Posts

Showing posts from July, 2020

آیا صوفیہ (بلا تبصرہ)

https://youtu.be/4Hi_n9WdNXg روس میں مشرقی آرتھوڈاکس کلیساؤں کے وفاق کے سربراہ نے کہا تھا کہ انہیں ترک حکومت کے اس اقدام پر تشویش ہے۔ واضح رہے کہ آیا صوفیہ تعمیر کے بعد سے کئی صدیوں تک مشرقی آرتھوڈاکس کلیسا کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ روسی مذہبی رہنما نے کہا کہ آج قدیم کلیسا کے ہر روسی پیروکار کے لیے آیا صوفیہ ایک عظیم عیسائی عبادت گاہ ہے اور اس کی موجودہ حیثیت میں کوئی بھی رد و بدل روسی عوام کے دکھ کا باعث ہو گا۔  انہوں نے ترک حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لیں۔ یونیسکو نے بھی ایک بیان میں اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یونان کی وزیر ثقافت لینا منڈونی نے اس عدالتی فیصلے کو مہذب دنیا کے لیے 'کھلی اشتعال انگیزی' قرار دیتے ہوئے کہا 'آج کا فیصلہ، جو صدر اردوغان کی سیاسی خواہش کا نتیجہ ہے، مہذب دنیا کے لیے کھلی اشتعال انگیزی ہے، جو اس یادگار کو اتحاد کی علامت سمجھتی اور اس کی منفرد خصوصیت کو جانتی ہے۔' آیا صوفیہ کا تاریخی پس منظر اس عمارت کو 537 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ بازنطینی طرزِ تعمیر کے شاہکاروں میں سے

قائد اعظم ،سیاست اور دولتمندی

تاریخ قائد اعظم ،سیاست اور دولتمندی December 25, 2016 1:23 am ·  4 comme سید نصیر شاہ مشہور مسلم لیگی لیڈر سردار شوکت حیات اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں’’قائد نے اپنے کارکنوں کی بھلائی او ربہبود پر ہمیشہ نظر رکھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آغاز 1947ء میں مجھے نصیحت کی کہ مجھے سیاست چھوڑ دیناچاہئے میں نے کنکھیوں سے اُن کی طرف دیکھا جس پر اُنہوں نے جواب دیا میں جانتا ہوں کہ تم یہ سُن کر ضرور حیران ہوگے کہ مےَں ایک جان نثار کارکن کو جنگ کے دوراں علیحدگی کا مشورہ دے رہا ہوں۔ جبکہ تمہاری ضرورت ہے مگر شوکت میں جانتا ہوں کہ تم ایک محنتی، بااصول اور دیانتدار شخص ہو۔ تم نے پاکستان کے لئے بڑی قربانی دی ہے لیکن تم میں ایک کمی نظر آتی ہے تمہارے پاس وہ وسائل نہیں ہیں جو پنجاب کے دوسرے لیڈروں کے پاس ہیں۔ براہ مہربانی جاؤ او ردولت حاصل کرو۔ کیونکہ وہ قوم جس کی تم خدمت کررہے وہ اپنے لیڈر کی جیب سکوں کی کھنک سننے کی عادی ہے۔ مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاں جیسے بڑے لوگوں کو دیکھو اُنہیں اپنی خدمات کا صلہ کیا ملا۔ حتیٰ کہ مجھے بھی اُس وقت تک قبول نہ کیا گیا جس وقت تک میں نے اپنی محنت

میں اور جماعتِ اسلامی

Image
میں اور جماعتِ اسلامی  تحریر : ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ       میں جماعتِ اسلامی کے سخت خلاف ہوں اس لئے کہ اس کے بانی سید مودودی نے قائداعظم کو غدارِ ملت اور رجل فاجر کہا اور قیامِ پاکستان اور قائداعظم کی ہمیشہ مخالفت کی نیز بہت سی وضعی روایات کی اساس پر کئی مقامات پر کتاب اللہ کی غلط تفہیم کی جسے ان ہی کے ساتھی امین احسن اصلاحی نے تدبرِ قرآن میں درست کیا نیز انہی وضعی روایات کی آڑ میں سید مودودی نے صحابہء کبار پر کیچڑ اچھالا اور خلافت و ملوکیت جیسی متنازعہ کتاب لکھی۔ تحقیق کا عالم تو یہ ہے کہ یہ اعتراف کرنے کے باوجود کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمدِ ثانی کا کوئی واضح ذکر قرآن میں نہیں ہے اس کے باوجود وفاتِ مسیح کے بعد بھی انہیں زندہ مانتے رہے اور وضعی روایات کی آڑ میں ان کی آمدِ ثانی کے قائل رہ کر ختمِ نبوت کے تصور ہی کہ نفی کی۔ نیز مسئلہ ملکیتِ زمین غلط بیان کرکے سرمایہ داری اور جاگیرداری کو مٹنے نہ دیا۔ رضائے ایزدی تم نے کہا دینِ الہی کو نہیں مٹنے دیا تم نے نظامِ کج کلاہی کو امیروں کی حمایت میں دیا تم نے سدا فتویٰ نہیں ہے دیں فروشو یہ کوئی ہم پر نیا فتویٰ       برسوں پرانی بات ہے

