ہے تو اس سے بھی اغماض مگر مذہبی پیغامات ہیں کہ شب و روز کا اوڑھنا بچھونا بنے ہیں۔ ان بیچاروں کا قصور نہیں ان کے ماں باپ اور معاشرے نے انہیں یہی کچھ سکھایا ہے کہ تم نماز پڑھو یا نہ پڑھو، جو فضول اور گندا کام کرنا ہے کرو مگر تم پھر بھی مسلمان ہو۔ مگرضمیر آخر کو کچوکے لگاتا ہے اور احساسِ گناہ لاشعور پر طاری ہوتا ہے تو یہ نچلے نہی

قربانی کی قبولیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم قربانی کی قبولیت تحریرِ : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ) drziaullahzia@gmail.com . ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           اس سے قبل کہ اصل عنوان کو زیرِ بحث لایا جائے تمہیداً منطق یعنی logic کے ایک بنیادی اصول کو ایک سادہ مثال سے سمجھ لیجئیےـ منطق میں دو مقدمات کے باہمی تقابل سے ایک نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ مثلاً مقدمہ  اول ہے کہ جمشید ایک انسان ہے اور مقدمہ دوئم ہے کہ ہر انسان کی 2 آنکھیں ہیں۔ ان مقدمات سے لامحالہ یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جمشید اگر انسان کا بچہ ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کی بھی دو عدد آنکھیں ہی ہوں۔ بعینہ قرآنی آیات کے منطقی استدلال سے بھی تفسیری نتاج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مقدمہ اول ہے کہ اعدت للمتقین کہ جنت متقین کے لئے تیار کی گئی ہے اور مقدمہ ثانی ہے کہ من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوی فان الجنة ھی الماوی کہ جس نے اپنے رب کے حضور پیشی کے خوف سے اپنے تئیں خواہشاتِ نفسانی سے بچا لیا جنت اسی کو سزاوار ہے۔ ان مقدمات سے یہ نتیجہ بجا طور پر اخذ ہوتا ہے کہ متقی وہ شخص ہے کہ جو خدااندیشی کے تحت خواہشات

قربانی کی شرعی حیثیت و اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم قربانی کی شرعی حیثیت اور اہمیت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ) drziaullahzia@gmail.com .................................................................          تمام محقق علماء (مثلا مولانا عمر احمد عثمانی ، پروفیسر رفیع اللہ شہاب اور جاوید احمد غامدی وغیرھم) کے نزدیک عیدالاضحیٰ پر یہ جو گلی گلی محلے محلے اور شہر شہر قربانی کی جاتی ہے اس کی کوئی بھی شرعی حیثیت ہی نہیں ہے چہ جائیکہ اس کے مسائل پر تبصرہ کیا جاوے۔ ان عُلماء کے نزدیک قربانی کا اصل محل یعنی مقام از روئے قرآن صرف بیت عتیق یعنی حرم ہے اور یہ صرف اُن حاجیوں پر فرض ہے کہ جو حج کی متروک قسم حج تمتع ادا کریں یعنی عمرہ اور حج ایک ہی احرام سے ایک ہی مرتبہ ادا کریں۔ یہ نہ تو تمام حاجیوں پر فرض ہے اور نہ تمام مسلمانوں کے لئے فرض یا واجب ہے۔ اسلام میں عبادات صرف فرض ہیں یا نفل۔ واجب یا سُنتِ مؤکدہ (و غیر مؤکدہ) وغیرہ کی اصطلاحات بعد کی اختراع ہیں۔ ابوبکر و عمر اور دیگر کئی صحابہ رضوان اللّٰہ تعالٰی عنھم نے کبھی بھی عیدالاضحی پر  استطاعت کے باوجود  بھی قربانی نہیں کی مبادا  متاخرین اسے فرض نہ سمجھ لیں۔

