Posts

Showing posts from June, 2020

عیش پسندی

Image
آپ ایسے بے شمار مسلمان دیکھیں گےکہ دنیا کے معاملات  تو ہر وقت ان کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں، اس میں ذرا سا گڑبڑ ہو تو وہ انتہائی حد تک بے چین ہو جاتے ہیں مگر اسلام اور آخرت سے متعلق چیزوں میں بس واجبی فرائض پر قناعت کئے ہوئے ہیں۔ ان کا اسلام اس سے آگے انہیں کوئی بے چینی عطا نہیں کرتا۔ ان کا اسلام ناقص ہے۔ ان کا اصل مذہب دنیا پرستی ہے نہ کہ آخرت پسندی۔انقلابِ عالم کے مسئلہ پر پورا زور صرف ہو رہا ہے اور انقلابِ نفس کامسئلہ صرف واجبی فرائض کی حد تک قابلِ توجہ بنا ہے۔ یہ  حقیقت اتنی واضح ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے "جان بوجھ کر" اپنے لئے سادہ اور خشک زندگی کو پسند فرمایا تھا۔ کان ازھدالناس فی الدنیا مع القدرة علیھا (نبی ﷺ باوجود قدرت کے اشیاۓ دنیا سے لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیز کرنے والے تھے۔ ابنِ کثیر)ـ دنیا کی زندگی میں مومن کو آرام نہیں ڈھونڈنا چاہیئے کیونکہ اس سے آخرت کا احساس کمزور پڑ جاتا ہے۔ دنیا کی نعمتوں کو ہم "قیام" کا ذریعہ سمجھیں۔ ان کو نعمت کی نظر سے دیکھنا مومن کے شایانِ شان نہیں کیونکہ مومن کی نعمت تو خدا اور اس کی جنت ہے۔آخرت کی تڑپ سے وہی دل آشناء ہو

اسلام اور تعدد ازواج تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء

اسلام اور تعدد ازواج تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاء اللہ تعالی نے کہیں کسی ایک جگہ بھی قرآنِ مجید میں ایک سے زائد نکاح کا حکم نہیں دیا صرف رخصت یا اجازت دی ہے اور وہ بھی یتیموں اور بیواؤں کے تذکرہ میں ضمنی طور پر۔ اگر آپ ان آیات کے سیاق و سباق کو پڑھیں تو یہی معلوم دیتا ہے کہ اگر تمہیں معاشرےمیں یتیموں (اور بیواؤں ) کے بارے میں (ان کی نگہداشت و پرورش کا) اندیشہ دامن گیر ہو تو پھر اس (ہنگامی و غیرمعمولی ) صورتِ حال میں دو، دو ، چار چار سے نکاح کر سکتے ہو وَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِى الۡيَتٰمٰى (اگر تمہیں اس امر کا اندیشہ ہو کہ یتیموں یعنی بے سہارا بچوں اور بیواؤں کی بجا طور پر نگہداشت نہ کر پاؤ گے) فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‌ ‌ (تو پھر اس صورتِ حال میں ان عورتوں یعنی بیواؤں میں سے جو تمہاری طبیعت کے موافق ہوں، دو دو، تین تین یا چار چار  خواتین سے نکاح کر لو) فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَةً  (4:3) (لیکن اگر پھر بھی تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ عدل نہ کر پاؤ گے تو پھر صرف ایک ہی بیوہ کو بیوی بنانے پر اکتفاء کرنا ل

خطبہ ء حجة الوداع

خطبہ حجة الوداع (خطباتِ حجۃ الوداع…  صحیح احادیث ِنبویﷺ کی روشنی میں) تحریر: ملک کامران طاہر (تجمیع و تدویر و و ترتیب و تہذیب و تدوین و تلخیص از ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     [خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق سیرت کی کتابوں میں اکثر مصنّفین نے صحیح احادیث کا اہتمام نہیں کیا، تمام رطب و یابس جمع کردیا ۔ نبی کریمﷺ کے خطبات جو آپؐ نے تین دن مختلف مقامات واوقات میں دیے، ایک ہی جگہ جمع کردیئے گئے اور ان تینوں خطبوں (۹،۱۰،۱۲ ذوالحجہ کے خطبات جو یوم عرفہ، یوم النحر، یوم الرؤس اوسط ایام التشریق کے نام سے مشہور ہیں) کوایک ہی خطبہ (یعنی خطبہ حجۃ الوداع) کا نام دے دیا گیا۔  بعض بے سند تاریخی روایات بھی خطبات حجۃ الوداع کے نام سے متداول ہوچکی ہیں۔اس مضمون میں صرف صحیح روایات کا چناؤ کیا گیا ہے۔ ذیل میں پیش کردہ روایات کی تحقیق و تخریج بقدر امکان کی گئی ہے ۔اور احتیاط کے لیے احادیث کے تراجم نامور سیرت نگاروں کی کتب سے لئے گئے ہیں، صرف وہ احادیث جن کا ترجمہ ان کتب سے نہ مل سکا ، راقم کا کیا ہوا ہے۔ وما توفیقي إلا بالله]