مشیت ، ہدایت اور مغفرت

Image
   مشیت ، ہدایت اور مغفرت   تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ                 سوال یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے ہدایت دے ، جسے چاہے گمراہ کرے، جسے چاہے بخش دے ، جسے چاہے عذاب دے پھر کسی کا کیا دوش ؟ جب ہم تراجم میں پڑھتے ہیں”من یشآء“ (جس کو چاہتا ہے)  تو سرسری طور پر ایک  نوع کے فکری مغالطے میں مبتلا ہو کر یہ سمجھ بیٹھتے کہ اللہ تعالی (نعوذ باللہ) کسی اصول و ضابطے کے بغیر خوامخواہ ہم مجبوروں  پر مختاری کر رہا ہے۔اس کے ہاں جنگل کا قانون رائج ہے اور  ہم  شاہی معاملات میں مداخلت کے مجاز نہیں اور مزاجِ شاہاں اسی کو سزاوار ہے کہ گاہے بہ سلامے برنجند (کبھی تو صاحب سلامت کہنے پر غصے میں آگئے) گاہے بہ دشنامے خلعت بخشند (کبھی گالیاں دیں تو  خلعت سے نواز دیا) کبھی ملک لوٹنے والوں کو اپنے گھر حاضری کی سعادت بخشی اور کہیں ملک بنانے والوں اور ملک کا خواب دیکھنے والوں کو اپنے در کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہ

کلامِ بے فیضؔ: فیض سے منسوب ایک نظم کا تنقیدی جائزہ

کلامِ بے فیضؔ: فیض سے منسوب ایک نظم کا تنقیدی  جائزہ  ـاز ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ۔۔۔۔۔گوجرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس   دیس   میں    آٹے    چینی  کا بحران   فلک     تک      جا     پہنچے جس   دیس   میں  بجلی  پانی    کا فقدان   حلق   تک     جا       پہنچے جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ  فیض احمد فیض سے جن نے اکتسابِ فیض نہ کیا  ہو یا اس کے نسخہ ہائے وفا سے وفا نہ کی ہو ان کے لئے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ ہر کس و ناکس وہما شما کے کلام کو کلامِ فیض بنا کر پیش کردیں یا اس کا ابلاغ کریں تاہم فیض یافتہ احباب پر یہ سب کچھ گراں گزرتا ہے۔      زیرِ نظر نظم پر تبصرہ سے پہلے تمہیدا عرض ہے کہ یہ نظم فیض سے زیادہ کسی مذہبی جماعت کے شاعر کی معلوم دیتی ہے کیونکہ فیض  جیسے  اشتراکی  (Socialist) و اشتمالی (communist)    رجحانات   کے حامل  شاعر سے یہ بعید ہے کہ وہ نظامِ زروسیم کے مکمل خاتمہ کی بجائے صرف آٹے چینی کے بحران پر نظمیں لکھے۔  فیض چور کو نہیں بلکہ چور کی اس ماں کو مارنا چاہتا ہے جو اس نوع کے چوروں کو جنم دیتی ہے۔  گو کے ذیل میں درج شعر

امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ

Image
امیروں کی جنت تحریر: ڈاکٹر ضیاءاللہ ضیاءؔ ـ گوجرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت صرف اچھے کاموں پر نہیں بلکہ سختیوں، تکالیف اور جھٹکوں سے گزر کر ملے گی اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا (2:214) تم کیا سمجھ بیٹھے ہو کہ محض یونہی جنت میں جا داخل ہو گے جبکہ ابھی تو تم پر وہ آفتیں نہیں آئیں جیسا کہ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر ٹوٹیں۔ انہیں سختیوں، تکلیفوں نے گھیرا اور وہ جھٹکوں سے  ہلا ئے گئے۔ انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے جبکہ جہنم میں جانے کے لئے آرام و آسائش ہی کافی ہے کسی برائی کا سرزد ہونا تو بہت دور کی بات ہے اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَبۡلَ ذٰ لِكَ مُتۡرَفِيۡنَۚ وَكَانُوۡا يُصِرُّوۡنَ عَلَى الۡحِنۡثِ الۡعَظِيۡمِ‌ۚ (46-56:45) دوزخ کی آگ  میں آنے سے پہلے یہ بڑے آرام و آسائش والے خوشحال لوگ تھے اور اسی حنثِ عظیم (بڑے قصور یعنی آرام طلبی) میں مبتلا تھے۔ یہی آرام طلبی ،