نقد روایات

نقدِ روایات (ایک تنقید کے جواب میں) تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ۔ پنجاب۔پاکستان) drziaullahzia@gmail.com *************************************** میں نے تو بس اتنی سی جسارت کی تھی کہ اُن روایات کی صحت کو طشت از بام کیا تھا جن کے زیرِ اثر آنحضرتﷺ پر طلسمِ لبید اور سیدہ عائشہﷺ کی کمسنی میں شادی کا ناروا پرچار کیا جاتا ہے۔ آپ نے بھی کیا خوب مقطع چھیڑا ہے اب جواب آں غزل بھی ملاحظہ فرمائیے اور خُوگرِ حمد سے کچھ گلہ بھی سُن لیجیئے چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر کہ بانگِ صُورِ سرافیل دلنواز نہیں بخاری کی ان وضعی و مجروح روایات پر راقم الحروف کا نقد ونظر آپ کی طبعِ نازک پر کسی  قدر گراں گزرا توآپ جناب نے بھی خُوب گُل افشانی کی اور ان الفاظ کا سہارالیا: ”منکرین سنت و حدیث“ اور  ”عقیدہ حدیث“۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ ان کے بارے میں تو بس یہی عرضِ خدمت ہے کہ ما ھی الا اسماء سمیتموھا انتم و آباءکم۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہیں یہ اصطلاحات ما سوائے چند خود ساختہ ناموں کے جو کہ تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے  خود گھڑ رکھے ہیں ۔۔۔ ما ینزل بہ سلطانا۔۔ جبکہ اللہ تعالی نے ان کے حق میں کوئی سند بھی نہیں

جادو کا بہتانِ عظیم

جادو کا بہتانِ عظیم   تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ (گوجرہ) drziaullahzia@gmail.com                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنحضرتﷺ پر جادو کی تہمت میں روایات و خرافات کے پیروکار صغیرے کبیرے سب حصہ بقدرِ جثہ کے تحت یعنی حسبِ توفیق برابر کے شریک ہیں۔ اس ضمن میں سب outdated مواد کا سہارا اس لئے لے رہے ہیں کہ کہیں ان کے دین کی خود ساختہ روایاتی اساس کو دھچکا نہ لگے۔اس ضمن میں کسی مزید تفصیل میں جانے کی بجائے میں چند نکات پر ہی اکتفاء کروں گا۔ ١۔ روایات دین نہیں۔ دین کی بنیادی اساس صرف اور صرف قرآنِ مجید ہے اور صرف اسی کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ہے۔ نہ بخاری کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور نہ مسلم کی۔ لہذا روایات دینی معلومات کے ضمن میں ایک غیر محفوظ ذریعہ استنباط ہیں۔ صدرِ اول کی صرف اور صرف ایک ہی شے  اگر محفوظ اور مصدقہ ہے تو وہ صرف اور صرف قرآنِ مجید ہے۔ اس دور کے بارے میں بھی جاننا ہوں تو صرف اور صرف یہی کتاب اس کا ذریعہ ہے کیونکہ جب سندھ سے سپین تک تمام علاقہ مسلمانوں کے زیرِ نگیں آ چکا  تھا تو یہ نبئ محت

TAWAKUL توکل

توکل کا مطلب تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ گوجرہ (پنجاب۔ پاکستان) drziaullahzia@gmail.com ...................................... توکل کا مطلب صدیوں کے عجمی اثرات کے زیرِ اثر کچھ کا کچھ ہو چکا ہے۔ توکل کہتے ہیں اللہ کے قوانین پر بھروسے اور اعتماد کو۔ مثلا یہ کہ پانی ڈھلوان ہی کی طرف بہے گا اور جب تک مطلوبہ پریشر نہیں ہو گا نہ پانی فوارہ بن کر بلند ہو گا اور نہ راکٹ کششِ ارضی سے باہر جا سکے گا۔ اللہ کے  قوانین  مادی یا طبعی دنیا میں جس طرح کار فرما ہیں بعینہ اس کی روحانی دنیا بھی ایسے ہی قوانین پر مشتمل ہے جن پر اعتماد کا نام توکل ہے۔ یعنی اس کا قانون ہے للذین احسنوا فی ھذہ الدنیا حسنة (القرآن) جن لوگوں نے اس دنیا میں بہترین کارکردگی دکھائی ان ہی کے لئے تمام تر کامیابیاں و کامرانیاں اور سرفرازیاں ہیں۔ یعنی جو کمیت و کیفیت یعنی quantity اور quality کے معیار پر پورا نہیں اترے گا وہ کبھی بھی دنیا میں کامیاب ہو گا نہ آخرت میں۔ ایسے ہی قوانین پر اعتماد کا نام توکل ہے۔ اگر وہ مطلوبہ محنت نہیں کرے گا تو دعائیں بھی اس کا کچھ بگاڑ نہ پائیں گی کیونکہ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا